بچوں سے بالغ افراد میں کورونا وائرس کی منتقلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے، تحقیق

21 جنوری 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

اگرچہ بچوں میں نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے (اب تک کے شواہد کے مطابق)، مگر ان کی جانب سے خاندان کے دیگر افراد میں منتقل کرنے کا امکان بزرگوں کے مقابلے میں لگ بھگ 60 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

اس تحقیق کے دوران ووہان کے 27 ہزار گھروانوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 2 دسمبر 2019 سے 18 اپریل 2020 کے دوران کووڈ 19 کے کیسز کی تصدیق ہوئی۔

سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ بچے بالغ افراد جتنی شرح سے کورونا وائرس کے ذرات جسم سے خارج کرتے ہیں۔

اس نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ بچوں سے بیماری کی منتقلی کی زیادہ شرح کی بنیادی وجہ والدین اور دیگر رشتے داروں سے قربت ہوتی ہے جو ان کا خیال رکھتے ہیں۔

تحقیق میں اس جانب بھی توجہ دلائی گئی کہ بچوں سے دیگر افراد میں وائرس کی منتقلی شرح چین میں بہت حد تک محدود کردی گئی تھی کیونکہ وہاں متاثرہ بچوں میں وائرس کی موجودگی کی تشخیص تیزی سے ہوئی اور انہیں آئسولیٹ کردیا گیا۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایک سال سے کم عمر بچوں سے یہ بالغ افراد میں 2 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ منتقل ہوتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کا مدافعتی نظام اس عمر میں تشکیل پار رہا ہوتا ہے جبکہ وہ بالغ افراد سے جسمانی طور پر بہت زیادہ قریب بھی رہتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ مستقبل قریب میں نوعمر بچوں کے لیے ویکسین کی فراہمی کا امکان تو نہ ہونے کے برابر ہے، تو ہمیں ان کی نگہداشت کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بالغ افراد کی ویکسینیشن سے بچوں کو بھی بلاواسطہ تحفظ حاصل ہوگا۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ گھر کے کسی فرد سے وائرس کی دیگر افراد میں منتقلی کی شرح 15 فیصد سے زیادہ ہوتی ہے جو نظام تنفس کے دیگر امراض کی شرح سے ملتی جلتی ہے۔

تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ اگرچہ بچوں میں کووڈ 19 کا خطرہ بالغ افراد کے مقابلے میں کم ہوتا ہے اور علامات کی شدت بھی کم سنگین ہوتی ہے، مگر ان میں بھی بالغ افراد کی طرح علامات تشکیل پاسکتی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں