خیبر پختونخوا: بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سزائے موت دینے کا ترمیمی بل تیار

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2021
ترمیمی بل اب صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا — فائل فوٹو / رائٹرز
ترمیمی بل اب صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا — فائل فوٹو / رائٹرز

خیبرپختونخوا حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ 2010 میں ترامیم کا بل تیار کرلیا جس میں بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سزائے موت اور عمر قید کی سزا کی تجویز دی گئی ہے۔

ترمیمی بل میں بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیو بنانے والے کو 14 سال قید بامشقت اور 50 لاکھ جرمانہ، بچوں کو بدکاری کی جانب راغب کرنے والے کو 10 سال قید بامشقت کی سزا کی تجاویز دی گئی ہیں۔

بچوں کی اسمگلنگ پر 14 سے 25 سال قید، بچوں کے اعضا کی خرید و فروخت میں ملوث شخص کے لیے سزائے موت اور عمر قید کے ساتھ 50 لاکھ جرمانے جبکہ بچوں کی پورنوگرافی میں ملوث مجرم کے لیے عمر قید اور 50 لاکھ جرمانے کی سزا کی تجاویز بھی بل کا حصہ ہیں۔

ترمیمی بل میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں سے زیادتی کے مرتکب مسافر بسوں میں سفر نہیں کرسکیں گے، بچوں سے متعلق اداروں میں ملازمت نہیں دی جائے گی جبکہ ملازمت دینے کی صورت میں متعلقہ شخص کو 10 سال قید اور ایک کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: کم سن بچے کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا سگا بھائی گرفتار

خیبر پختونخوا کے وزیر سماجی بہبود ہشام انعام اللہ نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرمان کی سزائے موت کے وقت آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی جو ضرورت پڑنے پر عوامی سطح پر سامنے لائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اس بل کی جلد از جلد منظوری دے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال نوشہرہ میں کمسن بچی سے زیادتی کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا تھا۔

ترمیمی بل اب صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا جس کی منظوری کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش ہوگا۔

مزید پڑھیں: چارسدہ میں ڈھائی سالہ زینب کا مبینہ ریپ کے بعد قتل

واضح رہے کہ گزشتہ سال ملک میں بچوں اور خواتین سے ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے تناظر میں متعد حلقوں کی جانب سے مجرمان کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

اسی دوران ایک انٹرویو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ریپ اور خواتین و بچوں سے جنسی استحصال کے واقعات میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دیتے ہوئے انہیں سرعام پھانسی یا کیمیائی طریقے سے نامرد بنانا چاہیے۔

وفاقی کابینہ نے بھی وزیراعظم عمران خان کے ریپسٹ کو سر عام پھانسی دینے کے نقطہ نظر کی حمایت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ حکومت، مغرب کے کسی دباؤ کو برداشت نہیں کرے گی۔

تاہم بعد ازاں وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے ریپسٹ کو سرِ عام پھانسی دینے کی مخالفت کردی ہے۔

میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کابینہ اجلاس میں حکومت نے سرِعام پھانسی کا قانون نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ بین الاقوامی وعدوں اور سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے باعث سرعام پھانسی نہیں دی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: 'وزیراعظم نے ریپسٹ کو سرِعام پھانسی دینے کی مخالفت کردی'

وفاقی وزیر نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ملک میں ریپ کیسز کی روک تھام کے لیے حکومت مؤثر اقدامات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں نیا قانون لایا جارہا ہے۔

وزیر انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ حکومت انسداد ریپ قانون لارہی ہے جو بچوں، مردوں، عورتوں، مخنثوں سب کے حوالے سے ہوگا، اس میں بہت سی اہم چیزیں شامل ہیں۔

خیال رہے کہ غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' کی مارچ 2020 میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 2019 میں ملک بھر سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے 2 ہزار 877 کیسز رپورٹ ہوئے تھے، ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں ہر روز 8 سے زیادہ بچوں کو کسی نہ کسی طرح کی زیادتی کا سامنا کرنا پڑا۔

رپورٹ کے مطابق صنفی تقسیم سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجموعی 2 ہزار 846 کیسز میں سے 54 فیصد متاثرین لڑکیاں اور 46 فیصد لڑکے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں