قومی کرکٹ ٹیم کا اسکواڈ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے دورے پر روانہ ہوچکا ہے لیکن کپتان بابر اعظم اس روانگی سے پہلے ہی خبروں کی زینت بن رہے تھے۔ تینوں فارمیٹ کے کپتان کو چیف سلیکٹر کی جانب سے 35 رکنی اسکواڈ کے انتخاب میں کچھ کھلاڑیوں کو نظر انداز کرنے پر اعتراض ہے۔

پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں اس طرح کے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ماضی میں بھی سلیکشن کمیٹی کی جانب سے کپتان کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم کچھ کپتان اس معاملے میں خوش قسمت بھی رہے۔ ملک کے موجودہ وزیرِاعظم عمران خان 1980ء کی دہائی میں پاکستانی کرکٹ کے سنہری دنوں کے دوران ٹیم کے انتخاب میں اپنی بات منوا کر رہتے تھے۔

اس وقت کوئی سلیکٹر بھی ایسا نہیں تھا جو ایک بہترین کرکٹر اور آل راؤنڈر کی حیثیت سے عمران خان کی صلاحیت پر سوال اٹھا سکتا۔ اس دوران تمام تر فیصلے کپتان ہی کیا کرتا تھا اور سلیکٹر کا کام نمائشی نوعیت کا ہی رہ جاتا تھا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب کا حتمی فیصلہ عمران خان کرتے تھے اور سلیکٹر صرف کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کرتے تھے۔

عمران خان کو کبھی اس بات کی فکر نہیں رہی کہ انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے جواب طلبی کے لیے بلایا جاسکتا ہے۔ ان کا سلیکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا مخصوص انداز ہی تھا کہ جس کی وجہ سے مرحوم عبدالقادر کو کرکٹ کی تاریخ کے بہترین لیگ اسپنرز میں شامل کیا گیا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے عبد القادر کی کس طرح حوصلہ افزائی کی اور انہیں یہ باور کروایا کہ وہ محدود اوورز کی کرکٹ میں بہترین باؤلر ثابت ہوسکتے ہیں۔ عمران خان نے عبد القادر کو 1983ء میں برطانیہ میں ہونے والے ورلڈ کپ کے لیے منتخب کیا جہاں انہوں نے نہ صرف بین الاقوامی ایک روزہ کرکٹ میں ڈیبیو کیا بلکہ اپنی صلاحیت کا لوہا بھی منوایا۔

لیکن ظاہر ہے کہ بابر اعظم عمران خان تو نہیں ہیں۔ دورے سے قبل ہونے والی پریس کانفرنس میں یہ بات واضح تھی کہ وہ اتنے مضبوط نہیں ہیں، یا یوں کہیے کہ وہ ابھی اتنے مضبوط نہیں ہوئے ہیں۔

بابر کا اصرار یاسر شاہ کو منتخب کرنے پر تھا جو خبروں کے مطابق اس وقت گھٹنے کی چوٹ سے صحتیاب ہورہے ہیں اور ان کی جگہ زاہد محمود کو ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔ زمبابوے میں ہونے والے 2 ٹیسٹ میچوں میں یاسر کی عدم شمولیت کی ایک وجہ افریقہ میں ان کی خراب کارکردگی ہے اور ظاہر ہے کہ جنوبی افریقہ بھی براعظم افریقہ کا ہی حصہ ہے۔

بابر نے پریس کانفرنس میں جو باتیں کیں وہ ایک طرح سے نقصان کو کم کرنے کی کوشش تھیں۔ کچھ اس قسم کی خبریں بھی آرہی تھیں کہ اپنے پہلے ایک سے زائد فارمیٹ کے اسکواڈ کا اعلان کرنے والے محمد وسیم کے ساتھ بابر اعظم کے کچھ اختلافات ہیں۔

مکی آرتھر کی بطور ہیڈ کوچ اور انضمام الحق کی بطور چیف سلیکٹر مدت ختم ہونے بعد مصباح کو ہی یہ ذمہ داریاں دے دی گئیں تھیں۔ تاہم مصباح کی جانب سے چیف سلیکٹر کی متنازع ذمہ داری چھوڑنے کے بعد محمد وسیم کو چیف سلیکٹر بنایا گیا اور اس حیثیت میں انہوں نے اب تک بہت مختصر لیکن کامیاب عرصہ گزارا ہے۔

قومی سلیکشن کمیٹی میں 6 فرسٹ کلاس ڈومیسٹک ٹیموں کے ہیڈ کوچ بھی شامل ہیں، یوں کسی کو بھی اس کمیٹی کے نئے سربراہ کے وژن سے متعلق کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ محمد وسیم کو یوں بھی پذیرائی حاصل ہورہی ہے کہ وہ ماضی میں نظر انداز کیے جانے والے باصلاحیت کھلاڑیوں کو بین الاقوامی کرکٹ کھلانے کے خواہش مند ہیں۔

اس پالیسی کی نعمان علی اور زاہد محمود سے زیادہ بہترین مثال کوئی نہیں ہوگی۔ ان دونوں کا ہی تعلق اندرونِ سندھ سے ہے اور ان دونوں نے ہی جنوبی افریقہ کے دورہ پاکستان کے دوران ٹیسٹ اور ٹی20 فارمیٹ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

اور اب جبکہ رواں سال بھارت میں ٹی20 ورلڈ کپ ہونے جارہا ہے تو محمد وسیم کے پاس ان تجربات کی معقول وجہ بھی موجود ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس عالمی کپ سے پہلے زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو آزما لیا جائے۔

اسپاٹ فکسنگ سے داغدار ہونے والے شرجیل خان کی 4 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی سے بھی کئی سوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ ٹی20 کرکٹ کے لیے ان کی فٹنس کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ تاہم محمد وسیم سمجھتے ہیں کہ شرجیل خان بابر اعظم کے ساتھ شراکت داری میں تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

مزید یہ کہ ٹیسٹ اسکواڈ کے لیے شاہنواز دھنی کا انتخاب لوگوں کی حیرانی کا باعث ہوسکتا ہے کیونکہ وہ 20ء-2019ء میں ہی فرسٹ کلاس کرکٹ میں آئے ہیں۔

حال ہی میں ملتوی ہونے والی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ملتان سلطانز کے لیے کھیلتے ہوئے انہوں نے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کروائی تھی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ باؤلنگ میں اپنی رفتار برقرار رکھتے ہیں۔ 22 سالہ نوجوان نے سندھ کی جانب سے 8 فرسٹ کلاس میچ کھیلے ہیں اور ان میں یہ خاصیت دیکھی گئی ہے کہ میچ کا پہلا دن ہو یا چوتھا، ان کے کھیل میں فرق نہیں آتا۔

ملتان سلطانز کے موجودہ باؤلنگ کوچ اور سابق پاکستانی آل راؤنڈر اظہر محمود دھنی کے بڑے پرستار ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر دھنی اسی جوش و جذبے کے ساتھ چلتے رہے تو ان کا مستقبل ضرور روشن ہوگا۔ فاسٹ باؤلرز میں تنہا دھنی نہیں ہیں جو اچانک بین الاقوامی کرکٹ میں نمودار ہوئے ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے نو عمر آل راؤنڈر محمد وسیم ایک روزہ اور ٹی20 کے لیے منتخب ہوئے جبکہ ٹی20 اسکواڈ میں جگہ بنانے والے کراچی کنگز کے ارشاد اقبال بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

شرجیل خان جیسے کھلاڑی کے لیے قواعد کو تبدیل کرنے سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ ایک طرف تو کھلاڑیوں کے انتخاب میں پی سی بی کے فٹنس معیار کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ دوسری جانب عبداللہ شفیق کو ٹیسٹ اسکواڈ کا حصہ بنادیا گیا ہے۔ انہوں نے چند ایک فرسٹ کلاس میچ ہی کھیلے ہیں اور وہ بھی دسمبر 2019ء میں۔ اس قسم کے فیصلے سمجھ سے باہر ہیں۔

آخر اس وقت ڈومیسٹک کرکٹ کے قلیل تجربے کی بنیاد پر عبداللہ جیسے کھلاڑی کو کس طرح ٹیم میں شامل کیا جاسکتا ہے؟ نیوزی لینڈ میں لگاتار 2 میچوں میں صفر پر آؤٹ ہونے کے بعد انہیں کسی بھی پی ایس ایل فرنچائز نے اپنی ٹیم کا حصہ نہیں بنایا۔ چیف سلیکٹر کو چاہیے کہ وہ اوپنر شان مسعود کو منتخب نہ کرنے کی وجہ کی وضاحت دیں۔ شان مسعود کو منتخب نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی ناقص تکنیک کی وجہ سے ان کا کھیل متاثر ہوا ہے۔

میدان میں اصل مقابلہ شروع ہونے سے پہلے ٹیم کے انتخاب پر بحث ہونا ہمارے خطے میں تو ایک عام بات ہے۔ اتوار کے روز وسیم اکرم نے طنزیہ طور پر وقت کی کمی کے باعث اس بحث میں نہ پڑنے کا کہتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ ’مختلف رائے رکھنا اچھی بات ہے اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان تعمیری بحث ہونی چاہیے‘۔

اہم بات یہ ہے کہ کیا قومی ٹیم جنوبی افریقہ کے خلاف ایک روزہ میچوں کا اپنا ریکارڈ درست کرپاتی ہے یا نہیں۔ پاکستان اور جنوبی افریقہ نے اب تک کل 79 ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جن میں صرف 28 میں پاکستان کو فتح ہوئی جبکہ 50 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ٹی20 میچوں میں ریکارڈ نسبتاً برابری کا ہے جس میں کل 17 میچوں میں پاکستان کو 8 میں فتح حاصل ہوئی ہے۔

اس دوران زمبابوے بھی 3 میچوں کی سیریز میں پاکستان کے خلاف پہلی فتح حاصل کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ زمبابوے پاکستان کے ساتھ کھیلے گئے 14 ٹی20 میچوں میں سے کسی میں بھی فاتح نہیں رہا ہے۔ یہ دونوں ٹیمیں 2013ء کے بعد پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز میں بھی آمنے سامنے آئیں گی۔ ان کے مابین کھیلے گئے 17 ٹیسٹ میچوں میں سے اب تک پاکستان کو 10 میچوں میں فتح حاصل ہوئی ہے جبکہ 3 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں دونوں کے درمیان کھیلا جانے والا آخری میچ بھی شامل ہے۔


یہ مضمون 28 مارچ 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Martin Masih Mar 30, 2021 01:17pm
بابر اعظم پر مقدمہ بھی چل رہا ہے، لہذا اس عنصر کو بھی تجزیے میں شامل کریں۔