پاکستان کرکٹ ٹیم کو کرائسٹ چرچ میں ایک اننگ اور 176 رنز کی عبرتناک شکست دے کر نیوزی لینڈ نے ٹی20 سیریز کے بعد ٹیسٹ سیریز بھی جیت لی ہے۔ پاکستان کرکٹ کی تقریباً 70 سال پر محیط تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ نیوزی لینڈ نے پاکستان کو 3 مسلسل ٹیسٹ سیریز میں شکست کی ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔

اگر ہم حالیہ ٹیسٹ سیریز میں ہونے والی شکست پر بات کرنے کی کوشش کریں تو کئی ایسے پہلو ہیں جن پر رائے دی جاسکتی ہے، اور انہی میں سے کچھ ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں۔

ٹیم سلیکشن

پاکستان کی شکست کے عوامل پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم منیجمنٹ کو اپنے پاس موجود کھلاڑیوں کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں، شاید اسی لیے مسلسل ناکامیوں کے باوجود پلیئنگ الیون میں تبدیلی کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

قومی ٹیم میں سلیکشن ہمیشہ ہی ایک سوالیہ نشان رہتی ہے۔ ٹیم کا انتخاب کرتے ہوئے کن چیزوں کو مدِنظر رکھا جاتا ہے یہ کم از کم کرکٹ کے مداحوں کی سمجھ سے تو بالاتر ہے۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے دورے پر کاشف بھٹی ٹیم کے ساتھ تھے لیکن ان کو کوئی بھی میچ کھلائے بغیر ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا اور ان کی جگہ منتخب کیے گئے ظفر گوہر پر ٹیم منیجمنٹ اتنی مہربان ہوئی کہ ان کو ٹیسٹ میچ بھی کھلا دیا۔

کپتانی کا معاملہ

پاکستان کی ٹیم اس دورے کے لیے نامزد کیے گئے کپتان بابر اعظم پر بہت زیادہ انحصار کر رہی تھی اور ان کی عدم دستیابی نے ٹیم کو ایک بھنور میں پھنسا دیا۔ بابر اعظم کپتان ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیم کے بہترین بلے باز بھی ہیں۔ بیٹنگ میں تو ان کا نعم البدل ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم کپتانی کے شعبے میں معاملہ ذرا مختلف ہے۔

ایک مشکل غیر ملکی دورے کے دوران قومی ٹیم کی کپتانی کا تجربہ رکھنے والے اظہر علی ناتجربہ کار محمد رضوان کے مقابلے میں بابر اعظم کا بہتر متبادل ثابت ہوسکتے تھے۔

بابر اعظم کی عدم دستیابی  نے ٹیم کو ایک بھنور میں پھنسا دیا
بابر اعظم کی عدم دستیابی نے ٹیم کو ایک بھنور میں پھنسا دیا

اظہر علی کا نام اس لیے لیا گیا کہ بابر اعظم سے پہلے وہی ٹیم کی قیادت کررہے تھے اور وہ موجودہ ٹیم میں واحد کھلاڑی ہیں جو گزشتہ 10 سال سے قومی ٹیم کا حصہ ہیں۔

محمد رضوان، بطور کھلاڑی چھا گئے

محمد رضوان نے ایک کھلاڑی کی حیثیت سے ٹیسٹ میچوں میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھا کر ٹیم میں اپنی سلیکشن کو درست ثابت کیا ہے۔ بیٹنگ کے شعبے میں وہ شاندار کارکردگی پیش کر رہے ہیں۔ وہ SENA ممالک (جنوبی افریقہ، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا) میں مسلسل 5 نصف سنچریاں بنانے والے جنوبی ایشیا کے دوسرے کھلاڑی بن گئے۔ ان سے پہلے یہ کارنامہ بھارت کے گنڈاپا وشواناتھ نے سرانجام دیا تھا۔

وشواناتھ کو ان ممالک میں مسلسل 7 نصف سنچریاں بنانے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس دورے سے قبل ہونے والے ٹیسٹ میچوں میں رضوان کی بطور وکٹ کیپر کارکردگی بھی شاندار رہی تھی لیکن اس دورے میں کپتانی کے اضافی بوجھ کی وجہ سے وکٹوں کے پیچھے ان کی کارکردگی میں کچھ جھول دیکھنے میں آیا۔

ناکام ہوتی باؤلنگ لائن

ماضی میں بہت ہی کم ایسا ہوا ہے کہ بیٹسمنوں نے اپنی ذمہ داری کو نبھایا ہو، وہ اکثر ہی ناکام رہتے تھے، لیکن ان کی ناکامی کو ہمارے باؤلرز کسی نہ کسی طرح چھپا لیا کرتے تھے، لیکن اس بار قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ پچھلے کچھ دوروں سے قومی ٹیم کی باؤلنگ لائن مخالف ٹیم کے سامنے تواتر سے پسپا ہو رہی ہے۔

انگلینڈ کے دورے میں باؤلرز نے کسی حد تک تسلی بخش کارکردگی دکھائی، لیکن اس کے بعد دورہ آسٹریلیا اور اب دورہ نیوزی لینڈ میں تو باؤلرز نے نالائقی کی حد کردی۔

سیریز کے دوران کھیلے جانے والے دونوں ٹیسٹ میچوں کے درمیان کم وقت کی وجہ سے فاسٹ باؤلرز کے پاس بھی تازہ دم ہونے کے لیے وقت بہت کم تھا، لہٰذا اس صورتحال میں بہتر حکمتِ عملی تو یہ ہوتی کہ کسی ایک فاسٹ باؤلر کو دوسرے ٹیسٹ کے لیے آرام دے کر سہیل خان کو یہ میچ کھلا دیا جاتا لیکن ٹیم منیجمنٹ نے دوسرے ٹیسٹ میں فاسٹ باؤلر کے بجائے اسپنر کو تبدیل کرکے سب کو ہی حیران کردیا۔

پہلے ٹیسٹ میں باؤلرز کی ناکامی کے بعد یقینی طور پر باؤلنگ کوچ وقار یونس کو اپنے باؤلرز کے ساتھ وقت لگانے اور انہیں سمجھانے کی ضرورت تھی، تاکہ دوسرے ٹیسٹ میں صورتحال بہتر ہوجاتی، لیکن مزے کی بات دیکھیے کہ اپنے فرض کو نبھانے کے بجائے وقار یونس نے منجھدار میں پھنسی ٹیم کو چھوڑ کر اپنے اہلخانہ کے ساتھ اضافی وقت گزارنے کے لیے پاکستان واپس آنے کو ترجیح دی۔

انسان کے لیے اس کا خاندان بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور کورونا وائرس کی عالمی وبا نے خاندان کی اہمیت کو اور بھی زیادہ نمایاں کردیا ہے لیکن احساسِ ذمہ داری بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اور ٹیم کی خستہ حالت کے پیش نظر باؤلنگ کوچ کو ٹیم کے ساتھ نیوزی لینڈ میں ہی رہنا چاہیے تھا۔

دردِ سر بنی بیٹنگ

پاکستان کی بیٹنگ لائن میں مسائل حل ہونے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی۔ شان مسعود نے دورہ آسٹریلیا میں تسلی بخش کارکردگی پیش کی تھی اور پھر انگلینڈ کے دورے پر بھی سیریز کی پہلی اننگ میں 156 رنز کی اننگز کھیل کر یہ امید پیدا کردی تھی کہ اب ہمیں اوپننگ کے لیے ایک مستقل کھلاڑی مل گیا ہے، لیکن انگلینڈ میں اسکور کی گئی اس سنچری کے بعد اگلی 5 اننگ میں شان صرف 23 رنز ہی بناسکے، اور اگر دورہ نیوزی لینڈ کی بات کریں تو انہوں نے 4 اننگز میں صرف 10 رنز ہی بنائے۔ اس سے بھی پریشان کن صورتحال یہ کہ وہ ان 4 میں سے 3 اننگ میں اپنا کھاتا بھی نہ کھول سکے۔

شان مسعود کے ساتھی عابد علی بھی اس دورے میں کچھ خاطر خواہ کارکردگی پیش نہیں کرسکے اور 4 اننگز میں صرف 76 رنز ہی بنائے۔ ان دونوں کے علاوہ ایک اور بیٹسمین حارث سہیل بھی اس دورے میں ناکام رہے۔

ٹیسٹ کرکٹ میں حارث سہیل نے ہوم سیریز میں تو بہت رنز کیے ہیں لیکن غیر ملکی دوروں پر ان کی کارکردگی نہایت غیر تسلی بخش رہی ہے۔ ان کی یہ کارکردگی بتارہی ہے کہ شاید ٹیسٹ کرکٹ میں حارث فٹ نہیں ہوسکیں گے، کم از کم اب تک تو ایسا ہی ہے، اس لیے میری ذاتی رائے میں حارث سہیل کو صرف ایک روزہ کرکٹ تک محدود کردینا چاہیے اور ٹیسٹ میچ کے لیے ان کا کوئی مستقل متبادل منتخب کرلینا چاہیے۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں جب فواد عالم ناکام ہوئے تو خیال یہی تھا کہ اگر اب یہ دوبارہ ناکام ہوئے تو ان کا کیریئر بس یہیں ختم ہوجائے گا، لیکن دوسری اننگ میں جس مشکل حالات میں فواد نے ایک شاندار سنچری بنائی اسے دیکھ کر امید کی ایک نئی کرن روشن ہوئی ہے۔ فواد عالم کی اس اننگ کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اپنے حالیہ ایوارڈز کی تقریب میں سال کی بہترین اننگ قرار دیا ہے۔

اس کامیابی کے باوجود ہم یہاں یہ کہنا چاہیں گے کہ فواد عالم کی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے، اور اگر انہیں مستقل ٹیم کا حصہ بننا ہے تو پھر رنز بھی اسی مستقل مزاجی سے بنانے ہوں گے۔

اصل مسئلہ ہے کیا؟

پاکستان کرکٹ ٹیم پچھلے 3 سال سے مسائل کا شکار ہے۔ ان مسائل سے نکلنے کے لیے کرکٹ بورڈ کپتانوں اور ٹیم منیجمنٹ میں تو جلدی جلدی تبدیلی کررہا ہے لیکن ٹیم کی اصل خامی کیا ہے اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔

قومی ٹیم کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ٹیم کا غلط انتخاب ہے۔ موجودہ دورے میں بھی ایک نئے کھلاڑی عمران بٹ قومی ٹیم کا حصہ تھے، لیکن چونکہ کوچ اور دیگر افراد کو ان پر اعتماد نہیں تھا اس لیے ان کو دورے کے کسی بھی ٹیسٹ میں منتخب نہیں کیا گیا۔ دوسرے ٹیسٹ میں سابق کپتان سرفراز احمد کو بھی کھلایا جا سکتا تھا، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ اوپر والوں کو سرفراز اچھے نہیں لگتے۔

پسند ناپسند سمیت دیگر کئی ایسے مسائل ہیں جو مستقل پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں، اس لیے اگر پاکستان کرکٹ کو آگے لے کر جانا ہے تو اس کی باگ ڈور بہادر افراد کے ہاتھوں میں دینی ہوگی جو خوف کے سائے میں رہنے کے بجائے مارو یا مرجاؤ کی حکمتِ عملی پر یقین رکھتے ہوں۔ کرکٹ بورڈ کے لیے بھی ضروری ہے کہ ٹیم کے انتخاب، اس کی منیجمنٹ کے انتخاب اور دیگر عوامل میں طویل المعیاد حکمتِ عملی اپنائی جائے۔

ٹیسٹ میچوں میں ان ہونے والی مسلسل شکستوں کے بعد قومی ٹیم ٹیسٹ چمپیئن شپ کا فائنل کھیلنے کی ڈور سے تو باہر ہوچکی ہے، لیکن اگر ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم منتخب کرکے اپنا سفر نئے سرے سے شروع کریں تو ہوسکتا ہے کہ ہم اس چمپیئن شپ کے اختتام پر ابتدائی 4 یا 5 ٹیموں میں جگہ بنا کر اپنی ناکامیوں کا کسی حد تک ازالہ کرلیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Abdul rahim Jan 08, 2021 05:32pm
It is time to change coaching staff. Also drop players who are constantly failure. Remember Greame Hick, Kamble and our own Mansoor Akhtar, lion on home ground failure abroad. Same is with Harris, Masood n a few more. But most important change coaches.