پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن کے غیر معینہ مدت تک ملتوی ہونے سے ایک رات پہلے ہی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے ملتان سلطانز کو شکست دی تھی۔ یہ نتیجہ بہت ہی خاص تھا کیونکہ ناصرف یہ اس سیزن میں کوئٹہ کی پہلی جیت تھی بلکہ اس سیزن میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم میچ جیتی ہو۔ یوں بلآخر ٹاس ہار کر میچ بھی ہارنے والا رجحان ٹوٹ گیا تھا۔

سب اسی بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ کس طرح سرفراز نے حیران کن کارکردگی دکھا کر ٹیم کو فتح دلوائی۔ تام کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن کیا ہونے والا ہے۔

4 مارچ کی دوپہر جیسے سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ پوائنٹس ٹیبل پر کون سی ٹیم سرِفہرست ہے اور کون سی آخری نمبر پر، کس کھلاڑی نے سب سے زیادہ رنز بنائے اور کس نے سب سے زیادہ وکٹیں لی ہیں یا پھر کس نے شلوار چیلنج اور گوگلی چیلنج پورا کیا۔ اگر فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ ایک کے بعد ایک کھلاڑی کورونا وائرس کا شکار ہورہے تھے۔

پھر 12 گھنٹوں کے اندر اندر پی ایس ایل کا چھٹا سیزن معطل ہوچکا تھا اور اس ایک سطر کی سنگینی سامنے آنے لگی تھی کہ ’پی ایس ایل کا چھٹا سیزن غیر معینہ مدت کے لیے معطل ہوچکا ہے‘۔ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ درست فیصلہ تھا تاہم اس کی وجہ کئی غلط فیصلے بنے جن سے ہر صورت میں بچنا چاہیے تھا۔

اس کی شروعات اس وقت ہوئی جب 20 فروری کو پشاور زلمی کے کپتان وہاب ریاض اور کوچ ڈیرین سیمی نے بائیو سیکیور ببل کو توڑتے ہوئے اپنے فرنچائز مالک جاوید آفریدی سے ملاقات کی۔ یہ قواعد کی پہلی کھلی خلاف ورزی تھی جو سیزن کے شروع میں ہی ہوگئی تھی۔

قواعد کے مطابق ان دونوں کو 3 دن قرنطینہ میں رہنا تھا اور کورونا کے 2 ٹیسٹ منفی آنے کے بعد ہی وہ اپنی ٹیم کے ساتھ رہ سکتے تھے، لیکن ان دونوں نے قرنطینہ کی شرط پوری نہیں کی اور صرف ٹیسٹ کی بنیاد پر ہی انہیں دوبارہ بائیو سیکیور ببل میں جانے کی اجازت مل گئی۔

کچھ اس قسم کی افواہیں بھی سامنے آئیں کہ پشاور زلمی کی جانب سے ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔ زلمی کے کھلاڑیوں کو بائیو سیکیور ببل میں واپس جانے کی اجازت پی ایس ایل کی ایونٹ ٹیکنیکل کمیٹی (ای ٹی سی) نے دی۔

کمیٹی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس فیصلے کا ٹورنامنٹ پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔ قواعد کو کبھی بھی کسی کے حق میں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے خاص طور پر جب ان کا مقصد ایک وبائی بیماری کو روکنا ہو۔ یہاں ای ٹی سی نے بہت ہی خراب مثال قائم کی ہے۔

جب یکم مارچ کو اسلام آباد یونائیٹڈ کے فواد احمد کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تو پی ایس ایل پر غیر یقینی کے بادل منڈلانے لگے تھے۔ اس وجہ سے یونائیٹڈ اور گلیڈی ایٹرز کے درمیان ہونے والا میچ بھی 24 گھنٹے کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ آسٹریلوی لیگ اسپنر کو 27 فروری کو زلمی کے ساتھ میچ کے بعد ہی علامات ظاہر ہونے لگی تھیں اور انہیں قرنطینہ کردیا گیا تھا تاہم ان کا ٹیسٹ 28 فروری کو ہوا۔

قواعد کو کبھی بھی کسی کے حق میں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے خاص طور پر جب ان کا مقصد ایک وبائی بیماری کو روکنا ہو۔

یہاں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی کارکردگی پر سوال کرنا بھی ضروری ہے۔ جب فواد احمد کو علامات ظاہر ہوئیں اسی وقت زلمی اور یونائیٹڈ کے تمام کھلاڑیوں کو قرنطینہ کرکے ان کے ٹیسٹ کیے جانے چاہیے تھے۔ بائیو سیکیور ببل میں سب کو واضح ہدایات دی جانی چاہیے تھیں کہ ٹیسٹ کے نتائج آنے تک سب کھلاڑی ایک دوسرے سے نہ ملیں۔ یہ کام بہت ضروری تھا پھر چاہے اس کی وجہ سے کوئی میچ تاخیر کا شکار ہوتا یا پھر پورے ٹورنامنٹ کو ہی کچھ دن تک روکنا پڑتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یہ بات تو واضح ہے کہ پی سی بی کی جانب سے کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں تھا۔ 4 مارچ تک کل 7 کھلاڑیوں میں وائرس کی تصدیق ہوچکی تھی اور کھلاڑیوں میں افراتفری پھیل گئی تھی۔ کئی غیر ملکی کھلاڑی واپس جانا چاہتے تھے اور یوں پی ایس ایل کو معطل کرنا پڑا۔

پی ایس ایل کے چھٹے سیزن کے آغاز سے پہلے پی سی بی نے زمبابوے اور جنوبی افریقہ کی ٹیموں کے کامیاب دورے کروائے تھے۔ اس وجہ سے انتظامیہ کو یقین تھا کہ وہ پی ایس ایل کے لیے بھی بائیو سیکیور ببل کا انتظام کرسکتے ہیں، تاہم یہ فیصلہ بہت مہنگا پڑا۔

بائیو سیکیور ببل کے حوالے سے کئی چیزوں میں کوتاہی کی گئی۔ پہلی بات تو یہ کہ آخر پی سی بی نے ٹیموں کے لیے پورے ہوٹل کو ہی بک کیوں نہیں کیا؟ رپورٹس کے مطابق کھلاڑی ہوٹل میں دیگر مہمانوں کے ساتھ ملتے رہے اور ان کے ساتھ ایک ہی لفٹ استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ اسی احاطے میں شادیوں کی تقاریب بھی ہوتی رہیں، اور پھر کھلاڑیوں کو صرف 3 دن قرنطینہ میں رہنے کو کیوں کہا گیا جبکہ اصولی طور پر انہیں 14 دن قرنطینہ میں رہنا چاہیے تھا۔

آغاز سے ہی ہر 4 روز بعد کورونا کے ٹیسٹ کیوں نہیں کیے گئے۔ آخر پی سی بی نے زلمی کے کھلاڑیوں کی جانب سے بائیو سیکیور ببل کو توڑنے پر سخت کارروائی کیوں نہیں کی؟ آخر فرنچائز مالکان اور شوبز شخصیات کو ٹیم ڈگ آؤٹ میں بیٹھنے، اردگرد گھومنے اور کھلاڑیوں کے ساتھ ملنے جلنے کی اجازت کیوں دی گئی؟

اس پورے ٹورنامنٹ میں شامل 6 ٹیموں کو پی سی بی کی جانب سے بتائی گئی ایس او پیز پر عمل کرنا چاہیے تھا۔ اگر لیگ انتظامیہ ان ایس او پیز کے نفاذ میں ناکام تھی تو فرنچائز کو میدان میں آکر خود اپنے کھلاڑیوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ آخر کار انسانی صحت اوّلین ترجیح ہونی چاہیے۔

پی ایس ایل کھیلوں کا کوئی پہلا ایسا مقابلہ نہیں ہے جس میں کورونا کے کیس سامنے آئے ہوں لیکن جس طرح اس صورتحال پر ردِعمل دکھایا گیا ہے وہ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے۔ اس حادثے کے بعد ہر اسٹیک ہولڈر غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔ پی سی بی اور پی ایس ایل کی ساکھ پر لگنے والا یہ دھبہ ایک دن میں صاف نہیں ہوسکتا۔

سخت تنقید کے بعد پی سی بی کے میڈیکل بورڈ کے سربراہ مستعفی ہوگئے ہیں اور وبائی امراض کے ماہرین پر مبنی ایک فیکٹ فائنڈگ کمیٹی بائیو سیکیور ببل کے حوالے سے ہونے والی کوتاہیوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مزید تحقیقات کے ساتھ ساتھ مزید افراد کے استعفے بھی سامنے آئیں۔

یہ پہلا موقع تھا کہ پی ایس ایل کے میچ کئی مقبول عالمی پلیٹ فارمز پر نشر کیے جارہے تھے۔ پی سی بی کو چاہیے تھا کہ اپنی صلاحیتوں اور پاکستان کی ایک پراڈکٹ کو پیش کرنے میں ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات اس حوالے سے بالکل بھی اچھے نہیں رہے۔

پاکستانی شائقینِ کرکٹ ایک طویل عرصے تک ملک میں کرکٹ سے محروم رہے ہیں۔ پاکستان کو کرکٹ کے لیے محفوظ ملک بنانے میں بہت محنت صرف ہوئی ہے اور پی ایس ایل کا اس میں اہم کردار رہا ہے۔ پی ایس ایل کی معطلی سے ناصرف پاکستان کے لیے آئی سی سی میچوں کی میزبانی خطرے میں پڑجائے گی بلکہ مستقبل میں ہونے والے بین الاقوامی دورے بھی کھٹائی میں پڑسکتے ہیں۔

کسی اور ٹیم یا کھلاڑی کو پاکستان آنے کی دعوت دینے سے پہلے کچھ سخت فیصلے کرنے ہوں گے جس سے ان کا اعتماد بحال ہوسکے۔ پی سی بی پہلے ہی بقیہ پی ایس ایل میچوں کے لیے بائیو سیکیور ببل کی ذمہ داری ایک بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکے پر دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ دیکھانا یہ ہے کہ آخر پی ایس ایل کے بقیہ میچوں کا انعقاد کب کیا جاتا ہے کیونکہ بقیہ پورا سال کرکٹ کے حوالے سے پہلے ہی بہت زیادہ مصروف ہے۔

پی ایس ایل کا چھٹا سیزین مکمل نہ ہونے سے بڑا مالی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ پی سی بی اور فرنچائز پہلے ہی پی ایس ایل کے موجودہ مالی ماڈل پر متفق نہیں ہیں۔ پانچواں سیزن درمیان میں رہ جانے کی وجہ سے پی سی بی بلٹز نامی براڈکاسٹر کے ساتھ قانونی چارہ جوئی میں لگا ہوا ہے۔ اگر اس سال بھی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تو یہ صورتحال پی سی بی، فرنچائزز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس کے نتیجے میں لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے۔

اس صورتحال کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر پی سی بی اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیسے کرسکتا ہے۔ پی ایس ایل کی اس صورتحال کو انتظامیہ اور ہم سب کے لیے ایک سبق بننا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ بحیثیت قوم ہمیں بھی اس وبا سے متعلق اپنا رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ایس او پیز پر عمل کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے اور ہمیں اس ذمہ داری کو پورا کرنا بھی چاہیے۔ اس شرمندگی سے نکلنے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔


یہ مضمون 14 مارچ 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں