جب پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا آغاز ہوا تھا تو سب سے زیادہ شور 3 ٹیموں کا تھا، ایک کراچی کنگز، دوسری لاہور قلندرز اور تیسری پشاور زلمی۔ کراچی اور لاہور تو غالباً اس لیے کہ یہ سب سے بڑے شہر ہیں اور ان کے پرستاروں کی تعداد بھی اس لیے زیادہ ہے جبکہ پشاور مختلف وجوہات کی بنا پر فینز کی پسندیدہ ٹیم تھی۔

لیکن جس ٹیم کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا تھا، وہ تھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز۔ جو پی ایس ایل کی سب سے سستی ٹیم بھی تھی، لیکن جیسے جیسے پہلا سیزن آگے بڑھتا گیا، سب کو اندازہ ہوگیا کہ یہ واقعی گلیڈی ایٹرز ہیں!

پہلے ہی سیزن میں کوئٹہ نے اپنے 10 میں سے 7 میچ جیتے اور صرف 3 میچوں میں شکست کھائی، بدقسمتی سے ان میں سے ایک میچ فائنل تھا۔ یوں یہ ٹیم چیمپیئن تو نہیں بن سکی لیکن اس نے سب کے دل ضرور جیت لیے۔ تب سے آج تک کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ایک سنجیدہ حریف سمجھا جاتا ہے۔ ٹیم کوئٹہ 3 مرتبہ فائنل کھیل چکی ہے اور ایک مرتبہ 2019ء میں چیمپیئن بھی بن چکی ہے۔

لیکن 2020ء میں پشاور زلمی کی طرح کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کُن رہی۔ وجوہات آج تک سمجھ نہیں آئیں کہ آخر کوئٹہ کے ساتھ پچھلے سیزن میں ہوا کیا تھا؟ شاید باؤلنگ میں کمزور تھے یا پھر ٹیم نئے حالات میں ایڈجسٹ نہیں ہو پائی کیونکہ پی ایس ایل 2020ء وہ پہلا سیزن تھا جو مکمل طور پر پاکستان مین کھیلا گیا۔

مزید پڑھیے: پشاور زلمی، پچھلے سال کی مایوس کُن کارکردگی کے ازالے کے لیے بے تاب

بہرحال، اس ناکامی کے باوجود پی ایس ایل تاریخ میں سب سے زیادہ کامیابی کی شرح کوئٹہ کی ہے۔ اس نے آج تک پی ایس ایل میں کُل 52 میچ کھیلے ہیں اور 30 میں کامیابی حاصل کی ہے، یعنی اپنے 58.82 فیصد میچ جیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں سب سے زیادہ 31 میچ جیتنے والی پشاور کی فتوحات کی شرح 55.35 فیصد ہے۔

تو کیا اس مرتبہ کوئٹہ گزشتہ کارکردگی کا ازالہ کر پائے گا؟ کن کھلاڑیوں کا کردار سب سے اہم ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیم کی خوبیاں اور خامیاں کون سی ہوں گی؟ آئیے جانتے ہیں۔

ماضی

پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا ماضی شاندار ہے۔ ٹیم پہلے پی ایس ایل سیزن کے فائنل تک پہنچی تھی لیکن بدقسمتی سے 2016ء میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہاتھوں شکست کھائی اور دوسرے سیزن میں جب پہلی بار فائنل لاہور میں کھیلا گیا تھا تو اس کے اہم ترین کھلاڑی شریک نہیں ہوئے تھے اور فائنل میں اسے پشاور زلمی کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

2019ء میں اس نے نیشنل اسٹیڈیم، کراچی میں اسی پشاور کو زبردست شکست دے کر پہلی بار پی ایس ایل ٹرافی اٹھائی۔ یعنی پشاور کی طرح کوئٹہ بھی 3 مرتبہ فائنل کھیل چکا ہے لیکن اعزاز صرف ایک مرتبہ حاصل کیا ہے۔

اسکواڈ

پاکستان سپر لیگ 2021ء کے لیے ڈرافٹ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا پہلا انتخاب کرس گیل تھے۔ جی ہاں! ’یونیورس باس‘، جن کے بلّے کی آواز پوری دنیا میں گونجتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ نے پلاٹینم کیٹیگری میں انگلینڈ کے وکٹ کیپر ٹام بینٹن کا بھی انتخاب کیا، جو ایک دھواں دار بلّے باز ہیں۔ ان کے بعد عثمان شنواری، جنوبی افریقہ کے کیمرون ڈیلپورٹ اور افغانستان کے قیس احمد کو چُنا گیا۔

لیکن، دورۂ سری لنکا کے لیے ویسٹ انڈیز کے ٹی20 اسکواڈ میں شمولیت کی وجہ سے گیل شاید چند ابتدائی میچوں میں ہی شرکت کر پائیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے متبادل کے لیے کوئٹہ کو ایک نئے کھلاڑی کا انتخاب کرنا پڑا جو کوئی اور نہیں بلکہ جنوبی افریقہ کے سابق کپتان فاف ڈوپلیسی ہیں۔ بلاشبہ فاف کی آمد کوئٹہ کے دستے کو بہت مضبوط کرے گی، خاص طور پر مڈل آرڈر کو کہ جہاں ایک تجربہ کار اور سلجھے ہوئے بلے باز کی موجودگی بہت ضروری ہے کیونکہ شین واٹسن اور جیسن روئے کی عدم موجودگی میں کوئٹہ کو بیٹنگ کے میدان میں خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل 6 اور کراچی کنگز کے امکانات

کوئٹہ نے پی ایس ایل 6 کے لیے کپتان سرفراز احمد، محمد حسنین، محمد نواز، اعظم خان، نسیم شاہ، زاہد محمود اور انور علی کے علاوہ آسٹریلیا کے بین کٹنگ کو بھی اسکواڈ میں برقرار رکھا تھا۔ یعنی مجموعی طور پر ٹیم کے بیشتر کھلاڑی وہی ہیں جو پچھلے سیزن میں بھی ٹیم کا حصہ تھے۔ ان کھلاڑیوں کی تعداد 8 ہے جو تقریباً سارے ہی فرسٹ الیون کا حصہ ہوں گے۔

سپلیمنٹری میں ایک اہم انتخاب جنوبی افریقہ کے ڈیل اسٹین کا بھی ہے۔ بتایا تو یہی جا رہا ہے کہ وہ پورے سیزن کے لیے دستیاب ہوں گے اور اگر ایسا ہوا تو واقعی اس سے باؤلنگ کے شعبے میں کوئٹہ کو کافی تقویت ملے گی۔

گوکہ کاغذ پر ہمیں پچھلے سال کا اسکواڈ زیادہ مضبوط نظر آتا ہے کہ جس میں شین واٹسن، احمد شہزاد اور جیسن روئے ٹاپ آرڈر میں اور باؤلنگ میں ٹائمل ملز اور سہیل خان بھی نظر آتے تھے لیکن یاد رکھیں کہ اس کے باوجود کوئٹہ پہلے ہی مرحلے میں ٹورنامنٹ سے باہر ہوگیا تھا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ٹیم بحیثیتِ مجموعی اب بھی اچھی ہے، بس ضرورت ہے بازی اپنے حق میں پلٹنے کی صلاحیت کی۔

امکانات

ایک سال سے زیادہ گزر چکا ہے لیکن یہ راز ابھی کھل نہیں سکا کہ آخر گزشتہ سال کوئٹہ پہلے ہی مرحلے میں باہر کیوں ہوگیا؟ جب تک پی ایس ایل مکمل یا آدھا پونا متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، کوئٹہ ایک بہترین ٹیم کے طور پر نظر آیا لیکن جیسے ہی پوری لیگ پاکستان منتقل ہوئی، کارکردگی میں واضح زوال نظر آیا۔ گوکہ آخر میں چند اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن نیٹ رن ریٹ کم ہونے کی وجہ سے کوئٹہ پلے آف مرحلے تک نہیں پہنچ پایا۔

مزید پڑھیے: ملتان سلطانز کے لیے اس سیزن میں کیا نیا ہے؟

بہرحال، اسے اپنی ظاہری اور خفیہ خامیوں پر قابو پانا ہوگا۔ شین واٹسن کی ریٹائرمنٹ اور جیسن روئے کی عدم موجودگی سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے کافی حد تک پُر کرنے کی کوشش تو کی گئی ہے لیکن کپتان سرفراز احمد پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قائدانہ صلاحیتیں منوائیں اور 'فنشر' کا کردار بھی ادا کریں۔ تبھی کوئٹہ کے آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں، ورنہ خدشہ ہے کہ نتائج پچھلے سال سے مختلف نہیں ہوں گے۔

نمایاں کھلاڑی

‏20 سالہ فاسٹ باؤلر محمد حسنین پچھلے سال کوئٹہ کی بھیانک مہم کا واحد روشن پہلو تھے۔ جب انہوں نے صرف 9 میچوں میں 15 وکٹیں حاصل کی تھیں، جن میں سال کے افتتاحی مقابلے میں ہی 25 رنز دے کر 4 وکٹیں حاصل کرنا بھی شامل تھا جبکہ 2019ء کے فائنل میں بھی 30 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کرکے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ پی ایس ایل میں اب تک 27 وکٹیں لینے والے حسنین اس مرتبہ کوئٹہ کے لیے فیصلہ کُن کردار ادا کرسکتے ہیں۔

چھپا رستم

اگر ہم چھپے رستم کی بات کریں تو یہ اعظم خان ہوسکتے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کوچ معین خان کے صاحبزادے اعظم کو جب پہلی بار ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا تو لوگ انہیں اقربا پروری کی مثال سمجھتے تھے۔ لیکن وہ اپنی کارکردگی کے ذریعے اس داغ کو بڑی حد تک مٹا چکے ہیں۔ پچھلے سیزن کے پہلے ہی مقابلے میں انہوں نے 33 گیندوں پر 59 رنز بنا کر ناقدین کے منہ بند کروا دیے تھے اور کچھ ہی دن بعد کراچی کنگز کے خلاف بھی 46 رنز کی فاتحانہ اننگز کھیلی۔

مزید پڑھیے: لاہور قلندرز: تجربے کار اور نو آموز کھلاڑیوں کا امتزاج

اعظم خان کی کارکردگی حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں بھی عمدہ رہی ہے اور لگتا یہی ہے کہ وہ فائنل الیون کا پہلا انتخاب ہوں گے۔

کمزور کڑی

ایک طرف جہاں پشاور کا مسئلہ ہے کہ اس کے بیشتر کھلاڑی زائد العمر ہیں تو وہیں کوئٹہ کو بالکل اُلٹ مسئلہ درپیش ہوسکتا ہے۔ ویسے کم عمری مسئلہ نہیں ہے، لیکن ناتجربہ کاری ضرور مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اسکواڈ میں اس وقت ایسے کھلاڑیوں کی تعداد 8 ہے کہ جن کی عمریں 23 سال سے کم ہیں۔

دوسرا اہم مسئلہ ٹاپ آرڈر کی کمزوری ہے جو شین واٹسن اور جیسن روئے کی عدم موجودگی میں کافی شکستہ نظر آرہا ہے۔ کرس گیل بھی صرف ابتدائی چند میچوں کے لیے ہی دستیاب ہوں گے یعنی اسکواڈ وقت کے ساتھ ساتھ مزید کمزور ہوجائے گا۔ وہ الگ بات ہے کہ گیل پی ایس ایل میں توقعات پر شاید ہی کبھی پورے اترے ہیں۔ پوری دنیا میں گرجتے برستے گیل پی ایس ایل میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں۔ بہرحال، ان کی موجودگی کا ایک نفسیاتی اثر بھی ہوتا ہے۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد یونائیٹڈ نے پی ایس ایل 2021ء کے لیے کیسی تیاری کی ہے؟

جنوبی افریقہ کے فاف ڈوپلیسی اور ڈیل اسٹین کی آمد کوئٹہ کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگی۔ فاف مڈل آرڈر کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ اسٹین کے فاسٹ باؤلنگ تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں۔ نوجوان فاسٹ باؤلرز محمد حسنین اور نسیم شاہ اس صورت حال کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں گے کہ ایک طرف انہیں ڈیل اسٹین کے ساتھ کھیلنے کا موقع ملے گا اور دوسری جانب عظیم فاسٹ باؤلر عمر گل ان کے باؤلنگ کوچ ہوں گے۔

اسپن باؤلرز میں محمد نواز کا ساتھ دینے لیے قیس احمد اور زاہد محمود موجود ہوں گے جو بہترین باؤلرز ہیں۔ یعنی گزشتہ سال کی سب سے بڑی کمزوری باؤلنگ پر خاصا کام کیا گیا ہے اور امید یہی ہے کہ 20 فروری کو پی ایس ایل 6 کے افتتاحی مقابلے کے ساتھ جس مہم کا آغاز ہوگا، اس میں کوئٹہ کے لیے حالات اور نتائج مختلف ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں