اداس نسلیں اور ’غیر سیاسی‘ شاہی خاندان

19 اپريل 2021
میگھن مرکل اور ہیری، اوپرا ونفری کو انٹرویو دیتے ہوئے
میگھن مرکل اور ہیری، اوپرا ونفری کو انٹرویو دیتے ہوئے

برطانوی شاہی خاندان گزشتہ مہینے ایک بار پھر خبروں کی زینت بنا۔ اس خاندان کے اندرونی معاملات لوگوں کی دلچسپی کا باعث بن چکے ہیں۔ اوپرا ونفری کو دیے گئے شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل کے انٹرویو پر آنے والے ردعمل سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ شاہی خاندان کی حیثیت حکمرانوں سے زیادہ سیلیبریٹی کی سی ہوگئی ہے۔

پاکستانیوں نے بھی اس معاملے میں خوب دلچسپی دکھائی ہے۔ میرے لیے ایک سابق نوآبادی میں اس قسم کی دلچسپی حیرت کا سبب تھی۔ آج سے تقریباً 60 سال قبل اردو ناول نگار عبداللہ حسین نے یہ دلچسپ نظریہ پیش کیا تھا کہ نوآبادیت میں رہنے والے لوگ شاہی خاندان کے حوالے سے کس قسم کا رویہ رکھتے ہیں۔

عبداللہ حسین کا ناول ’اداس نسلیں‘ اردو کے مشہور ناولوں میں سے ایک ہے۔ اس کا مرکزی خیال یہی ہے کہ ہمارے خطے میں مختلف لوگ شاہی خاندان کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔

1963ء میں شائع ہونے والے اس ناول کی ابتدا 20ویں صدی کے ہندوستان سے ہوتی ہے اور اس کا اختتام تقسیم کے کچھ ہی بعد کے واقعات پر ہوتا ہے۔ تاہم اس ناول میں تحریک آزادی کو صرف پس منظر کی ہی حیثیت دی گئی ہے جس کی بنیاد پر ناول میں کردار شامل کیے گئے ہیں۔

عبداللہ حسین نے اس ناول میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے کردار شامل کیے ہیں تاکہ قارئین کو بہتر طور پر اندازہ ہوسکے کہ اس وقت کے لوگ چاہے سیاسی طور پر ایک ہی کیوں نہ ہوں، لیکن وہ ہندوستان میں انگریزوں کی موجودگی کے بارے میں کتنی مختلف آرا رکھتے تھے۔

اس ناول کا مرکزی کردار ایک کسان کا بیٹا نعیم ہے جو گاؤں کے وڈیرے کی بیٹی عذرا کے عشق میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر اس سے شادی بھی کرلیتا ہے۔ نعیم برطانوی حکومت کی طرف سے جنگ لڑنے چلا جاتا ہے۔ جنگ میں اس کا ایک بازو کٹ جاتا ہے اور اسے اس کی بہادری کے سبب ملکہ کی جانب سے تمغہ عطا کیا جاتا ہے۔ لیکن جنگ کے تجربات اسے برطانیہ کا مخالف بنا دیتے ہیں۔ کانگریس کے رکن ہونے کی حیثیت سے اسے معلوم تھا کہ ہندوستان کے لیے کون سا راستہ درست ہے اور اس میں اس کا کیا کردار ہے۔

عذرا دہلی میں اپنے والد کی حویلی میں پلی بڑھی تھی جسے روشن محل کہا جاتا تھا۔ اینی بیسینٹ اور دہلی میں موجود انگریز کمشنر ان کے گھر دعوتوں میں آتے رہتے تھے۔ اس کے والد نے انگریزوں سے قرب کی بنا پر خاصی دولت اکٹھی کرلی تھی اور اس کا بھائی سول سروس میں تھا۔ ہندوستان کو آزادی ملتی یا نہیں، اس سے ان کی دولت میں کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔

عذرا اور نعیم دونوں نے ہی شادی کرنے کے لیے اپنے درمیان موجود طبقاتی فرق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور کہانی کے کافی حصے میں وہ ایسا کامیابی سے کرتے بھی رہے۔ نعیم آغا کی جانب سے تحفے میں ملنے والے گھر میں رہائش اختیار کرنے کے لیے راضی ہوگیا اور عذرا شہری زندگی کو چھوڑ کر گاؤں میں رہنے پر راضی رہی۔ تاہم دلچسپ بات یہ تھی کہ نعیم نے انگریزوں کے خلاف اپنی سیاسی وابستگی نہیں چھوڑی اور عذرا نے بھی اس کے نظریے کو اختیار کرلیا۔

ان دونوں کو ساتھ گزاری گئی زندگی میں کسی خاص طبقے سے مطابقت رکھنے والے رویے اپنانے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایسا گمان ہوتا تھا کہ وہ اپنی ہی ایک دنیا میں جی رہے ہیں جس میں ان کے اختلافات اور ماضی دونوں مٹ چکے ہیں۔

تاہم وہ اندرونی طور پر کتنے مختلف تھے اس بات کا اظہار ایک ہی واقعے سے ہوگیا اور وہ تھا ویلس کے شہزادے کا دورہ ہندوستان۔ ساتھ گزاری گئی زندگی کے باوجود اس واقعے نے اس حقیقت کو عیاں کردیا کہ ان کی شادی اب اپنے اختتام پر ہے اور یہ امیر اور غریب کا نہ چلنے والا ملاپ تھا۔

عبداللہ حسین نے اپنے ناول میں سال درج نہیں کیے ہیں۔ شاید اس کی وجہ سے انہیں کہانی میں آنے والے ممکنہ وقفوں کو ختم کرنے میں آسانی رہی ہو۔ بہرحال حقیقت میں یہ واقعہ 1921ء کا ہے کہ جب ایڈورڈ ہشتم، جو تخت کے ولی عہد بھی تھے، انہوں نے اپنے والد اور بادشاہ کی جانب سے ہندوستان کا 4 ماہ پر مشتمل دورہ کیا تھا تاکہ وہ پہلی جنگِ عظیم میں اس نوآبادی کے شہریوں کی جانب سے دی گئی قربانیوں پر ان کا شکریہ ادا کرسکیں۔ ان کے اس دورے میں حفاظتی دستے کے ساتھ کئی عوامی مقامات کا دورہ بھی شامل تھا۔

عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں
عبداللہ حسین کا ناول اداس نسلیں

عذرا کے لیے یہ شہزادے کو قریب سے دیکھنے اور ملاقات کرنے کا اچھا موقع تھا۔ اسے امید تھی کہ معاشرے میں اس کے والد کی حیثیت اس بات کو ممکن بناسکتی ہے۔ تاہم نعیم نے اسے یاد دلایا کہ کانگریس کے رکن کی حیثیت سے اسے شہزادے سے ملاقات کرنے کے بجائے اس کے خلاف سڑک پر احتجاج میں شامل ہونا چاہیے۔ اپنے جواب میں عذرا نے یہ جاننا چاہا کہ آخر شہزادے کے دورے کے خلاف احتجاج کیا کیوں جارہا ہے۔

عذرا نے سوال کیا کہ ’لیکن وہ تو شاہی خاندان کا ایک فرد ہے، اس کا سیاست سے کیا لینا دینا؟‘، اس کا تفصیلی جواب دینے کے بجائے نعیم نے کہا کہ وہ جماعت کی ہدایات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔

پھر جیسے فوراً ہی عذرا کو حقیقت کا احساس ہوگیا اور اس نے کلکتہ جاکر احتجاج میں شرکت کی بات کی۔ یوں وہ دونوں عذرا کے گھر والوں کی نظروں سے دُور رہے۔

حکام کی جانب سے مشتبہ افراد پر نظر رکھی جارہی تھی، اس وجہ سے انہوں نے ایک کاغذ پر نعرے درج کرکے اسے عذرا کی ساڑھی میں چھپا دیا۔ جب شہزادے کا قافلہ نمودار ہوا تو نعیم نے کسی طرح ایک سائن بورڈ حاصل کرلیا لیکن عین وقت پر عذرا اپنے حواس کھو چکی تھی۔

جس وقت انہیں پلے کارڈ اٹھانا تھا، اس وقت عذرا شہزادے کو دیکھنے میں مصروف تھی۔ یہ بات فوراً ہی واضح ہوگئی کہ احتجاج میں آنے کا مقصد سیاسی نہیں تھا بلکہ اس کے لیے یہ شہزادے کو دیکھنے کا واحد ذریعہ تھا۔

جیسے ہی کچھ وقت گزرا تو عذرا کو صورتحال کا احساس ہوا، لیکن اس وقت وہ صرف یہی کرسکی کہ اس نے اپنا سر نعیم کے کندھے پر رکھ دیا۔ یہ دونوں باقی مظاہرین کو دیکھتے رہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ ان پر درج تھا کہ ’اپنی ماں کو بتاؤ کہ ہم بھوکے ہیں‘ اور ’اپنی ماں کو بتاؤ کہ ہم قحط کا شکار ہیں‘۔ مصنف نے اس بات کا ذکر کیا کہ شہزادہ اس مزاحمت سے گھبرا گیا تھا۔

سیاسی اعتبار سے عذرا کے خیالات تبدیل نہیں ہوئے تھے۔ کچھ عرصے بعد اس نے سائمن کمیشن کے خلاف بھی مظاہروں میں حصہ لیا، اس دوران نعیم جیل میں تھا۔ ان مظاہروں میں کبھی کبھی عذرا کو دوسری جانب کھڑے اہلکاروں میں اپنا بھائی بھی نظر آیا۔

وہ حکومت کے خلاف مزاحمت کا حصہ بننے کے لیے اپنے گھر والوں کو پریشان کرنے اور اپنی حفاظت کو خطرے میں ڈالنے پر راضی تھی۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ شاہی خاندان کو اس گروہ کا حصہ نہیں مانتی تھی جو ہندوستان پر ظلم کر رہا تھا۔ ہر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ شاہی خاندان کے افراد اب صرف خبروں کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں تو شاید اس کا خیال بھی عذرا سے مختلف نہیں ہے۔ ایسے افراد کے لیے شاہی خاندان کے افراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یہ حقیقت کوئی راز نہیں ہے کہ شاہی خاندان برطانیہ کے عزائم کو خوش نما پردوں میں چھپا کر رکھتا ہے۔ 2015ء میں یونیورسٹی آف سڈنی کے ایک طالب علم نے اپنے مقالے میں لکھا کہ کیٹ مڈلٹن اور ان کے بچوں کو شاہی خاندان میں شامل کرنے سے آسٹریلوی عوام کی ملک کو ایک جمہوریہ بنانے کی رائے میں خاطر خواہ کمی آئی۔

لیکن اس موضوع پر اداس نسلیں میں زیادہ گہرائی اور تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ عبداللہ حسین کا نکتہ یہ نہیں ہے کہ کچھ لوگ اپنی آنکھوں کو برطانوی تخت کی چمک دمک سے خیرہ ہونے دیتے ہیں بلکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم شاہی خاندان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اور اس کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ ہم چاہے خود کو کسی بھی طرح پیش کریں، مگر کبھی نہ کبھی طبقات کی بنیاد پر پیدا ہونے والی خواہشات ظاہر ہو ہی جائیں گی۔

اگرچہ اس طویل ناول کا یہ نچوڑ اس بات کی ایک عمدہ مثال ہے کہ آخر کیوں یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور کیوں اسے اردو ادب میں ایک مقام حاصل ہے۔

اداس نسلیں تقسیم ہند کی ایک منفرد داستان بیان کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ تقسیم مختلف لوگوں پر مختلف طریقوں سے اثرانداز ہوئی۔ اس کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح سیاسی طور پر متحرک افراد پیدل ہندوستان سے پاکستان آئے اور کس طرح ان لوگوں نے اپنی دہلی کی حویلی کے بدلے لاہور میں ایک حویلی حاصل کرلی، جو محکومی کو سمجھتے بھی نہیں تھے۔

مصنف نے بہت ہی عمدگی سے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ سیاست مختلف لوگوں پر مختلف اثرات رکھتی ہے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جسے ہم سب کو سمجھنا چاہیے۔


یہ مضمون 11 اپریل 2021ء کو ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں