پاکستان میں آکسفورڈ کورونا ویکسین کی قیمت لگ بھگ 6 ڈالر ہونے کا امکان

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2021
ویکسین کا واحد مجاز مقامی ڈسٹری بیوٹر اس کی فراہمی کے لیے ایک مناسب ٹائم لائن دینے سے قاصر 
 ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ویکسین کا واحد مجاز مقامی ڈسٹری بیوٹر اس کی فراہمی کے لیے ایک مناسب ٹائم لائن دینے سے قاصر ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی/اسلام آباد: حکومت اگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان (ڈریپ) کی منظور کردہ آکسفورڈ-ایسٹرازینیکا کی کووڈ 19 ویکسین حاصل کرتی ہے تو اسے کروڑوں شاٹس کی ہر خوراک کا 6 سے 7 ڈالر (962 روپے سے 1123 روپے تک) برداشت کرنا پڑسکتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف یہ بات سامنے آرہی ہے وہی اس ویکسین کا واحد مجاز مقامی ڈسٹری بیوٹر اس وقت اس کی فراہمی کے لیے ایک مناسب ٹائم لائن دینے سے قاصر ہے۔

پاکستان میں ویکسینز اور دیگر فارماسیوٹیکلز مصنوعات کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک سندھ میڈیکل اسٹورز کے عثمان غنی کا کہنا تھا کہ ’چونکہ حکومت نے اسے (آکسفورڈ-ایسٹرازینیکا کی کووڈ 19 ویکسین) کی منظوری دے دی ہے اور ہمیں اس کی کھیپ درآمد کرنے کی اجازت مل گئی ہے تو ہم نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ حکومت کو 6 اور 7 ڈالر کے درمیان کہیں پر دستیاب ہوگی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ پیش کش باقاعدہ اور واضح طور پر دونوں حکومتوں (وفاقی اور صوبائی) کو دی گئی ہے لیکن اس کا جواب دینا مشکل ہے کہ یہ کب دستیاب ہوگی، صاف صاف کہوں تو ہمیں اس وقت اس سے متعلق کوئی صحیح اندازہ نہیں‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں ایسٹرازینیکا کورونا ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے پاکستان میں ایسٹرازینیکا کی کووڈ 19 ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دی تھی۔

سندھ میڈیکل اسٹورز کے نمائندے کا کہنا تھا کہ ڈریپ کی جانب سے رجسٹریشن کرلی گئی ہے لیکن ان کی کمپنی اب تک اتھارٹی (ڈریپ) سے دستاویزی منظوری حاصل نہیں کرسکی، یہاں تک کہ ویکسین کی قیمت بھی طے نہیں ہوسکی، ’تاہم ہم جلدی میں نہیں ہیں کیونکہ ہمیں سپلائی لائن سے کوئی ضمانت نہیں مل سکی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جیسا کہ ایسٹرازینیکا ویکسین بھارت میں تیار کی جارہی ہے تو بھارت پہلے اسے حاصل کرے گا اور پھر یا اس دوران اسے کوویکس کو دیا جائے گا، مزید یہ کہ نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک ویکسین کے حصول کے لیے پہلے ہی ایڈوانس میں ادائیگی کرچکے ہیں‘۔

وہیں اسی ہفتے کے دوران ڈریپ نے ایک اور کورونا وائرس ویکسین کے حصول کا بھی کہا ہے، جو چین کی ریاستی ملکیتی کمپنی سائنوفام کی جانب سے تیار کی گئی ہے، اگرچہ حکومت کی جانب سے مارچ تک کورونا وائرس ویکسین کی کم از کم ایک لاکھ خوراکیں حاصل کرنے کا عزم کیا گیا ہے، بالآخر اس کا مقصد وائرس کے خلاف 70 فیصد آبادی کو اسے لگانا ہے حالانکہ اس تجارت سے وابستہ لوگ بھی ابھی تک غیریقینی کا شکار ہیں۔

پاکستان میں ایسٹرازینیکا کی ویکسین کی ممکنہ دستیابی سے متعلق سندھ میڈیکل اسٹور کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وہ کب تک پاکستانی لوگوں کے لیے ویکسین حاصل کرنے کے قابل ہوں گے کیونکہ ایسٹرازینیکا ان ممالک کو کھیپوں کی فراہمی میں مصروف ہے جنہوں نے پہلے ہی آرڈرز دیے اور ایڈوانس ادائیگیاں کیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے بھارت کے سیرم انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ کافی خوشگوار تعلقات ہیں اور ہم جتنا جلدی ممکن ہوسکا اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے‘۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ مرکز اور صوبوں میں حکومت کو ان کی پیش کش میں کمپنی نے کہا ہے کہ اگر وہ بڑی بعداد میں خریدتے ہیں تو وہ برطانوی کمپنی کی ویکسین عارضی طور پر 6 سے 7 ڈالر فی خوراک میں فراہم کرنے کے قابل ہوں گے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا کہ یہ ویکسین عوام کو 6 سے 7 امریکی ڈالر میں فراہم کی جاسکتی ہے بشرطیکہ 5 کروڑ خوراکیں حاصل کی جائیں۔

عثمان غنی نے بتایا کہ ’نجی شعبے کے لیے اگر وہ 10 ہزار یا اس سے زائد خوراکوں کا آرڈر دیتے ہیں تو ہم نے انہیں فی خوراک 2 سے ڈھائی ہزار روپے میں فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے‘۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’ہماری شفاف اور مناسب معاہدوں کی ایک تاریخ ہے چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم ایک بہت حساس اور نازک قسم کے کاروبار میں ہیں تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم صرف معروف اداروں جیسے آغا غان یونیورسٹی ہسپتال (اے کے یو ایچ)، شوکت خانم میموریل ہسپتال اور اس طرح کے دوسرے دیگر اداروں کو صرف ویکسین فراہم کریں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں ایک اور کووڈ-19 ویکسین کی منظوری

ایک سوال کے جواب میں عثمان غنی کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ بھارت سستے داموں میں ویکسین حاصل کررہا ہوں کیونکہ ویکسین وہی تیار ہورہی ہے اور وزیراعظم نریندر مودی نے ذاتی طور پر ان پلانٹس کا دورہ کیا تھا اور ابتدائی طور پر مفت ویکسین کا مطالبہ کیا تھا جسکے بعد اس پر رضامندی ہوئی تھی کہ رعایتی قیمتوں پر ویکسین فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ’دیگر ترقی پذیر ممالک، چاہے انہوں نے ایڈوانس ادائیگی کی ہو وہ اسی ریٹ پر ویکسین حاصل کریں گے، تاہم امیر، متوسط اور کم آمدنی والے ممالک کے لوگوں کے لیے قیمتیں مختلف ہوسکتی ہیں‘۔

ان کا ماننا ہے کہ اس سلسلے میں ڈیٹا مرتب کیا جائے گا اور یہ ممکن ہوگا کہ ویکسین کی درآمد کے بعد کتنے لوگوں کو ویکسین فراہم کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں