سعودی عرب: غیر متحرک سرمایہ کاری کیلئے ولی عہد کا معاشی توازن کیلئے پروگرام

اپ ڈیٹ 23 فروری 2021
محمد بن سلمان نے تیل کے بغیر معاشی استحکام لانے کا پروگرام بنایا ہے --فائل فوٹو: بلومبرگ
محمد بن سلمان نے تیل کے بغیر معاشی استحکام لانے کا پروگرام بنایا ہے --فائل فوٹو: بلومبرگ

سعودی عرب نے ملک میں غیر متحرک سرمایہ کاری اور دیگر معاشی سرگرمیوں سمیت مجموعی طور پر معاشی توازن کے لیے پروگرام شروع کردیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزارت خزانہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'اس پروگرام کا اصل مقصد حکومت کی بیلنس شیٹ میں توازن لانا ہے، جس میں سرمایہ اور اخراجات بھی شامل ہیں، جو اس وقت بیلنس شیٹ کا حصہ نہیں'۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب: نائب ولی عہد کا معاشی اصلاحات کا اعلان

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بنیادی ادارہ پبلک انوسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کو اصلاحات کا مرکز بنالیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد تیل کی دولت سے مالامال ملک میں تیل کے بغیر معاشی اصلاحات لانا ہے۔

رپورٹ کے مطابق محمد بن سلمان کی سربراہی میں پی آئی ایف کو فعال کرکے عالمی سطح پر سرمایہ کاری کا ادارہ بنایا گیا ہے، جس میں ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں اور جاپان کے بینک سے چلنے والے ادارے بھی شامل ہیں تاہم اس کی مالی اسٹیٹمنٹ جاری نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی یہ سعودی عرب کے بجٹ میں شامل ہے جس تک عوام کی باآسانی رسائی ہے۔

واضح رہے کہ عرب ممالک عام طور پر اپنے قرض اور سرمایے کے حوالے سے معلومات جاری نہیں کرتے لیکن پی آئی ایف کے معاملات سے متعدد سرمایہ کاروں کو مسائل ضرور ہیں۔

امریکی کمپنی فچز ریٹنگ کے ایک ڈائریکٹر کرجانس کروسٹنس کا کہنا تھا کہ 'مرکزی بینک جیسے اداروں سے سرمایے کی منتقلی واضح طور پر شفاف نہیں جس سے نجی شعبے میں خسارے کے خطرات میں اضافہ ہوا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سرمایہ کاروں کو حکومت اور حکومت سے منسلک پی آئی ایف جیسے اہم اداروں میں بھی اسی طرح کا خسارہ نظر آرہا ہے اور اس سے کسی نکتے پر سعودی حکومت کو خود بھی قرضوں کی لاگت سے اثر پڑ سکتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی ولی عہد کی کھرب پتی شہزادے ولید بن طلال سے دوستی

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا نے اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری نہیں کی۔

خیال رہے کہ سعودی حکومت نے اس پروگرام کے دوسرے مرحلے کا آغاز گزشتہ شروع کیا تھا اور اس کو ایس اے ایل ایم کا نام دیا گیا تھا۔

ترجمان نے کہا تھا کہ یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے اور اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا کہ کب اس کے نتائج سے آگاہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم بینچ مارک کی بات کریں تو اس معاملے پر کئی ممالک کو ابتدائیی مراحل میں چند سال لگ جاتے ہیں۔

پی آئی ایف کے سرمایے میں 2015 کے 150 ارب ڈالر سے 2020 میں 400 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا ہے، جس میں سعودی آرامکو کے 70 ارب ڈالر اور دیگر کمپنیوں کے 40 ارب ڈالر بھی شامل ہیں۔

'معمولی حالات میں زیادہ وقت درکار'

سعودی عرب میں تیل کے باعث روزگار میں فراونی ہوتی ہے لیکن ولی عہد محمد بن سلمان کے سامنے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ایک اہم چیلنج ہے۔

محمد بن سلمان کی سربراہی میں حکومت 2016 سے ملکی معیشت کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہی ہے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اور 2030 تک بے روزگاری کی شرح 7 فیصد سے کم کی جائے۔

کورونا وائرس اور دیگر اخراجات کے باعث گزشتہ برس سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح ریکارڈ 15 اعشاریہ 4 فیصد کو پہنچی تھی۔

سعودی حکومت نے 12 فیصد جی ڈی پی میں 4 اعشاریہ 9 فیصد کمی ریکارڈ کی اور اس وجہ سے اپنے بڑے اخراجات میں کمی لائی تھی۔

پی آئی ایف کے منصوبے میں 2025 تک مقامی معیشت کو سالانہ بنیاد پر 150 ارب ریال (40 ارب ڈالر) فراہم کرنا بھی شامل ہے اور اثاثوں کو 4 کھرب ریال (1.07 کھرب ڈالر) تک لے کر جانا ہے۔

لندن میں قائم کمپنی اور پی آئی ایف کی شراکت دار ایس اے ایم کیپٹل پارٹنر کے منیجر خالد عبدالمجید نے کہا کہ 'محمد بن سلمان سمجھتے ہیں کہ جب تک معیشت 6.5 فیصد کی شرح سے ترقی نہیں کرتی تو نوجوانوں کی بے روزگاری ایک ٹائم بم ثابت ہوسکتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس مقصد کے لیے معمول کے راستے سے معمول کے مطابق کام پر مقرر کردہ وقت سے زیادہ عرصہ لگے گا'۔

تبصرے (0) بند ہیں