'ٹی ایل پی ملک بھر سے دھرنے ختم کرنے پر رضامند ہوگئی ہے'

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2021
مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان شیخ رشید نے ایک ویڈیو پیغام میں کیا —تصویر: اسکرین گریب
مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں کا اعلان شیخ رشید نے ایک ویڈیو پیغام میں کیا —تصویر: اسکرین گریب

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اعلان کیا ہے کہ حکومت پاکستان، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مابین ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد کیا گیا۔

یہاں یہ بات مدِنظر رہے کہ گزشتہ روز قومی اسبملی کا اجلاس جمعرات 22 اپریل (جمعرات) تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا اور آج کوئی اجلاس شیڈول نہیں تھا۔

تاہم وزیر داخلہ کے بیان کے بعد اعلان کیا گیا کہ اجلاس کا شیڈول تبدیل کردیا گیا ہے اور اب یہ 20 اپریل (آج) کو سہ پہر 3 بجے ہوگا۔

شیخ رشید کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک ملک بھر بالخصوص مسجد رحمتہ اللعالمین سے دھرنے ختم کرنے پر رضامند ہوگئی ہے اور بات چیت کا سلسلہ مزید آگے بڑھایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج رات متوقع

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی کارکنان کے خلاف درج کیے گئے تمام مقدمات بشمول فورتھ شیڈول کے واپس لیے جائیں گے اور اس حوالے سے مزید تفصیلات آج پریس کانفرنس کر کے جاری کی جائیں گی۔

یہ اعلان وزیر مذہبی امور اور وزیر داخلہ شیخ رشید پر مشتمل حکومتی ٹیم کے ٹی ایل پی رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے تیسرے دور کے بعد کیا گیا۔

قبل ازیں مذاکرات کے دوسرے دور میں گورنر پنجاب چوہدری سرور اور صوبائی وزیر قانون راجا بشارت نے حکومت کی نمائندگی کی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل کوٹ لکھپت جیل میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی اور حکومتی ٹیم کے مابین 7 گھنٹے طویل مذاکرات کے تینوں ادوار بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: حکومت، کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے مابین مذاکرات کا آغاز

ان مذاکرات میں پنجاب قرآن بورڈ کے چیئرمین حامد رضا، سنی تحریک کے ثروت اعجاز قادری، جے یو آئی پاکستان کے سابق رکن اسمبلی عبدالخیر محمد زبیر اور مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی میاں جلیل شرقپوری نے حکومت کی نمائندگی کی تھی۔

حکومتی وفد کے ہمراہ سعد رضوی کے چھوٹے بھائی انس رضوی بھی جیل گئے جہاں انہوں نے ٹی ایل پی سربراہ کے ساتھ افطاری کی اور تراویح پڑھی۔

پیپلز پارٹی کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پارٹی کی سیکریٹری اطلاعات نفیسہ شاہ نے کہا کہ 'حکومت نے اجلاس دو روز کے لیے ملتوی کیا تھا، پھر ایک دم اجلاس بلا لیا گیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہمارے بعض ارکان اسلام آباد میں موجود نہیں اس لیے تاحال یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی'۔

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس جاری ہے جس کی صدارت سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کررہے ہیں۔

پارٹی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے بیان میں کہا کہ اجلاس میں ملک کی موجودہ صورتحال اور حال ہی میں پیش آنے والے 'ناخوشگوار واقعات' پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہ لینے کے باوجود اس کے پیچھے چھپ رہے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ٹی ایل پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کو قومی اسمبلی میں نہیں لایا گیا، حکومت نے سڑکوں پر کارروائی کی، پھر پابندی لگائی، لوگ جاں بحق ہوئے، 500 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے، انٹرنیٹ بند کیا گیا، وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی ایوان کو کسی مرحلے پر اعتماد میں لیا، اب پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے، وزیر اعظم یہ خربی آپ کی پیدا کردہ ہے، اسے ٹھیک کریں یا گھر جائیں'۔

ٹی ایل پی کے مطالبات

تحریک لبیک نے حکومت کے سامنے چار شرائط رکھی تھیں جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔

انہوں نے مزید مطالبات کیے کہ پارٹی کے امیر سعد رضوی کو رہا کیا جائے، پارٹی پر پابندی ختم کی جائے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز بھی ختم کی جائیں۔

ٹی ایل پی کا حالیہ احتجاج

گزشتہ برس اکتوبر کے دوران فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔

جس پر حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔

چنانچہ ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں پُرتشدد مظاہرے، ڈی ایس پی سمیت 5 پولیس افسران اغوا

بعد ازاں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز ، مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے اور جماعت کے موجودہ سربراہ سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔

ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے بعض مقامات پر پرتشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔

جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بعد ازاں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اعلان کیا گیا تھا، اس دوران ملک کے مختلف احتجاجی مقامات کو کلیئر کروا لیا گیا تھا تاہم لاہور کے یتیم خانہ چوک پر مظاہرین موجود تھے جہاں اتوار کی صبح سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے نواں کوٹ تھانے پر حملے کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریش کیا، اس کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔

دوسری جانب ٹی ایل پی نے ڈی ایس پی سمیت 11 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا جنہیں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا، بعد ازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں