ٹاس جیتو، پہلے فیلڈنگ کرو اور میچ آپ کا ہوا، یہ اس سال پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی ٹیگ لائن ہی بنتی جا رہی ہے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز, ملتان سلطانز اور اب کراچی کنگز نے اس میں تبدیلی کی بھرپور کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے وکٹ دوسری اننگ میں بیٹنگ کے لیے بہت سازگار ہوجاتی ہے، جن پر نہ تو فاسٹ باؤلرز کو مدد مل رہی ہے اور نہ ہی اسپنرز کو، لہٰذا ایسے حالات میں ہدف کا دفاع قریب قریب ناممکن ہوجاتا ہے۔

ہارنے والی ان تینوں ٹیموں نے اگرچہ پہلی اننگ میں بڑا اسکور ضرور کیا لیکن بیٹنگ کے لیے بہترین وکٹوں پر ان کے باؤلرز نے اہم مواقع پر غیر ضروری رنز دیے، کچھ کپتانی کی غلطیاں ہوئیں اور یوں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم ابھی تک ایک بھی میچ نہیں جیت سکی۔

کراچی بمقابلہ اسلام آباد میں ٹرننگ پوائنٹ کیا تھا؟

ٹی20 لیگز میں کئی بار ایک بڑی اننگ سے کئی چھوٹی لیکن تیز اننگز بہتر رہتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ کراچی کنگز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان میچ میں ہوا جہاں بابر اعظم کی نصف سنچری سے ایلکس ہیلز، فہیم اشرف، حسین طلعت، افتخار احمد اور آصف علی کی نسبتاً چھوٹی چھوٹی اننگز کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوئیں۔

ٹی20 لیگز کے اس دور میں اب بیٹنگ کا طریقہ کار بدلتا جا رہا ہے اور کھلاڑیوں کے لیے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں خود کو ڈھالنا ازحد ضروری ہوتا جا رہا ہے۔

کراچی کنگز کی شکست کی ایک اہم وجہ بابر اعظم کی نصف سنچری کی تکمیل کے بعد کھیلی گئی گیندیں بھی تھیں۔ پہلی 14 گیندوں پر بابر اعظم 24 رنز بنا چکے تھے لیکن نصف سنچری کی تکمیل میں بابر نے مزید 24 گیندیں کھیل ڈالیں۔

بابر کی نصف سنچری افتخار احمد کو لگائے چھکے سے مکمل ہوئی تو ایسا لگا کہ شاید اب وہ شرجیل کی باؤنڈریز کا مقابلہ باؤنڈریز سے کریں گے لیکن نصف سنچری کے بعد اگلی 16 گیندوں پر بابر صرف 11 رنز ہی بنا سکے اور اس دوران باؤنڈری لگانے میں بھی ناکام رہے۔

ان 16 گیندوں میں بابر کے 2 کیچ بھی پکڑے گئے لیکن دونوں گیندیں نو-بال ہوگئیں۔ میچ کے اختتام پر اگر کنگز کی انتظامیہ نے حساب کتاب کیا ہو تو شاید خیال آیا ہو وہ نو-بال نہ ہوتی تو ہی بہتر تھا۔ بابر اعظم جو پچھلے سال کراچی کنگز کے چیمپیئن بننے میں ایک اہم ترین کردار تھے لیکن آج ان کی نصف سنچری اس شکست کا ایک اہم کردار بن گئی۔

شرجیل خان نے ایک سست آغاز کے بعد بہترین ہٹنگ کی اور ٹی20 کرکٹ میں اپنی تیز ترین سنچری مکمل کی۔ اس دوران شرجیل نے شاداب خان کو مسلسل 4 چھکے بھی رسید کیے۔ شرجیل خان اور بابر اعظم نے اس اننگ میں 175 رنز کی شراکت بنائی لیکن ان دونوں کی اس شراکت کے باعث پچھلے میچ میں صرف 23 گیندوں پر 46 رنز بنانے والے جوئے کلارک کی باری ہی نہ آسکی اور 14 گیندیں کھیل کر 30 رنز بنانے والے محمد نبی کو صرف 5 گیندیں کھیلنے کو ملیں۔ اس پوری اننگ کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کبھی کبھی کم وکٹیں گرنا، کیچ چھوڑنا اور نوبال پر وکٹیں، یہ سب بھی باؤلنگ ٹیم کے فائدے میں جاسکتا ہے۔

۔

اسلام آباد کی زبردست حکمتِ عملی

حالات کے مطابق حکمتِ عملی کی تبدیلی کی بات کی جائے تو اس کی جھلک اسلام آباد یونائیٹڈ کی اننگ میں واضح نظر آئی۔ شاداب خان آؤٹ ہوئے تو انہوں نے ڈریسنگ روم کی جانب جاتے ہوئے ایک اشارہ کیا جس کے بعد غیر معمولی انداز میں فہیم اشرف بیٹنگ کے لیے آتے نظر آئے۔ عام حالات میں نمبر چار پر حسین طلعت یا افتخار احمد بیٹنگ کے لیے آتے لیکن اس ایک فیصلے نے میچ کا رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔

فہیم اشرف نے رنز تو زیادہ نہیں بنائے لیکن ایلکس ہیلز کے ساتھ مل کر اسلام آباد یونائیٹڈ کی اننگ کو وہ مومینٹم دے دیا جو اس فتح کے لیے بہت ضروری تھا۔

اگرچہ فیلڈنگ کے شعبے میں ایلکس ہیلز کچھ غائب غائب لگے کہ انہوں نے ایک نہیں بلکہ 2 کیچ چھوڑ دیے، لیکن جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو ایسا لگا جیسے یا تو وہ سب کچھ بھلا چکے تھے یا بلا ہاتھ میں آتے ہی اپنی تمام خامیاں یاد آگئیں۔

عماد وسیم اور محمد عامر نے پہلے 2 اوورز میں زیادہ رنز بھی نہیں دیے اور 2 وکٹیں بھی کراچی کنگز کو مل چکی تھیں، لیکن عماد وسیم نے شاید پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق عامر یامین کو تیسرے اوور کے لیے طلب کرلیا اور یہی وہ اوور تھا جس نے ناصرف اس میچ کا رخ بدل دیا بلکہ عامر یامین کو بھی اس اوور کے بعد شاید کئی میچ باہر بیٹھنا پڑے۔

یہ تیسرا اوور پی ایس ایل کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین اوور ثابت ہوا جس میں 29 رنز بن گئے۔ ہیلز نے اس اوور میں 5 چوکے اور ایک چھکا لگا کر مخالف ٹیم کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی، اور ہیلز کی اسی شاندار کارکردگی کی بدولت انہیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی قرار دیا گیا۔

پاور پلے میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے اگرچہ 4 وکٹیں تو کھو دیں لیکن رنز اتنے بن چکے تھے کہ مطلوبہ رن ریٹ 9 سے کم ہوچکا تھا۔ شاداب اور فہیم کے اوپر آنے کی وجہ سے ابھی حسین طلعت، افتخار احمد اور آصف علی جیسے بیٹسمین موجود تھے اور ان تینوں نے اپنے تجربے کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے میچ 5 گیندیں پہلے ہی ختم کردیا۔

کراچی کے لیے پریشان کن پہلو

کراچی کنگز کے لیے اس میچ میں بابر اعظم کی پاور پلے کے بعد کی بیٹنگ پریشان کن ہے۔ بابر اعظم کراچی کے امکانات کے لیے اہم ترین کھلاڑی ہیں اور جتنا اہم ان کا سکور کرنا ہے اتنا ہی اہم ٹی20 کرکٹ میں اسٹرائیک ریٹ بھی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ محمد عامر کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ وہ باؤلنگ لائن کا اہم ترین ستون ہیں اور انہیں اسی ذمہ داری کے مطابق اپنی کارکردگی کو نکھارنا ہوگا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ عامر یامین کے خلاف بننے والے رنز نے پریشانی میں اضافہ کیا، لیکن اس صورتحال کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ عامر کو یہ سوچنا ہوگا کہ وہ بابر اعظم کے بعد کراچی کنگز کے اہم ترین کھلاڑی ہیں اور ان کا رنز روکتے ہوئے وکٹیں لینا اتنا ہی اہم ہے، جتنا بابر کا تیزی سے اسکور کرنا۔

اسلام آباد کے لیے پریشان کن پہلو

اسلام آباد یونائیٹڈ نے دونوں میچ تو جیت لیے لیکن ان کے لیے کپتان شاداب خان کی کارکردگی سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے۔ شاداب کی باؤلنگ تو کافی عرصے سے بہتر نہیں ہورہی لیکن پچھلے سال شاداب نے اس کی کسر اپنی عمدہ بیٹنگ سے پوری کردی تھی۔ اس بار شاداب نے نمبر 3 پر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے جو زیادہ سودمند ثابت نہیں ہو رہا۔ شاداب اور اسلام آباد یونائیٹڈ کی انتظامیہ کو اس پر جلد کچھ سوچنا ہوگا ورنہ ہر میچ میں کپتان کی ناکامی کا ازالہ شاید باقی کھلاڑی نہ کر پائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں