4 اپریل کو پاکستانی سیاست کے سب سے کرشمہ ساز سیاستدان، پہلے منتخب وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی محترم ذوالفقار علی بھٹو کی رحلت کو 42 سال ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو پر ہزاروں کالم، مضامین اور سیکڑوں کتابیں لکھی گئیں ہیں۔

حال ہی میں کم از کم 3 کتابیں میری نظروں سے گزریں۔ برطانوی صحافی اور مصنفہ وکٹوریہ اسکوفیلڈ کی My Friendship with Benazir Bhutto اور واجد شمس الحسن کی تازہ ترین کتاب ’بھٹو خاندان میری یادوں میں‘، جس کی ترتیب میں راقم نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور جس کا ایک ماہ میں تیسرا ایڈیشن ان دنوں زیر طبع ہے۔

ساری دنیا کو سوشل میڈیا کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو خبر ہو کہ کتاب کلچر آج بھی زندہ ہے۔ یہ ساری تفصیل اور تمہید اس لیے باندھی گئی کہ مجھے 21 سال پہلے سینئر صحافی اور بھٹو خاندان کے انتہائی قریبی دوست بشیر ریاض کی کتاب ’بھٹو خاندان: جہدِ مسلسل‘ کی یاد آگئی کہ جس کے سبب مجھے عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلال و جمال کو انتہائی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔

تو آئیے ذرا 2 دہائی پیچھے چلتے ہیں۔

غالباً دسمبر 1999ء کی بات ہوگی کہ لندن سے ایک قریبی دوست کا فون آیا۔ ’بشیر ریاض کو تم جانتے ہوگے، وہ بھٹو خاندان پر ایک کتاب مرتب کررہے ہیں، انہیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے، صحافت بھی ہوگی اور لندن کی سیر بھی‘۔

ایک تو ان دنوں ایک حد تک بیکاری پھر پبوں اور پارکوں کے شہر لندن کے سفر کا کون انکاری ہوسکتا ہے۔ اس لیے 31 دسمبر کی شام سردی سے ٹھٹھرتے لندن پہنچا تو ملینیم ایئر سلیبریشن اپنے شباب پر تھی۔ بشیر ریاض جنہیں ان کے قریبی دوست بیش کے نام سے جانتے ہیں، انہوں نے پہلے سے سالِ نو کا جشن منانے کے لیے ایک زندگی سے بھرپور جیالے کا انتظام کر رکھا تھا۔ اس نے ہمیں ساری رات Piccadilly Circus سے لے کر آکسفورڈ اسٹریٹ کے پبوں کی سیر کروا کے بے ہوش کردیا۔

بشیر ریاض اپنی صبح کا آغاز ذرا جلدی کرتے ہیں مگر شام ڈھلے ہماری ان سے پہلی تفصیلی نشست ہوئی۔ بہرحال لندن کے 2 پھیروں اور مہینوں کی مشقت کے بعد جب کتاب مرتب ہوگئی تو انہوں نے کہا کہ میں اسے دبئی میں جاکر محترمہ کو پیش کروں۔

بشیر ریاض
بشیر ریاض

ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بشیر ریاض کی ایک تصویر
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بشیر ریاض کی ایک تصویر

دبئی میں میرا قیام اپنے ایک دوست کے یہاں تھا۔ اگلے ہی دن شام کو بی بی نے مجھے چائے پر بلایا۔ کم و بیش 4 سال بعد بی بی سے ملاقات ہورہی تھی۔ ٹیلی فون کی گھنٹیاں مسلسل بج رہی تھیں۔ لوگوں کی آمد و رفت بھی جاری تھی۔ بی بی نے بڑی محبت سے گرما گرم چائے اور سموسے پیش کیے۔ اس دوران وہ کتاب کی ورق گردانی بھی کرتی رہیں۔ کتاب کے سرورق اور اندر کی تصاویر کی تعریف کی اور میرا آئندہ دنوں کا پروگرام معلوم کرتے ہوئے اگلے دن ڈنر کی دعوت دی۔

میں نے بی بی سے ذکر کیا کہ آپ نے اپنے دونوں دورِ حکومتوں میں مجھے میڈیا کے حوالے سے کام کرنے کو کہا تھا، ان دنوں میں کسی زیادہ مفید کام میں مصروف نہیں ہوں، میرے خیال سے آڈیو ویڈیو کے ذریعے فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف بڑی مؤثر مہم چلائی جاسکتی ہے جس کا مجھے کچھ تجربہ ہے۔ بی بی نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کل ڈنر پر بات کریں گے۔

دوسرے دن ابھی میری صبح شروع نہیں ہوئی تھی کہ بی بی کے سیکرٹری کا فون آیا اور کہا کہ بی بی نے آپ کو ڈنر سے پہلے بلایا ہے۔ بی بی کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو گزشتہ روز کے مقابلے میں ان کا انداز بدلا بدلا لگا۔ ضیا اصفہانی جو پی پی کی ہر حکومت میں ایمبیسڈر ایٹ لارج ہوتے تھے، بی بی کو بتا رہے تھے کہ امریکی مشرف سے ناراض ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اسی دوران پیرس سے علمِ نجوم کے کسی ماہر کا فون آیا جو بی بی کو بتا رہا تھا کہ مشرف کی پیدائش اگست 1943ء ہے اور ایسے لوگوں کے لیے مارچ کا مہینہ اچھا ثابت نہیں ہوتا۔ بی بی یہ باتیں بڑی دلچسپی سے سن رہی تھیں۔

بی بی کے بارے میں سب جانتے ہیں کے وہ کتابوں کا کیڑا رہی ہیں، مگر میرا خیال تھا کہ وہ کم از کم 400 صفحات کی کتاب، اور وہ بھی اردو میں اتنے کم وقت میں نہیں پڑھ سکیں گی۔ بشیر ریاض کی کتاب میں کم از کم 2 باب ایسے تھے جو خاص طور پر میر مرتضٰی بھٹو سے بی بی کے تعلقات اور ان کے پہلے دورِ حکومت میں پارٹی جیالوں کے کردار پر مشتمل تھے۔

ان ابواب کے بارے میں مجھے یقین تھا کہ وہ پڑھ کر خوش نہیں ہوں گی مگر مجھے اس بات کا قطعاً احساس نہیں تھا کہ بی بی پوری کتاب رات بھر میں پڑھ کر اس کے بیشتر صفحات پر سرخ لکیریں کھینچ دیں گی۔ اسی دوران بی بی نے لندن میں بشیر ریاض کو فون بھی ملوا دیا اور اپنے مخصوص انداز میں کہا ’ویل بیش بڑا اچھا کتاب لکھا ہے، میں تو بھول ہی گئی تھی کہ آصف جو میری انگلی کو شہد کی مکھی سے کاٹنے پر مرہم لے کر آیا تھا، اس نے تمہارے کہنے کے مطابق قوم کی تقدیر بدل دی‘، اور پھر مزے لے لے کر بی بی نے کتاب میں سے ایسے ہی جملے پڑھنے شروع کردیے۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ لندن کے اس سرد موسم میں بیش پر اس وقت کیا گزر رہی تھی مگر مجھ پر تو کاٹو تو لہو نہ نکلے کا محاورہ صادق آرہا تھا۔ بی بی نے بیش سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’یہ کتاب اس طرح شائع نہیں ہوگی، میں نے کچھ صفحات کو سرخ رنگ سے قلم زد کردیا ہے، یہ سب صفحے نکال دو‘۔ میں نے بی بی سے کہا کہ آپ نے مختلف ابواب میں 30، 40 صفحات پر لکیریں لگائی ہیں، اس لیے یہ کتاب تو اب دوبارہ ہی شائع ہوگی۔

بی بی نے کہا ’No problem I will pay‘ اور ہاں ڈنر کا وقت ہوگیا ہے سندھ سے بڑے میٹھے آم آئے ہیں۔ ڈرائنگ روم میں اس دوران پارٹی کے پاکستان سے آئے ہوئے خاصے لوگ آچکے تھے۔ ڈنر میز پر رکھے ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ یوں بھی بی بی کی رائے سے میری بھوک مرچکی تھی۔ اچانک بی بی نے کتاب کو بیگ میں رکھتے ہوئے بڑے خوشگوار لہجے میں کہا ’ہاں یہ چاکلیٹ لو، پینتکی انکل کیسے ہیں اور ساتھ ہی اپنی بچپن کی دوست فیروزہ کے بارے میں پوچھا‘۔

ڈرائنگ روم کے ایک کونے میں لے جاکر انہوں نے ایک ٹیچر کی طرح سمجھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ٹھیک ہے کہ بیش ہمارے خاندان اور پارٹی سے قریب ہے مگر بھٹو صاحب اور خود میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں جن سازشوں کا شکار ہوئے، وہ ہماری جمہوری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ بھٹو صاحب تو Death Cell سے اپنی کتاب If I am Assasinated میں ان پارٹی رہنماؤں اور نادان دوستوں کی نشاندہی کرچکے ہیں جو ان کی حکومت گرانے اور انہیں پھانسی چڑھانے میں جنرل ضیا الحق کے شریک کار تھے، بیش نے میر مرتضی بھٹو اور میرے تعلقات کے حوالے سے جو لکھا ہے، وہ اس وقت سامنے لانے کا وقت نہیں۔ میری دوسری حکومت گرانے میں جرنیلوں کا تو ہاتھ تھا ہی مگر میرے گھر میں بھی نقب لگائی گئی۔

’فاروق لغاری کو میں نے صدر بنایا مگر وہ کس طرح ہمارے دشمنوں سے ملا وہ تو سامنے کی بات ہے۔ میر کو کس طرح بیروت سے لایا گیا، آپ ہی کا ایک صحافی دوست خاص طور پر وہاں جاتا ہے، کس طرح جاتا ہے کون بھیجتا ہے، وہ انٹرویو میرے خلاف ایک چارج شیٹ تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے دو بِلّے نہیں بھیڑیے اس سازش میں شریک تھے۔ انہوں نے ایک تیر سے 2 شکار کھیلے۔ میرے پیارے بھائی کو اس وقت پاکستان لایا جاتا ہے جب میری حکومت تھی۔ پہلے تو وہ شاہنواز کی طرح مرتضٰی کو بھی کابل میں مروانا چاہتے تھے مگر اس سازش کا ہمیں علم ہوگیا اور ہم نے اسے اپنے دوست ملک شام بھجوادیا۔ بیش ہماری فیملی میں سے ہے، اگر بیش اس کتاب میں میر اور ہمارے تعلقات کے بارے میں لکھتا ہے تو اس سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا اور مشرف کا میڈیا اسے خوب اچھالے گا۔ میں اور میری جماعت اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں، آصف سیکڑوں مقدمات کا سامنا کر رہا ہے، بچے ابھی چھوٹے اور ڈسٹرب ہیں‘۔

بشیر ریاض کی ایک کتاب کا عکس جس پر محتربہ بے نظیر بھٹو کے دستخط موجود ہیں
بشیر ریاض کی ایک کتاب کا عکس جس پر محتربہ بے نظیر بھٹو کے دستخط موجود ہیں

بشیر ریاض، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے ساتھ
بشیر ریاض، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کے ساتھ

بشیر ریاض آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ
بشیر ریاض آصفہ بھٹو زرداری کے ہمراہ

بشیر ریاض کی یہ کتاب چند ماہ بعد شائع ہوئی تو لندن میں اس کی تقریب رونمائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں۔

کراچی واپسی کے اگلے ہی مہینے مجھے انڈس ٹی وی سے بلاوا آگیا۔ انڈس ٹی وی پر ایک دو بار بی بی سے فون پر مختصر انٹرویو ہوئے جس میں انہوں نے انتہائی خوشگوار انداز میں میرے پروگراموں کا ذکر کیا۔ پھر اکتوبر 2007ء آگیا، بی بی کی آمد سے قبل میں نے ٹیلی فون پر ان کا لندن سے انٹرویو لیا۔ ان کی پاکستان آمد کے حوالے سے 18 کی جگہ میرے سوال میں 22 اکتوبر آگیا تو بی بی نے ’قطع کلامی معاف‘ کی مشکل اردو کا جملہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے تو آنے کی جلدی ہے آپ چاہتے ہیں میں دیر سے آؤں؟‘

اپریل 1986ء کی طرح بی بی کی کراچی آمد پر لاکھوں کا ہجوم تھا۔ بی بی پر خودکش حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئیں مگر 27 دسمبر 2007ء کو جس طرح ان کی شہادت ہوئی اس کے بعد پھر ایک بار یہ سوال اٹھا کہ ’بھٹو لیگسی‘ کا پہاڑ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے بلاول کے کاندھے اٹھا سکیں گے؟

آج 31 سالہ بلاول پارٹی کی ہائی کمان سنبھال چکے ہیں۔ پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر ان کا ایک ایک لفظ اور جھلک خبر بن جاتے ہیں۔ کیا بلاول ذوالفقار بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وراثت کو سنبھال پارہے ہیں؟ آپ یہ جاننے بلکہ پوچھنے کا بھی حق رکھتے ہیں کہ وہ 35 صفحات کہاں گئے؟ اس کا فیصلہ تو بشیر ریاض ہی کریں گے کہ جنہوں نے بی بی کی قلم زدہ کتاب کے ان اوراق کو اسلام آباد میں ایک قریبی مشترک دوست اور محترمہ کی ذاتی رفیق کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔ کیا انہیں شائع ہونا چاہیے؟ اس کا فیصلہ بیش کو ہی کرنا ہے۔

تبصرے (3) بند ہیں

عظیم Apr 07, 2021 06:40pm
میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ ان صفحات کو اب ضرور شائع کیا جانا چاہیے، اگر یہ صفحات واقعی حقائق پر مبنی ہیں، کیونکہ اب نہ تو محترمہ زندہ ہیں نہ میر مرتضی بھٹو قید حیات ہیں۔ البتہ مجاہد صاحب ہمارے ہاں خفیہ معلومات کو ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کی کوئی روایت موجود نہیں۔ قائد ملت لیاقت علی خاں کی شہادت سے لیکر سقوط ڈھاکہ تک، اور ذوالفقار علی بھٹو کے ماورائے عدالت قتل سے لیکر بے نظیر بھٹو کی شہادت تک، حقائق پر مصلحتوں کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے۔
Polaris Apr 08, 2021 01:38am
Pakistan is very unfortunate for several sad stories.
Rizwan Ali Soomro Apr 08, 2021 06:31am
Please publish