ایک مرتبہ پھر پاکستان نے سیریز ہارنے کے بعد آخری مقابلہ جیت کر محض دل جیتنے پر ہی اکتفا کیا، کیونکہ سیریز جیتنا پاکستان کے بس کی بات نہیں لگتی، کم از کم 2 سال کی داستان تو یہی بتاتی ہے۔

نیپیئر میں کھیلے گئے تیسرے ٹی20 میں بھی جیتی ہوئی بازی پاکستان کے ہاتھوں سے نکلنے ہی والی تھی کہ آخری اوور کی چوتھی گیند پر افتخار احمد نے ایک کرارے چھکے سے میچ کا فیصلہ کردیا۔ حالانکہ پاکستان کو آخری 23 گیندوں پر صرف 33 رنز کی ضرورت تھی اور اس کی 8 وکٹیں باقی تھیں، لیکن اس کے باوجود مقابلہ آخر تک چلا گیا بلکہ یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ حریف کے جبڑوں سے جیت چھیننا پڑی۔

آخری چند اوورز میں خوشدل شاہ، فہیم اشرف اور شاداب خان کے یک بیک آؤٹ ہونے اور آخری اوور میں رضوان کی اننگز کے خاتمے سے پاکستان کی کہانی تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ یہ تو افتخار کا بھلا ہو کہ ‘سو سُنار کی’ کے مقابلے میں ‘ایک لوہار کی’ دکھا دی، اور یوں نیوزی لینڈ کا ہوم گراؤنڈ پر مسلسل 11 انٹرنیشنل میچ جیتنے کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

آخری ٹی20 میں کامیابی نے پاکستان کے حوصلے ضرور بڑھائے ہوں گے۔ خاص طور پر انفرادی سطح پر کہ جہاں محمد رضوان اور فہیم اشرف نے اپنی اہمیت اور اہلیت کو ثابت کیا اور محمد حفیظ نے تو بہت سے ناقدین کے منہ بند کروا دیے ہیں۔

تیسرے ٹی20 میچ جیتنے کے بعد قومی ٹیم کے کھلاڑی خوش دکھائی دے رہے ہیں: تصویر بشکریہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ ٹوئٹر پیج
تیسرے ٹی20 میچ جیتنے کے بعد قومی ٹیم کے کھلاڑی خوش دکھائی دے رہے ہیں: تصویر بشکریہ نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ ٹوئٹر پیج

لگتا ہے ناقدین 'اعداد و شمار' نہیں دیکھتے۔ حفیظ کے لیے تو 2020ء بہت ہی شاندار سال رہا، جس میں انہوں نے دنیا کے کسی بھی دوسرے بیٹسمین سے زیادہ رنز بنائے ہیں۔ خود دیکھ لیں، 10 میچوں میں 83 کے ناقابلِ یقین ایوریج اور 152 سے زیادہ کے حیران کُن اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 415 رنز۔ سال کے بڑے حصے میں نمبر وَن ٹی20 بیٹسمین رہنے والے بابر اعظم کے 8 میچوں میں صرف 276 رنز ہیں، وہ بھی 55 کے اوسط اور 144 کے اسٹرائیک ریٹ سے۔

گزشتہ تقریباً ہر سیریز میں حفیظ کی کوئی نہ کوئی شاہکار اننگز موجود ہے جیسا کہ نیوزی لینڈ کے اس دورے پر 41 اور 99 رنز کی اننگز سے پہلے انگلینڈ میں 86 اور 69 اور بنگلہ دیش کے خلاف 67 رنز کی اننگز، حالانکہ 2019ء میں حفیظ نے ایک ٹی20 بھی نہیں کھیلا تھا۔

لیکن خدا لگتی کہیں تو یہ نتیجہ پاکستان کو زیب نہیں دیتا۔ ایک ایسی ٹیم جو ٹی20 کی عالمی چیمپیئن رہی ہو، سب سے لمبے عرصے تک نمبر وَن رہنے کا اعزاز رکھتی ہو بلکہ ٹی20 انٹرنیشنل میں اس سے زیادہ کامیابیاں آج تک کسی نے حاصل نہیں کیں، اس کی حالیہ کارکردگی مایوس کُن نہیں بلکہ بھیانک ہے۔ خاص طور پر گزشتہ 2 سالوں میں تو پاکستان نے کسی قابلِ ذکر ٹیم کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کی اور 8 میں سے صرف 2 سیریز جیتی ہیں، بنگلہ دیش اور زمبابوے کے خلاف اور وہ بھی ہوم گراؤنڈ پر۔ باقی جہاں بھی گئے، شکست کی داستان چھوڑ آئے ہیں۔ جنوبی افریقہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک۔ رواں سال دورۂ انگلینڈ میں ٹی20 سیریز بھی بارش کی وجہ سے برابر ہوگئی، ورنہ اس کا نتیجہ بھی نجانے کیا نکلتا۔

گزشتہ سال ٹی20 میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف بالکل اسی طرح سیریز ہار کر آغاز لیا، جیسے ابھی نیوزی لینڈ سے ہارا ہے۔ یعنی پہلے دونوں میچوں میں شکست اور پھر آخری میچ میں لاحاصل کامیابی۔

پھر انگلینڈ کے دورے پر واحد ٹی20 ہارا اور اس کے بعد سب سے مایوس کن شکست کھائی۔ ہوم گراؤنڈ پر، لاہور میں کھیلے گئے 3 تاریخی میچوں میں سری لنکا کے ہاتھوں ہار۔ دورۂ آسٹریلیا میں پاکستان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ تو سب کو ہے، یہاں بھی 0-2 سے شکست ہی نصیب ہوئی۔ بنگلہ دیش کا دورۂ پاکستان اور یہاں 0-2 سے کامیابی غالباً 2 سال میں پاکستان کا واحد ‘قابلِ ذکر’ کارنامہ ہے۔ دورۂ انگلینڈ میں ناکامی کا بدلہ بیچارے زمبابوے سے ہوم گراؤنڈ پر لیا گیا، جسے تینوں میچوں میں شکست دی گئی لیکن ان کامیابیوں کا پول نیوزی لینڈ میں کھل چکا ہے۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹی20 میں پاکستان کا زوال شروع ہوا نہیں، بلکہ اس کا آغاز ہوچکا ہے۔ گوکہ ہم نیوزی لینڈ کے خلاف کارکردگی کو اس کا جواز نہیں بنا رہے کیونکہ نیوزی لینڈ تو پھر بھی اپنے ہوم گراؤنڈ پر ایک بڑی طاقت ہے اور جس طرح پاکستان کے اس دورے کا آغاز ہوا، اس کے بعد تو بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ نہیں تھیں۔ لیکن سالہا سال کی کارکردگی اس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ پاکستان کو ٹی20 فارمیٹ میں اپنی کارکردگی میں معجزانہ بہتری لانا ہوگی، ورنہ آئندہ کے نتائج دل شکستہ ہوں گے۔

مختصر ورژن کی کرکٹ میں تو ویسے ہی حریف ٹیموں کے درمیان فرق گھٹ جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ نہیں ہے کہ آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے مابین ٹیسٹ کے بارے میں سب کو پہلے سے اندازہ ہو کہ کون جیتے گا اور یہ رائے 99 فیصد ٹھیک ہی نکلے گی۔ بلکہ یہ ٹی20 کرکٹ ہے، جہاں محض ایک اوور میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ یہاں بڑی اور چھوٹی ٹیموں کے مابین بھی زیادہ سے زیادہ 70:30 کا فرق رہ جاتا ہے۔ اس کا اندازہ پاک-لنکا سیریز سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں پاکستان ہوم گراؤنڈ پر وائٹ واش کی ہزیمت سے دوچار ہوا۔

نیوزی لینڈ کے اس دورے کی شروعات ہی حوصلہ شکن انداز میں ہوئی ہے۔ پہنچتے ہی اسکواڈ کے کئی اراکین کے کورونا ٹیسٹ مثبت آگئے۔ چند کھلاڑیوں کی بے پروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ نیوزی لینڈ کے محکمہ صحت نے پاکستان کو 'آخری انتباہ' جاری کیا کہ اب اگر کسی احتیاطی تدبیر سے روگردانی کی گئی تو دورہ منسوخ سمجھیں، تمام کھلاڑیوں کو پاکستان واپس بھیج دیا جائے گا۔ پھر 2 ہفتوں سے زیادہ کا عرصہ پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنی قیام گاہ ہی میں گزارا، انہیں ٹریننگ تک کی اجازت نہیں تھی۔ پھر جو کسر رہ گئی تھی، وہ کپتان بابر اعظم اور اوپنر امام الحق کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل گئی ہے۔

پاکستان نے نیوزی لینڈ کی ٹی20 فتوحات کا سلسلہ تو روک دیا ہے لیکن کیا ٹیسٹ میں ایسا کر پائے گا؟ نیوزی لینڈ ہوم گراؤنڈ پر پچھلے 15 میں سے کوئی ٹیسٹ نہیں ہارا۔ آخری بار مارچ 2017ء میں جنوبی افریقہ نے نیوزی لینڈ کو کوئی ٹیسٹ ہرایا تھا، اس کے بعد ویسٹ انڈیز، انگلینڈ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھارت میں سے کوئی اسے ایک میچ تک نہیں ہرا پایا ہے۔ یعنی کہ پاکستان کا ٹیسٹ امتحان کہیں بڑا ہوگا اور پہلے میچ میں بابر اعظم اور امام الحق کی عدم موجودگی میں تو یہ اور بھی بڑا ہو جائے گا۔

البتہ ٹیسٹ ریکارڈ پاکستان کے ساتھ ہے۔ 2016ء میں ٹیسٹ سیریز ہارنے سے پہلے تاریخ میں نیوزی لینڈ صرف ایک بار پاکستان کو اپنے ہوم گراؤنڈ پر سیریز ہرا پایا ہے۔ 1985ء میں، ورنہ 90ء کی دہائی سے آخری دورے تک کامیابی یا تو پاکستان کو ملتی، یا پھر سیریز ڈرا ہوتی۔ دیکھتے ہیں 26 دسمبر سے شروع ہونے والے 'باکسنگ ڈے' ٹیسٹ میں کیا ہوتا ہے؟

تبصرے (0) بند ہیں