امریکا کے 46ویں صدر جو بائیڈن نے ایسے وقت میں ملک کی قیادت سنبھالی ہے جب امریکا کورونا وائرس کی وبا کا سامنا کر رہا اور اس وبا کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیل چکی ہے، کاروبار بند ہو رہے ہیں، اس کے ساتھ امریکا کو نسلی امتیاز، سیاسی انتہاپسندی، سفید فام بالادستی اور اندرونی دہشتگردی کے چیلنج درپیش ہیں۔

ایک طرح سے امریکا دوراہے پر کھڑا ہے اور اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے کس سمت جانا ہے اور ملک کو درست سمت پر ڈالنے کے لیے الفاظ سے زیادہ عمل کی ضرورت ہے۔ اس کا اظہار صدر بائیڈن نے اپنے پہلے خطاب میں بھی کیا۔

صدر بائیڈن کا پہلا خطاب غیر روایتی تھا۔ بائیڈن نے اس موقع کو اپنی ترجیحات اور مسائل کا حل تجویز کرنے کے لیے استعمال کرنے کے بجائے قوم کو امید دلانے اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے متحد کرنے کی کوشش کی۔

مسائل کے حل کے لیے تجاویز اور منصوبوں سے آگاہی کے لیے ان کی ٹیم نے پہلے ہی 17 اقدامات کی فہرست جاری کردی تھی، جن میں امیگریشن، ماحولیات اور صحت سمیت اہم امور شامل ہیں اور بائیڈن نے ان امور پر اوول آفس میں پہلے ہی دن صدارتی احکامات جاری کردیے۔ یہ صدارتی فرمان امریکا کو ٹرمپ کی پالیسیوں سے واپس لانے کے لیے بھی ہیں۔

جو بائیڈن نے بطور صدر اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ ’یہ دن امریکیوں کا ہے، یہ دن جمہوریت کا ہے، یہ تاریخی دن اپنے ساتھ امید لایا ہے۔ آج ہم ایک امیدوار کی جیت نہیں بلکہ جمہوریت کی جیت منا رہے ہیں۔ ہم نے سیکھا کہ جمہوریت اہم ہے۔ یہ کمزور ہے لیکن جمہوریت کی ہی جیت ہوئی ہے۔ ہم نے امریکا کے مستقبل کو بچانا ہے لیکن اس کے لیے الفاظ سے زیادہ اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ اس کے لیے اتحاد سب سے ضروری ہے‘۔

مزید پڑھیے: کیا بوسیدہ امریکی جمہوریت زمین بوس ہونے کو ہے؟

جو بائیڈن نے امید اور اتحاد کا پیغام تو دیا لیکن گہری سیاسی تقسیم کے شکار ملک کو متحد کرنا آسان ہدف نہیں۔ اس گہری تقسیم کا ایک نمونہ صدر بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں ہی سامنے آیا اور سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تقریب کا ناصرف بائیکاٹ کیا بلکہ اپنے الوداعی خطاب میں اس تقسیم کو قصر صدارت سے دُور بیٹھ کر بھی پھیلانے کے عزائم ظاہر کیے۔

ٹرمپ نے اینڈریو بیس پر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہمیشہ ان کی خاطر لڑتے رہیں گے، وہ دیکھتے اور سنتے رہیں گے اور جو تحریک شروع کی تھی کسی نئی صورت میں واپس آئے گی۔

سبکدوش صدر ڈونلڈ ٹرمپ جس انداز سے قصر صدارت سے رخصت ہوئے وہ بھی دراصل ان کی طرف سے تقسیم کردینے کی ایک کوشش تھی، یعنی نئے صدر کی تقریب حلف برداری کے بجائے انہوں نے اپنی روانگی کی تقریب کو اہمیت دی جس نے ان کا قد کاٹھ مزید کم کردیا۔

انہوں نے اینڈریو بیس پر 21 توپوں کی سلامی کی خواہش ظاہر کی جسے پورا کیا گیا۔ کیپیٹل ہل حملے کے لیے اکسانے کے الزام کے بعد ٹرمپ کا رخصتی کا انداز ان کے لیے ایک اور داغ تھا۔ ٹرمپ نے پہلی بار اعتراف کیا کہ ان کی انتظامیہ معمول کی انتظامیہ جیسی نہیں تھی۔ اگرچہ اس اعتراف میں انہوں نے اپنی بڑائی دکھانے کی کوشش کی اور کہا کہ انہوں نے 4 سال میں جو کامیابیاں سمیٹیں وہ اس مدت میں ممکن نہیں تھیں لیکن انہوں نے کر دکھایا۔

اینڈریو بیس پر انہیں رخصت کرنے کے لیے صرف 200 افراد موجود تھے، حالانکہ اس الوداعی تقریب کے لیے جاری کیے گئے دعوت ناموں کے ساتھ ہر شخص کو 5 افراد لانے کی اجازت تھی، یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو یہ منظر دیکھ کر مایوسی ہوئی۔

ٹرمپ کو رخصت کرنے کے لیے ان کی انتظامیہ میں سے سب سے اعلیٰ ترین عہدیدار جو موجود تھے وہ ان کے چیف آف اسٹاف تھے۔ مائیک پنس نے الوداعی تقریب میں شرکت سے معذرت کرلی تھی لیکن وہ وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان پر بھی موجود نہ تھے جہاں سے ٹرمپ میرین ون ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر روانہ ہوئے۔

اینڈریو بیس پر خطاب کے بعد ٹرمپ جب ایئر فورس ون کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوئے تو ان کا چہرہ بے تاثر تھا۔ الوداع کرنے کے لیے آنے والوں کو چند لمحے دیکھا اور پھر جہاز کے اندر چلے گئے۔

رچرڈ نکسن کے استعفے کے بعد سے اب تک کسی صدر کی اس طرح بے توقیر انداز میں قصر صدارت سے رخصتی نہیں دیکھی گئی۔ لیکن یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ رخصت تو ہوگئے مگر وہ منظرنامے سے غائب نہیں ہوں گے اور چند ہفتوں کی روپوشی کے بعد زیادہ دھوم دھام سے منظر پر واپسی کی توقع رکھی جانی چاہیے کیونکہ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات تو ثابت ہے کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔

یہی بات ٹرمپ کی بھتیجی میری ٹرمپ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہی۔ میری ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اب تک اپنی شکست تسلیم نہیں کی ہے، اس لیے وہ اب بھی تفریق پھیلانے کی کوشش کریں گے اور مجھے لگتا ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ ان کی تحریک ابھی شروع ہی ہوئی ہے، تو یہ ایک دھمکی تھی۔ ہمیں اب بھی محتاط رہنا ہوگا کیونکہ بدقسمتی سے وہ اب بھی یہیں ہیں‘۔

صدر بائیڈن نے اندرونی دہشتگردی سے نمٹنے کی بات کی ہے۔ بائیڈن کے لیے سب سے پہلا مسئلہ تو اندرونی دہشتگردی کی تشریح ہوگا، یعنی کون دہشتگرد کی اصطلاح پر پورا اترتا ہے اور دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے کون سے طریقے اختیار کیے جائیں، یہ سب کانگریس پر منحصر ہوگا اور کانگریس میں یہ سب طے کرنا آسان ہدف نہیں اور بائیڈن کو اندازہ ہوگا کہ یہ ان کے لیے سب سے اہم وقت ہے۔ 4 سال کی مدت میں اس ٹاسک کو پورا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

سفید فام بالادستی کے لیے کام کرنے والے گروپوں کو غیر ملکی گروپوں کی طرح دہشتگرد قرار دینا بھی آسان کام نہیں ہوگا۔ امریکا میں اندرونی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے وفاقی قوانین موجود ہی نہیں اس لیے امریکی ادارے نفرت انگیز جرائم اور منظم جرائم کے قوانین کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

اندرونی دہشتگردی کے حوالے سے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ امریکی افواج میں انتہا پسندی کا خاتمہ ہے۔ بائیڈٖن کی تقریب حلف برداری کے لیے تعینات نیشنل گارڈز کی جانچ پڑتال کی گئی اور 12 اہلکاروں کو ڈیوٹی سے ہٹانے کی خبر آئی کیونکہ ان کے سفید فام بالادستی کے لیے متحرک گروہوں سے روابط ظاہر ہوئے۔

کیپیٹل ہل حملے میں ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسر بھی شریک ہوئے تھے۔ امریکی افواج میں سفید فام بالادستی کا نظریہ رکھنے والوں کی بھرتی روکنا ایک مشکل ٹاسک ہوگا۔ ریٹائرڈ فوجی جو اندرونی دہشتگرد گروپوں میں شامل ہوچکے ہیں ان کی مراعات ختم کرنا ہوں گی اور اس کے لیے بھی کانگریس کو مطمئن کرنا پڑے گا۔

واشنگٹن پر سفید فام بالادستی کا نظریہ نیا نہیں، اور بائیڈن اس قدیمی مسئلے کو صرف 4 سال میں کبھی ختم نہیں کر پائیں گے لیکن انہیں درست سمت کی نشاندہی کرنا ہوگی اور اس کے لیے سب سے پہلے امریکی افواج اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کو انتہا پسند عناصر سے پاک کرنا پڑے گا۔ امریکی افواج اور ہوم لینڈ سیکیورٹی سے ان عناصر کو نکالنے کے لیے میکینزم بنانا بھی آسان نہیں ہوگا۔

بائیڈن کے لیے نئی پالیسیوں کی تشکیل میں سب سے مشکل نکتہ یہ ہوگا کہ انہیں ٹرمپ کو ووٹ دینے والے 47 فیصد ووٹروں کو یہ باور کرانا ہوگا کہ نئی پالیسیاں انہیں نشانہ بنانے کے لیے نہیں بلکہ مخلصانہ اور قومی مفاد میں ہیں۔ اگر 47 فیصد ووٹروں کا ایک تہائی بھی خائف ہوگیا اور شک میں پڑ گیا تو سازشی نظریات کو روکنا اور انتہاپسندی کے جن کو قابو میں رکھنا ناممکن ہدف بن جائے گا۔

اگر اندرونی دہشتگردی سے نمٹنے کی پالیسیوں سے انتقام کی بُو آئی تو امریکا کبھی سنبھل نہیں پائے گا۔ بائیڈن پر پہلے ہی الزام ہے کہ وہ کمیونسٹوں کی کٹھ پتلی اور انتہائی بائیں بازو کے نمائندہ ہیں۔ دائیں ہو بائیں بازو، انتہا پسندوں کی کم یا زیادہ تعداد دونوں دھڑوں میں پائی جاتی ہے، اس لیے نئی پالیسی کی تشکیل اور عمل درآمد میں دونوں طرف کے انتہا پسند گروہوں کو برابر ہدف بنانا پڑے گا۔

بائیڈن کے لیے ایک اور مشکل ٹرمپ کے 4 سال کے دوران سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے عہدیدار ہیں۔ ٹرمپ جب خود اقتدار میں آئے تو وہ وفاقی ملازمین کو ڈیپ اسٹیٹ کہہ کر اپنے ارادوں کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے لیکن اب جاتے ہوئے وہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے نیا درد سر پیدا کرگئے ہیں۔

ٹرمپ نے بڑے پیمانے پر وفاقی اداروں میں سیاسی بھرتیاں کیں اور انہیں کیریئر سول سروس کردار عطا کردیے، ساتھ ہی ان سیاسی بھرتیوں کو تحفظ بھی دے گئے۔ ٹرمپ کے بھرتی کیے گئے یہ نام نہاد بیوروکریٹ بائیڈن انتظامیہ کو اندر بیٹھ کر ناکام بنانے کی کوشش کریں گے۔ سیاسی بھرتیوں کو کیریئر سول سروس میں تبدیل کیا جانا بائیڈن کے ایجنڈے کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوگا۔

اس کا ثبوت انتقالِ اقتدار کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں ہیں۔ بائیڈن کی ٹیم کو جنوری کے پہلے ہفتے تک کئی محکموں اور خصوصاً محکمہ دفاع سے مطلوب معلومات دستیاب نہیں ہو سکی تھیں اور پینٹاگون سے معلومات میں رکاوٹ فوجی افسر نہیں بلکہ سول بیوروکریسی تھی جس کا بائیڈن اور ان کی ٹیم نے کھلے عام اظہار بھی کیا تھا۔

بائیڈن جن مسائل کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں ان کے سبب ان کی زیادہ توجہ داخلی امور پر رہے گی اور اس کا اظہار ان کے پہلے خطاب میں بھی ہوا۔ بائیڈن نے خارجہ پالیسی پر زیادہ بات نہیں کی اور صرف اتنا کہا کہ وہ ممالک کے ساتھ اتحاد کو بہتر بنائیں گے اور دنیا کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔

مزید پڑھیے: ’20 جنوری کو ٹرمپ ازم ختم نہیں ہوگا‘

بائیڈن کی تقریر میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی بڑا اعلان نہ ہونا اور دنیا کو اعتماد دلانے کا پیغام بتاتا ہے کہ ان کی ساری قوت اور توجہ ٹرمپ کے اقدامات سے واپسی پر رہے گی، لیکن یہ بھی آسان نہیں ہوگا۔

ٹرمپ جاتے جاتے کئی نئے مسائل کھڑے کر گئے ہیں، جیسے ٹرمپ نے آخری دنوں میں امریکی حکام اور تائیوان کے سرکاری نمائندوں کے درمیان رابطے پر عائد پابندی ہٹالی جو چین کے ساتھ نیا محاذ کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ یمن کے حوثی باغیوں کو دہشتگرد قرار دے دیا گیا، کیوبا کو دہشتگرد ملکوں کی فہرست میں ڈالا اور چین پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی نسل کشی کا الزام لگایا۔ ٹرمپ کے ان سارے اقدامات کو صرف ایگزیکٹو آرڈر سے واپس کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

دنیا بھر میں امریکا کے دوست اور حریف ممالک کو یہ اندازہ ہے کہ بائیڈن کو اندرونی طور پر مسائل کے انبار کا سامنا ہے۔ پیرس معاہدے میں واپسی، عالمی ادارہ صحت کی دوبارہ رکنیت جیسے صدارتی فرمان امریکا کی پرانی عالمی حیثیت بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔

4 سالہ ٹرمپ کا دور اور کورونا وائرس وبا کے سبب بدلی بین الاقوامی صورتحال میں امریکا کا قائدانہ کردار ہوگا یا نہیں؟ اور ہوگا تو کس حد تک؟ اس سوال کا جواب ابھی دوستوں اور دشمنوں کو نہیں مل پایا۔ بائیڈن خارجہ پالیسی واضح کرنے میں جتنا وقت لیں گے امریکا کے حریف قیادت کے اس خلا کو پُر کرنے کی اتنی ہی کوشش کریں گے۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ رخصت ہوچکے لیکن جاتے جاتے انہوں نے نئے صدر بائیڈن کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں۔ ان بارودی سرنگوں کو صاف کرنے میں جتنی دیر ہوگی بائیڈن کی کامیابی کے امکانات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ ٹرمپ نے الوداعی خطاب میں ایک جملہ کہا تھا کہ ’ہماری تحریک ابھی شروع ہوئی ہے ہم کسی نئی صورت میں واپس آئیں گے‘، بس بائیڈن کو ٹرمپ کی یہ دھمکی یاد رکھنی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں