سائنس فکشن سے لے کر سائنسی حقیقت تک، ایک تصور موجود ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری ذات کے علاوہ دیگر کائنات کا وجود بھی ممکن ہو سکتا ہے، جہاں آپ نے اس زندگی میں جو بھی انتخاب کیا، وہ متبادل حقائق کے ساتھ اس دوسری دنیا میں ادا ہوتا ہے۔

یہ تصور ‘متوازی کائنات’ کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ ‘ملٹی ورس’ کے فلکیاتی نظریے کا ایک پہلو ہے۔ یعنی آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی کے بالکل متوازی آپ ہی ایک اور زندگی بھی جی رہے ہیں لیکن وقت کی ایک اور سمت میں جس کا آپ کو ادراک نہیں۔

ڈاکٹر وشنو نارائن نے بھرپور کوشش کی کہ اس بڑے واقعہ کا تعلق کسی طرح وہ ‘پیرالیل یونیورس’ کے نظریے سے جوڑ سکے جس پر وہ مکمل یقین رکھتا تھا۔ ٹالک شو کی میزبان آدتی نے ہونٹ اور بھنویں سکیڑتے ہوئے ایک لمبی سی الجھن زدہ ‘ہوں’ کی اور پروگرام میں شریک دوسرے مہمان کی جانب رخ کیا۔

جی وکرم بھاٹیا، کیا کہیں گے آپ اس بارے میں؟ وکرم نے سامنے پڑے پانی کے گلاس سے ایک گھونٹ بھرا اور سکون سے بولا، سب بکواس، ارے بچوں جیسی باتیں کرتے ہیں یہ۔ لگتا ہے دوسرے جنم کی کہانیوں نے ان کا مانسک سنتولن بگاڑ دیا ہے۔ اس زمانے کے، جب یہ فضول نظریہ پیش کیا گیا تھا، اس سمے کے وگیانک بھی اس گتھی کو نہیں سلجھا پائے کہ ہمارے ہر فیصلے سے نئی کائنات پیدا ہوتی ہیں، ہر ممکنہ نتیجے کے لیے ایک ایک الگ سے۔ اگر بہت ساری دنیا کا نظریہ درست ہے تو ہمیں اس متوازی دنیا کی کوئی خبر کیوں نہیں؟ کوئی اشارہ، کوئی ایسا واقعہ جس سے ہمیں معلوم ہوسکے کہ بھیا ہم کہیں اور بھی جی رہے ہیں؟ ہیں؟ مطلب اس دنیا میں ہم نے بھینس پالی ہو تو متوازی دنیا میں ہم بکری کے مالک ہوں گے کیا؟

ایسا بالکل ممکن ہے، وشنو نے لقمہ دیا۔

ارے جانے دیجیے ڈاکٹر نارائن، یہ سب کاغذی باتیں ہیں۔ وکرم نے ٹیڑھا سا منہ بناتے ہوئے کہا اور پھر طنزیہ لہجے میں آدتی سے کہنے لگا، تھیوریٹیکل فزسسٹ ہیں یہ، سب تھیوری میں ہے ان کے پاس۔

وشنو نارائن نے اس طنز کو مکمل نظر انداز کرتے ہوئے وکرم کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دنیا میں آپ کی اولاد بیٹی ہو اور متوازی دنیا میں آپ بیٹے کے باپ ہوں۔ وکرم بھاٹیا کو چپ سی لگ گئی۔ پروگرام کا وقت بھی ختم ہونے کو تھا۔

19 دسمبر کو ایسا واقعہ ہونے والا تھا جس کے چرچے فلکیات سے تعلق رکھنے والے تمام سائنسی حلقوں میں سال کے شروع دن سے تھے۔ زحل اور مشتری پہلی بار زمین کی سیدھ میں آنے والے تھے۔ یہ نظارہ دیکھنے کے لیے شوقین لوگ 2 دن پہلے سے ہی شہر سے دُور مضافات میں ٹیلی اسکوپس سے لیس خیمے گاڑھے بیٹھے تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی طوفان برپا تھا۔ ناسا کا لائیو ٹیلی کاسٹ اکٹھے دیکھنے کے لیے بہت سے لوگوں نے دوستوں کے ساتھ پلان ترتیب دے رکھے تھے۔

ڈاکٹر وشنو نارائن تھیوریٹیکل فزسسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہندو صحیفوں پر بھی پورا یقین رکھتا تھا۔ دوسرا جنم، پاپ اور پنیے کے مطابق دوسرے جنم میں کیا شکل ملے گی اور انسان کی ملے گی یا کسی جانور کی، وہ اس سب پر یقین رکھتا تھا۔ اس کا ماننا یہ تھا کہ زحل اور مشتری کے زمین کے ساتھ ایک سیدھ میں آنے سے وقت کی ایک یا ایک سے زیادہ سمت وجود میں آسکتی ہے، اور اگر 19 دسمبر کی رات ایسا ہوا تو لوگوں کو بہت پریشانی ہوسکتی ہے۔

وکرم بھاٹیا ماہرِ فلکیات تھا۔ ایسا ذہین کہ کئی ملکوں سے اس کو دعوت تھی کہ آکر اپنی تحقیق ان کے یہاں کرے اور قومیت اور رہائش مفت حاصل کرے۔ اسے کسی بھگوان یا ایشور پر یقین نہ تھا، یعنی مکمل دہریہ۔ مگر اس کی پتنی مادھوری ہر بھگوان پر یقین رکھتی تھی۔

وکرم مادھوری سے بے پناہ پیار کرتا تھا۔ کالج کا پیار جو جلد ہی شادی میں تبدیل ہوگیا۔ ان دونوں کی ایک ہی بیٹی تھی، مایا۔ لڑکے کی خواہش 14 سال سے انہیں بے چین کیے ہوئے تھی جو آخر چند ہفتوں میں پوری ہونے والی تھی۔ مادھوری 14 سال بعد امید سے تھی۔ مایا کے بعد 2، 3 ابارشن ہوئے اور پھر حمل نہ ٹھہرا۔ الٹرا ساونڈ نے بیٹے کی خوشخبری دکھا دی تھی۔ وکرم نے یہ بات سب سے چھپائی تھی اسی لیے جب ڈاکٹر نارائن نے اسے بیٹی کا طعنہ دیا تو وہ اسے خاموشی سے پی گیا۔ مادھوری نے ایک کمرہ بھی سجا کر رکھا تھا، آکاش کے لیے۔ یہی نام سوچا تھا دونوں نے، آکاش بھاٹیا۔

19 دسمبر رات ساڑھے دس بجے کروڑوں لوگوں نے یہ منظر دیکھا کہ 2 سیارے زمین کی سیدھ میں آگئے۔ مادھوری اور مایا بھی یہ منظر ٹی وی پر دیکھ رہے تھے جب اچانک سے انہیں آکاش کے کمرے میں کھڑکھڑاہٹ سنائی دی۔ دونوں نے مڑ کر کمرے کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے کمرے کے اندر سے کسی کے بولنے کی آواز آئی اور دروازہ کھلنے لگا۔ دونوں ماں بیٹی اکٹھے چیخ پڑیں جب کمرے سے ایک 14، 15 سالہ لڑکا برامد ہوا۔

کون ہو تم؟ اندر کیسے آئے؟ مادھوری نے مایا کو اپنے پیچھے چھپاتے ہوئے لڑکے کو ڈانٹ کر پوچھا جو حیرانی سے آنکھیں پھاڑے مادھوری، اس کے بڑھے ہوئے پیٹ اور مایا کو دیکھے جا رہا تھا۔ مایا اپنے باپ وکرم کو فون ملا چکی تھی۔ پاپا جلدی گھر آئیں کوئی اندر گھس آیا ہے۔ وکرم نے بیٹی کو دلاسہ دیا اور اپنے ریسرچ سینٹر سے جہاں وہ اپنی ٹیم کے ساتھ یہ تاریخی منظر دیکھ رہا تھا، نکل پڑا۔

لڑکے نے ہلکے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ اور لال شارٹس پہن رکھی تھی۔ بال بھی ترتیب سے بنے ہوئے تھے۔

آخر تم بتاتے کیوں نہیں؟ دیکھو چپ چاپ شرافت سے چلے جاؤ جس طرح آئے ہو۔ مادھوری نے غصے سے کہا۔ میرے پتی پولیس کو لے کر آ رہے ہیں۔ ماما آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں؟ کیا آپ کوئی پرینک کر رہی ہیں؟ آخر لڑکا بول پڑا۔

یہ کیا بکواس ہے۔ مایا پھر فون کرو پاپا کو۔ مادھوری نے مایا کو سیدھے ہاتھ سے مزید پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا جو اب تقریباً دیوار سے جا لگی تھی۔ مایا؟ اس کا نام مایا ہے؟ مگر کیسے، مایا تو دو دن پہلے مرچکی۔ لیکن یہ اتنی بڑی کیسے؟ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔ یہ کہہ کر لڑکا لاؤنج میں رکھے فریج کی طرف بڑھا اور پانی کی بوتل نکال کر پینے لگا۔

وکرم نے گھر کے باہر ہی گاڑی روکی اور جلدی سے اندر داخل ہوا۔ مادھوری اور مایا دیوار سے لگے ہوئے تھے اور ایک مایا کی عمر کا لڑکا فریج کے پاس پانی کی بوتل لیے کھڑا تھا۔

کون ہو تم؟ وکرم نے سختی سے پوچھا۔

پاپا آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ میں آکاش آپ کا بیٹا۔ یہ سنتے ہی وکرم نے مادھوری کی طرف دیکھا جو پہلے ہی بے یقینی کی کیفیت سے دوچار وکرم کی طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ ناممکن ہے۔ تم ہمارے بیٹے نہیں ہوسکتے۔ ہماری صرف ایک بیٹی ہے۔ وکرم نے مایا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

لیکن مایا تو 2 دن پہلے مرچکی ہے پاپا، اور یہ، یہ اتنی بڑی کیسے ہوسکتی ہے 2 دن میں؟ او گاڈ میرا تو دماغ پھٹ جائے گا۔ آپ لوگ یقین کیوں نہیں کرتے کہ میں آکاش ہوں۔ لڑکے نے تقریباً روتے ہوئے کہا اور فرش پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔

مادھوری کو اس پر ترس آنے لگا۔ اگر لوٹ مار کرنے آتا تو کوئی ہتھیار لے کر آتا مگر وہ ایسے تھا جیسے واقعی اپنے گھر میں پھر رہا ہو۔

انہوں نے لڑکے کو صوفہ پر بٹھایا اور اس نے انہیں بتایا کہ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھا جب 2 دن پہلے، 14 سال بعد مادھوری نے ایک لڑکی کو جنم دیا۔ اس کا نام آپ نے مایا سوچا تھا اور اس کے لیے یہ کمرہ بھی سجا کے رکھا تھا۔ لڑکے نے لاؤنج کی دوسری طرف مایا کے کمرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ اسی دن مر گئی تھی۔ اس نے پیدا ہونے کے بعد سانس ہی نہیں لیا۔

مادھوری اور مایا حیرت اور خوف میں گم لڑکے کی باتیں سنے جا رہے تھے مگر وکرم کے دماغ میں ڈاکٹر وشنو نارائن کے الفاظ گھوم رہے تھے۔ وکرم کا ذہن تیزی سے وقت کی اس سمت کی گتھیاں سلجھا رہا تھا اور پھر اس نے ایک فیصلہ کرلیا۔

2 دن بعد مادھوری نے جس لڑکے کو جنم دیا وہ کچھ دیر بعد مرگیا۔ اس نے پیدا ہونے کے بعد سانس ہی نہیں لیا۔ وکرم ان 2 دنوں میں ہی استعفا دے کر امریکا جانے کی تیاری کرچکا تھا۔ وہاں کسی کو کیا غرض کہ اس کے کتنے بچے ہیں اور اس دنیا کے ہیں یا متوازی دنیا کے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں