برصغیر میں عوام کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ تجارتی تعلقات ہیں، وزیراعظم

اپ ڈیٹ 24 فروری 2021
وزیراعظم عمران خان، سری لنکن وزیراعظم کے ہمراہ تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہوئے — تصویر: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان، سری لنکن وزیراعظم کے ہمراہ تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہوئے — تصویر: ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خطے کے عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے تجارتی تعلقات کا فروغ ناگزیر ہے، یورپی یونین کی طرز پر ہمیں خطے میں تجارتی تعلقات استوار کرنا ہوں گے، مسائل کا حل جنگ کی بجائے مذاکرات میں ہے

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، چین اور امریکا کے درمیان بڑھتی خلیج میں ماضی کی طرح ایک بار پھر کردار ادا کر سکتا ہے، سری لنکا کی بزنس کمیونٹی کو سی پیک میں سرمایہ کاری کی دعوت دیتا ہوں۔

انہوں نے کولمبو میں ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری سیاست کا محرک صرف غربت کا خاتمہ تھا جس کے لیے میں نے تقریباً 25 سال جدو جہد کی اور میں نے سیاست میں حصہ اس لیے لیا کیوں کہ میں سمجھتا تھا کہ غربت کے خاتمے کا بہترین طریقہ ایک فلاحی ریاست کا قیام ہے۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں پہلی 'پاکستان-سری لنکا تجارت و سرمایہ کاری کانفرنس' کا انعقاد پاکستانی وزارت تجارت نے ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان، بورڈ آف انویسٹمنٹ پاکستان اور سری لنکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے تعاون سے کیا جس میں وزیراعظم عمران خان کے علاوہ سری لنکا کے وزیراعظم مہندا راجا پاکسے بھی شریک ہوئے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ سیاست میں آنے سے قبل میں نے ایک کینسر کا ہسپتال قائم کیا جس کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ کینسر کا مہنگا علاج کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ غریب افراد ایسے ہسپتال میں کینسر کا علاج کرواسکیں جہاں انہیں اخراجات کے حوالے سے پریشان ہونے کی ضرورت نہ پڑے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان، سری لنکا کے مابین مختلف شعبوں میں تعاون کیلئے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط

انہوں نے مزید کہا کہ جس وقت میں ہسپتال تعمیر کررہا تھا مجھے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ 22 کروڑ آبادی والے ملک میں زیادہ سے زیادہ غریب افراد کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ فلاحی ریاست کا قیام ہے، یہ وہ محرک تھا۔

انہوں نے کہا کہ آج میری سری لنکن صدر کے ساتھ ہونے والی بات چیت بہت اچھی تھی کیوں وہ بھی غربت کے خاتمے سے موٹیویٹ ہوئے۔

کاروبار اور سرمایہ کاری سے غربت کا خاتمہ ممکن ہے

وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں ہمیں اشیائے خور و نوش کی مہنگائی کے مسئلے کا سامنا ہے اور ہم نے اس بارے میں بات چیت کی کہ کس طرح ان قیمتوں کو نیچے لایا جائے اور سری لنکن کے صدر نے اپنے دورہ چین کے تجربات سے آگاہ کیا کہ انہوں نے وہاں فارمز کا دورہ کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ کس طرح وہاں ہول سیل اور ریٹیل کے فرق کو کم کیا گیا۔

عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں کسان کی پیداوار اور جس قیمت پر وہ ریٹیل کی دکانوں میں فروخت کی جاتی ہے اس میں بہت بڑا فرق ہے اور اس فرق کو چین نے ٹیکنالوجی کے ذریعے کم کیا۔

وزیراعظم نے یہ خیال پیش کرنے پر سری لنکن صدر کا شکریہ ادا کیا اور ارادہ ظاہر کیا کہ وہ وطن واپس جا کر اس فرق کو دور کرنے کے لیے ٹیکنالوجی منگوائیں گے۔

خطاب کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غربت کے خاتمے کا دوسرا طریقہ سرمایہ کاری، کاروبار میں منافع کو فروغ دینا ہے جس پر میرا دوسرا سب سے زیادہ زور ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں پالیسیوں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا ہے جو بدقسمتی سے 40 سال سے جاری تھیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت کا پورا ڈھانچہ، بیوروکریسی کا ڈھانچہ اس انداز میں ڈھال دیا گیا ہے کہ وہ کاروباری اور تاجر برادری کی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے، ہم نے گزشتہ 2 سال کے عرصے میں اس پوری سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اور کاروباری آسانیوں میں آنے والی رکاوٹ کو دور کیا ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کا سری لنکن پارلیمنٹ سے طے شدہ خطاب منسوخ

ان کا کہنا کہ ہم نے 28 چیزوں میں بہتری کی ہے، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ہاں کاروباری آسانی بہتر ہوئی ہے، اور اس کا مقصد دولت کی پیداوار اور اس دولت کو اپنی آبادی کے نچلے طبقے پر خرچ کر کے انہیں غربت سے نکالنا ہے جیسا کہ چین نے کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں چین کی ایک بات کو بہت سراہتا ہوں کہ انسانی تاریخ میں یہ واحد ملک ہے جس نے 30 سے 35 سال کے عرصے میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکالا ہے، اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں میری سری لنکن صدر سے بہت اچھی بات چیت ہوئی اور جب سے اقتدار سنبھالا ہے میرا اس پر بہت زور ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کاروبار، کاروباری برادری اور سرمایہ کاری کی پشت پناہی کرنے کا حتمی مقصد غربت کا خاتمہ ہے، دولت پیدا کریں، غربت ختم کریں۔

سیاسی استحکام کے لیے تجارتی تعلقات اہم ہیں

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک میں دولت کی پیداوار کا تیسرا مقصد استحکام ہے، سیاسی استحکام، پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا کیوں کہ ہماری اور سری لنکا کی مشترک بات یہ ہے کہ جب آپ کسی تنازع یا دہشت گردی میں گھرے ہوں تو پہلی چیز جو اسے متاثر ہوتی ہے وہ کاروباری ماحول، سرمایہ کاری اور آپ کے کیس میں سیاحت، کیوں کہ ابھی پاکستان کی سیاحت سری لنکا جتنی ترقی یافتہ نہیں، لیکن یہ بھی متاثر ہوتی ہے جس سے سری لنکا گزر چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی میں نے اقتدار سنبھالا میں نے پڑوسی ملک بھارت سے رابطہ کیا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر واضح کیا کہ ہمارے اختلافات دور کرنے کا راستہ مذاکرات اور اس کے بعد تجارتی تعلقات کی بہتری اور کشیدگی کم کرنا ہے لیکن میں کامیاب نہیں ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لیکن میں پُر امید ہوں کہ بالآخر یہ احساس غالب آجائے گا کہ برصغیر میں ہمارے لیے اپنے لوگوں کو غربت سے نکالنے کا واحد راستہ تجارتی تعلقات ہیں، انہیں بہتر بنانا، ایسے مہذب پڑوسیوں کی طرح رہنا جس طرح یورپی ممالک رہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خدا جانے جرمنی اور فرانس نے کتنی جنگیں لڑیں اور اس میں کتنے لاکھ انسان مارے گئے لیکن آج وہ تنازع کا سوچ بھی نہیں سکتے کیوں کہ وہ کاروبار کے ذریعے ایک دوسرے سے بہت زیادہ منسلک ہیں، بالخصوص یورپیئن یونین کے قیام کے بعد ان کی تجارتی تعلقات بہت مضبوط ہوگئے ہیں اس لیے یہ ممالک ایک اور جنگ کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک کے ذریعے اقتصادی روابط وسط ایشیا، سری لنکا تک بڑھائے جاسکتے ہیں، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ برصغیر کے حوالے سے بھی میرا خواب ہے کہ ہم اپنے اختلافات، اور ہمارا صرف ایک اختلاف ہے اور وہ مسئلہ کشمیر ہے اور ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اسے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور یہ صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ 20-30 سالوں میں ہم نے دنیا میں یہ دیکھا کہ اگر اقوام کے درمیان تنازع ہو تو وہ مزید تنازعات کو جنم دیتا ہے، ایک قوم ایک مسئلہ سلجھانے کے لیے جنگ کرتی ہے اور 5 دیگر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں، امریکا عراق میں القاعدہ کا خاتمہ کرنے گیا اور اسے داعش ملی۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات مسائل کو حل کرنے کا طریقہ نہیں ہیں، میں دوبارہ چین کی مثال دوں گا کہ چینی صدر نے کہا تھا کہ ان کے بھی پڑوسیوں کے ساتھ مسائل ہیں لیکن یہ تمام مسائل تجارت، کاروبار اور سرمایہ کاری سے کم ہوگئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک ارب 30 کروڑ لوگوں پر مشتمل کے اس خطے کی صلاحیت کا تصور کریں، یہ سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ایک ہے، میری رائے میں اس کی موجودہ حالت کی ذمہ داری ہمارے سیاسی اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی نااہلیت پر عائد ہوتی ہے۔

پاکستان، امریکا اور چین کے مابین کشیدگی کم کرواسکتا ہے

انہوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ پاکستان، امریکا اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے، 50 سال قبل پاکستان ہی تھا جس نے ہنری کسنجر اور چینی حکام کے مابین ملاقات کروا کر امریکا اور چین کے تعلقات قائم کروائے تھے اور مجھے اُمید ہے کہ ہم دوبارہ وہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا ملک بننے کے بجائے جو دیگر ممالک کے درمیان دشمنی میں حصہ دار بنتا ہے، ایسا ملک ہیں جو دیگر ممالک اور انسانیت کو قریب لاتا ہے۔

وزیراعظم کی سری لنکن کاروباری برادری کو سی پیک میں شمولیت کی دعوت

ان کا کہنا تھا کہ سری لنکا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں دونوں ممالک کے لیے بہت پوٹینشئل ہے، پاکستان سری لنکا سے سیاحت کے حوالے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کیوں کہ پاکستان میں سیاحت کی بہت صلاحیت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس مذہبی سیاحت کی بھی بہت گنجائش ہے، سری لنکا کے عوام کو گندھارا یعنی بدھسٹ تہذیب میں دلچسپی ہوگی، ہم نے بدھسٹ سیاحوں کے لیے مزید ایسے مقامات بھی تلاش کیے ہیں اور پہاڑی اور مذہبی سیاحت کے ساتھ ہمارے پاس ساحلی سیاحت کے بھی بہت مواقع موجود ہیں۔

مزید دیکھیں: وزیراعظم عمران خان کا سری لنکا میں شاندار استقبال

وزیراعظم نے سری لنکا کی کاروباری برادری کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے میں حصہ لینے کی دعوت دی، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے اور اس سے سری لنکن کاروبار کو وسطی ایشیا تک اپنے کاروبار کو وسیع کرنے کا موقع ملے گا اور گوادر کے ساحل سے ازبکستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے منسلک ہوا جاسکے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے علاوہ ہمارے خصوصی اقتصادی زونز بھی ہیں، جن میں صنعتیں لگانے کے لیے مراعات فراہم کی گئی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہی چیز برصغیر پر بھی لاگو ہوتی ہے، ہمیں اپنے مسائل تنازعات کے ذریعے نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں وزیراعظم عمران خان نے سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے سے کولمبو کے صدارتی سیکریٹریٹ میں ون آن ون ملاقات کی۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان 23 فروری کو سری لنکا کے وزیراعظم مہیندا راجاپاکسا کی دعوت پر دو روزہ دورے پر سری لنکا پہنچے تھے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم کا دفتر سنبھالنے کے بعد عمران خان کا یہ پہلا دورہ سری لنکا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں