اُمّت اخبار میں خواتین کیلئے نامناسب الفاظ کی اشاعت پر صحافتی تنظیموں کی مذمت

06 اپريل 2021
لوگ امت اخبار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی
لوگ امت اخبار کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں—فائل فوٹو: اے پی پی

ملک کی اہم ترین صحافتی و انسانی حقوق کی تنظیموں نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے شائع ہونے والے اردو زبان کے اخبار ’روزنامہ امت‘ کے 5 اپریل کو شائع ہونے والے مضمون میں خواتین کے لیے استعمال کیے گئے نامناسب الفاظ کی شدید مذمت کی ہے۔

روزنامہ امت کو اشتعال انگیز اور صحافتی اقدار کے خلاف خبریں اور مضامین شائع کیے جانے کی وجہ سے پہلے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

صحافتی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ’امت‘ سیاق و سباق سے ہٹ کر رپورٹنگ کرتا ہے، جس وجہ سے صحافتی اخلاقیات پر سوالات اٹھتے ہیں۔

حالیہ دو ہفتوں کے دوران ’امت‘ کی رپورٹنگ پر صحافتی تنظیموں کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا اور اب اخبار کے تازہ مضمون پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) سمیت دیگر تنظیموں نے مذمت کی ہے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

ایچ آر سی پی اور پی ایف یو جے نے ’امت‘ کے 5 اپریل کو مرکزی صفحے پر اہم خبر کے طور پر شائع کیے جانے والے مضمون کی مذمت کی ہے، جس میں خواتین کے خلاف انتہائی نامناسب زبان استعمال کی گئی تھی۔

اخبار کے مضمون کے انداز پر بھی صحافیوں اور صحافتی تنظیموں نے سوالات اٹھائے کہ اخبار میں شائع مضمون کسی طرح ’رائے، رپورٹ یا خبر‘ کے زمرے میں نہیں آتا۔

طویل مضمون میں اگرچہ دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کے ریپ واقعات کو سامنے لایا گیا مگر مضمون میں مثالیں دینے کا انداز اس قدر نامناسب تھا کہ پاکستان کی نامور خواتین کے لیے بھی نامناسب زبان استعمال کی گئی۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

مضمون میں اکتوبر 2020 میں ’دی بزنس اسٹینڈرڈ‘ نامی ویب سائٹ میں شائع رپورٹ کا حوالہ دیا گیا، جس میں ان ممالک کا ذکر کیا گیا تھا، جہاں ’ریپ‘ واقعات سب سے زیادہ ہوتے ہیں۔

مضمون میں سب سے زیادہ ’ریپ‘ واقعات والے ممالک کا ذکر کرتے ہوئے ’عورت مارچ’ کو غیر ضروری طور پر شامل کرکے پاکستانی خواتین کے لیے غلیظ الفاظ استعمال کیا گیا جنہیں ہم یہاں شائع کرنے سے قاصر ہیں۔ اس مضمون میں مزید کہا گیا کہ ’عورت مارچ’ کرنے والی خواتین ان ممالک یا ان کے سفارت خانوں کے باہر جاکر احتجاج کیوں نہیں کرتیں، جہاں ’ریپ’ واقعات زیادہ ہوتے ہیں؟

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

مذکورہ مضمون میں ویب سائٹ کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر یہ بتایا گیا کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ’ریپ‘ واقعات کم ہوتے ہیں اور پاکستان میں بھارت، بنگلہ دیش، جنوبی افریقہ، جاپان اور امریکا جیسے ممالک سے کم ’ریپ‘ ہوتے ہیں۔

تاہم مضمون میں اس بات کو مدنظر نہیں رکھا گیا کہ جس رپورٹ کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، اس میں پاکستان کا ڈیٹا انتہائی کم دستیاب ہے اور جو ڈیٹا دستیاب ہے وہ ایک سال کا ہے اور وہ بھی صرف بچوں کے ’استحصال‘ کا ڈیٹا ہے جو کہ سماجی تنظیم ’ساحل‘ نے فراہم کیا تھا،جس کے مطابق 2018 میں ملک بھر میں 3 ہزار 832 بچوں کے استحصال کے واقعات رپورٹ ہوئے اور استحصال میں 11 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

تاہم صحافتی تنظیموں، صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت سماجی کارکنان کو ’امت‘ کے مضمون یا اس میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر نہیں بلکہ خواتین کے لیے غلیظ زبان استعمال کرنے پر حیرانی ہوئی، کیوں کہ مضمون میں خواتین کو گالیاں تک دی گئی ہیں۔

زیادہ تر تنظیمیں، کارکنان اور صحافی اس لیے بھی ’امت‘ کے مضمون میں خواتین کے لیے استعمال کیے گئے نامناسب الفاظ پر حیران ہوئے، کیوں کہ مذکورہ اخبار کو مذہبی اخبار سمجھا جاتا ہے اور اس سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی بھی شخص کے خلاف اتنی نامناسب زبان استعمال کرے گا۔

’امت‘ کے مضمون شائع ہونے کے بعد پی ایف یو جے نے بھی مضمون میں استعمال کی گئی زبان کی مذمت کی اور تنظیم نے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) سے مطالبہ کیا مذکورہ اخبار کے خلاف جلد اور مناسب ایکشن لیا جائے۔

پی ایف یو جے کے بیان میں کہا گیا کہ ’امت‘ کے مضمون میں استعمال کیے گئے الفاظ صحافتی تاریخ کے لیے شرمسار ہیں۔

اسی حوالے سے ہیومن رائٹس آف پاکستان نے بھی ٹوئٹس کیں اور اخبار کے مضمون میں استعمال کیے گئے الفاظ کی مذمت کرتے ہوئے اخبار سے معافی کا مطالبہ کیا۔

ایچ آر سی پی نے لکھا کہ ’امت‘ وہی اخبار ہے، جس نے حال ہی میں سندھی افسانہ نگار امر جلیل کے خلاف بھی قابل اعتراض مہم شروع کی تھی۔

’امت‘ کے مضمون کے حوالے سے ڈان نیوز کے پروگرام ’ذرا ہٹ کے‘ میں بات کرتے ہوئے لکھاری نورالہدیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ مذکورہ اخبار خود کو ’امت‘ کا اخبار کہنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر وہ ’امت‘ کی بیٹیوں کے لیے کتنی غلیط زبان استعمال کر رہا ہے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

نورالہدیٰ شاہ نے اخبار کے مضمون میں خواتین کے لیےاستعمال کیے گئے نامناسب الفاظ کی مذمت کی اور متعلقہ اداروں سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔

’ذرا ہٹ کے‘ میں میزبان وسعت اللہ خان نے بتایا کہ اخبارات و میگزین پر نظر رکھنے والی تنظیم ’کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرس‘ (سی پی این ای) نے کہا ہے کہ اگرچہ تاحال انہیں کوئی شکایت نہیں ملی مگر وہ ’امت‘ میں نازیبا الفاظ کے استعمال پر ازخود نوٹس لے کر اخبار کے خلاف کارروائی کا حق رکھتی ہے۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

دوسری جانب ’پریس کونسل آف پاکستان‘ نے کہا ہے کہ اگرچہ تاحال انہیں باضابطہ طور پر اخبار کے خلاف کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی مگر اخبار کی جانب سے استعمال کیے گئے نامناسب الفاظ کے استعمال کا علم ہے اور انہوں نے اس ضمن میں سوشل میڈیا پر پوسٹس اور لوگوں کی شکایات دیکھی ہیں۔

حیران کن بات یہ ہے کہ لوگوں کی جانب سے تنقید اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیے جانے کے باوجود تاحال اخبار نے کوئی وضاحت یا معافی نامہ جاری نہیں کیا اور نہ ہی اخبار نے مذکورہ مضمون کو انٹرنیٹ ایڈیشن پر ایڈٹ کیا۔

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

تبصرے (0) بند ہیں