فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ، قومی اسمبلی میں قرارداد پیش

اپ ڈیٹ 20 اپريل 2021
علی امجد کے مطابق فرانسیسی صدر نے آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی انتہائی افسوسناک ہے — فوٹو: ڈان نیوز
علی امجد کے مطابق فرانسیسی صدر نے آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی انتہائی افسوسناک ہے — فوٹو: ڈان نیوز

قومی اسمبلی میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے معاملے پر منعقدہ اجلاس کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن پارلیمنٹ امجد علی خان نے فرانسیسی میگزین کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے خلاف قرار داد پیش کردی۔

مزید پڑھیں: 'ٹی ایل پی ملک بھر سے دھرنے ختم کرنے پر رضامند ہوگئی ہے'

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر اسمبلی اسد قیصر کی سربراہی میں ہوا، جس میں قرار داد کا متن پڑھ کر سناتے ہوئے امجد علی خان کا کہنا تھا کہ فرانسیسی صدر نے آزادی اظہار رائے کا سہارا لے کر ایسے افراد کی حوصلہ کی، جو انتہائی افسوسناک عمل ہے۔

امجد علی خان— فوٹو: ڈان نیوز.
امجد علی خان— فوٹو: ڈان نیوز.

انہوں نے کہا کہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے پر بحث کی جائے، تمام یورپی ممالک کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے، تمام مسلمان ممالک کو شامل کرتے ہوئے اس مسئلے کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے فیصلہ ریاست کو کرنا چاہیے کوئی گروہ اس حوالے سے دباؤ نہیں ڈال سکتا'۔

انہوں نے اس معاملے پر ایک اسپیشل کمیٹی کا بھی مطالبہ کیا اور کہا کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اس کے لیے میری خصوصی درخواست ہے۔

حکومت ایوان میں اس مسئلے کو متنازع بنارہی ہے، شاہد خاقان عباسی

اجلاس کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ 'مجھے بڑا افسوس ہے کہ تحفظ ناموس رسالت کا معاملہ جس پر پورا پاکستان متفق ہے مگر آپ ایوان میں اسے متنازع بنارہے ہیں'۔

شاہد خاقان عباسی— فوٹو ڈان نیوز
شاہد خاقان عباسی— فوٹو ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر حکومت نے قرار داد لانی تھی تو اپوزیشن سے بات کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ یہ قرار داد لائی جارہی ہے، میری گزارش ہوگی کہ ایک گھنٹہ دیا جائے ہم اس کا مطالعہ کرکے اس میں جو اضافہ کرنا ہے وہ سب کے سامنے رکھیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اسپیشل کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں، پورے ایوان کی کمیٹی ہونی چاہیے'۔

شاہد خاقان عباسی کے تحفظات پر ردعمل دیتے ہوئے حکومتی بینچز سے علی محمد خان نے کہا کہ یہ قرار داد جو پیش کی گئی ہے یہ تحریک لبیک پاکستان سے ہونے والے معاہدے کے تحت قرار داد پیش کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایک نجی رکن کی درخواست پر یہ قرار داد آئی ہے اس پر غور کرلیا جائے اور اسے خصوصی کمیٹی کی طرف بھیج دیا جائے'۔

ٹی ایل پی کے ساتھ ہوئے معاہدے کی تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں، مولانا اسد

بعد ازاں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا اسد محمود نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

مولانا اسد محمود— فوٹو: ڈان نیوز
مولانا اسد محمود— فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ 'حیران کن بات یہ ہے کہ وزیر اعظم کی تقریر میں حکومت کی پالیسی سامنے آنے کے بعد ٹی ایل پی سے مذاکرات کس نے کیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ٹی ایل پی سے حکومت کے ہونے والے معاہدے کی تفصیلات قوم کے سامنے لائی جائیں'۔

انہوں نے کہا کہ لاہور میں جو کچھ ہوا اسے میڈیا کو عوام کے سامنے لانے کی اجازت دی جانی چاہیے، ملک کے اندر جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس حالات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر اس قرار داد کے متن کا دوسرا حصہ ناکافی ہے۔

مولانا اسد محمود کا کہنا تھا کہ 'وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تحریک لبیک کے ساتھ اس قرار داد کو طے کیا ہے، ختم نبوت، توہین رسالت کا مسئلہ ایک تحریک کا مسئلہ نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم وزیر اعظم کی رات کی تقریر کو حکومت کی پالیسی سمجھتے ہیں، پارلیمان کو آگاہ کیا جائے کہ ٹی ایل پی کے ساتھ اصل میں مذاکرات کس نے کیے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا تو یورپ، پاکستان کیلئے بند ہوجائے گا، گورنر سندھ

ان کا کہنا تھا کہ احتجاجی مظاہروں کے دوران جتنے لوگ زخمی ہوئے یا قتل ہوئے حکومت کو ان کے ذمہ داروں کا تعین کرنا چاہیے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما کا کہنا تھا کہ 'حکومت کو جب ہنگامی اجلاس طلب کرنا تھا تو اس نے اپوزیشن سے بات کرنے کی زحمت بھی نہیں کی، اسپیکر اسمبلی آپ کا اس معاملے پر عمل جانبدارانہ ہے اور اس پر میں احتجاج کرتا ہوں، میں اس معاملے پر مکمل پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے اُمید تھی کہ یہاں فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرار داد پیش کی جائے گی تاہم یہ کمزور قرار داد پیش کی گئی'۔

انہوں نے کہا کہ 'اسپیکر صاحب اگر آپ نے آج اس قرار داد پر اپوزیشن کو نظر انداز کیا تو میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں آپ کو اس پارلیمنٹ کو نہیں چلانے دوں گا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ اُمید ہے کہ آپ عوام کے جذبات اور قومی اسمبلی ممبران کے جذبات کا خیال ضرور رکھیں گے۔

حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اپوزیشن ختم نبوت کے نعرے لگارہی ہے، نور الحق قادری

وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نور الحق قادری نے کہا کہ اپوزیشن جو کر رہی ہے، ہم جو کر رہے ہیں اور ٹی ایل پی جو چاہتی ہے، ہمیں ایک ایسے راستے پر چلنا چاہیے کہ تنازعات کو سڑکوں کے بجائے ایوانوں میں حل کریں۔

نور الحق قادری— فوٹو: ڈان نیوز
نور الحق قادری— فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت ﷺ کے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راستے ہیں، اس پر ایوان میں بیٹھے لوگوں اور سڑکوں پر بیٹھے لوگوں کا اختلاف ہوسکتا ہے مگر اس کے مقصد پر اختلاف نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کوئی ناموس رسالت ﷺ کی بات کرے تو اس کا محافظ آئین دستور اور قانون ہے، کسی اور طرف جانے کی ضرورت نہیں۔

نور الحق قادری کا کہنا تھا کہ مجوزہ قرار داد میں مثبت طریقہ کار اور لائحہ عمل اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان نے ناموس رسالت کے لیے بھرپور سفارتکاری کی ہے، عمران خان کا عشق رسول ﷺ سے جو تعلق ہے وہ نہ کسی پیر کا ہے اور نہ کسی مولوی کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تعلق کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا، انہوں نے شفقت محمود سے کہہ کر 7ویں جماعت کے بچوں کے نصاب میں سیرت نبوی ﷺ شامل کیا ہے۔

انہوں نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے آپ کے ختم نبوت کے جذبے کو دیکھا ہے، یہاں انتخابی قوانین میں ختم نبوت کو ختم کیا جارہا تھا، جب ممتاز قادری کو پھانسی دی جارہی تھی، جب 22 نہتے لوگوں کو فیض آباد میں شہید کیا گیا'۔

مزید پڑھیں: فرانس کے سفیر کو نکالنے کا مطلب یورپ سے تعلقات منقطع کرنا ہے، وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ آپ اب یہ نعرے لگانے پر مجبور ہوگئے ہیں، آپ نعرے لگائیں یا نہ لگائیں ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے'۔

حساس موضوع پر بحث کے دوران وزیر اعظم کی موجودگی کی توقع تھی، احسن اقبال

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ نور الحق قادری نے جو بیانیہ اپنایا یہ وہی بیانیہ ہے جس کی قیمت میں نے ایک گولی کی صورت میں ادا کی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس ایوان سے جو کچھ ہوا تھا وہ متفقہ تھا تاہم جب اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تو پورے ایوان نے بغیر سوالات اٹھائے اسے بدل دیا تھا۔

احسن اقبال — فوٹو: ڈان نیوز
احسن اقبال — فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ 'میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس خاتون کا بیٹا ہوں جس کو اس ایوان کے اندر ناموس رسالت ﷺ کا قانون پیش کرنے اور منظور کرانے کا اعزاز حاصل ہے'۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ حکومت کے وزرا نے جو ہماری حکومت کے خلاف بیانیہ دیا میں نے اس کی قیمت اپنی جان پر حملے کی صورت میں ادا کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے نبی ﷺ سے میری نسبت نے مجھے اس گولی سے بچایا، حکومت ناموس رسالت ﷺ پر سیاست کررہی ہے، یہ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی کلمہ گو ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی ذات اپنے بیوی بچوں اور اپنے ماں باپ سے زیادہ نبی اکرم ﷺ کی ذات کے ساتھ محبت رکھے۔

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے لوگوں کے جنتی اور جہنمی ہونے کے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں، ہم انتہائی حساس مسئلے پر بحث کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، کسی کے لیے اس سے اہم مسئلہ کوئی اور ہو نہیں سکتا تو مجھے توقع تھی کہ وزیر اعظم اپنی کرسی پر بیٹھے ہوتے اور وہ خود یہ قرار داد پیش کرتے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے اس موضوع کو اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ اس قرار داد کو کسی وزیر کے ذریعے ہی پیش کراتی'۔

یہ بھی پڑھیں: ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے پر 'ٹی ایل پی' کے خلاف کارروائی کی، وزیر اعظم

انہوں نے کہا کہ اگر یہ قرار داد کسی حکومت کے معاہدے کی روشنی میں پیش کی گئی ہے تو اس کے ساتھ اس معاہدے کو بھی ایوان کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 'وفاقی وزیر نے کہا کہ جو تنظیم کے ساتھ معاہدہ ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، کیا وہ معاہدہ اس ایوان سے بالاتر ہے کہ اس پر بات نہیں ہوسکتی، اگر ایسا ہے تو ہمیں گھر چلے جانا چاہیے'۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ جب تک ایوان میں اس موضوع پر کارروائی جاری ہے وزیر اعظم کی یہاں حاضری یقینی بنائی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس قرار داد میں تضاد ہے، کہا گیا کہ ایوان فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکالنے کے معاملات پر بحث کرے اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ کام ریاست نے کرنا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ناموس رسالت کی قرار داد ہے چاہتے ہیں کہ یہ 22 کروڑ عوام کی ترجمانی کرے اور یہ قرار داد اتفاق رائے کے ساتھ پیش کی جائے۔

یقین ہے کہ پاکستان ہی اس مسئلے کا عالمی سطح پر حل نکالے گا، اسد عمر

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ جتنا میرے ایمان کا حصہ ہے اتنا ہی احسن اقبال کے ایمان کا حصہ بھی ہے'۔

اسد عمر — فوٹو: ڈان نیوز
اسد عمر — فوٹو: ڈان نیوز

ان کا کہنا تھا کہ 'سب ہی کے ایمان کا اہم ترین جز اپنے نبی کریم ﷺ کے حرمت کی حفاظت کرنا ہے، بحث صرف یہی ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کے کسی میں گستاخی رسول ﷺ کی کبھی جرات ہی نہ رہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس مسئلے کا حل کسی کی گاڑی جلا کر، ایک دوسرے پر حملے کرکے ہوسکتا ہے؟ تو ہم یہی کرلیتے ہیں'۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ 'مجھے یقین ہے کہ اس مسئلے کا عالمی سطح پر حل نکالنے میں پاکستان ہی سب سے آگے ہوگا، حکومت کو کوئی اعتراض نہیں کہ اگر اپوزیشن اس مسئلے میں شامل ہونا چاہتی ہے'۔

بعد ازاں اسپیکر اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ایک ساتھ مشغول ہوں اور متفقہ دستاویزات لے کر آئیں۔

انہوں نے ایوان کی کارروائی جمعے کی صبح 11 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

ٹی ایل پی کے مطالبات

تحریک لبیک نے حکومت کے سامنے چار شرائط رکھی تھیں جس میں کہا گیا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی حمایت کے بعد فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔

انہوں نے مزید مطالبات کیے کہ پارٹی کے امیر سعد رضوی کو رہا کیا جائے، پارٹی پر پابندی ختم کی جائے اور گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف درج ایف آئی آرز بھی ختم کی جائیں۔

ٹی ایل پی کا حالیہ احتجاج

گزشتہ برس اکتوبر کے دوران فرانس میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر ٹی ایل پی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے اور فرانسیسی اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا تھا۔

جس پر حکومت نے 16 نومبر کو ٹی ایل پی کے ساتھ ایک سمجھوتہ کیا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کے لیے پارلیمان کو شامل کیا جائے گا اور جب 16 فروری کی ڈیڈ لائن آئی تو حکومت نے سمجھوتے پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت مانگا۔

چنانچہ ٹی ایل پی نے مزید ڈھائی ماہ یعنی 20 اپریل تک اپنے احتجاج کو مؤخر کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ ہفتے کے اختتام پر اتوار کے روز ، مرحوم خادم حسین رضوی کے بیٹے اور جماعت کے موجودہ سربراہ سعد رضوی نے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے کارکنان کو کہا تھا کہ اگر حکومت ڈیڈ لائن تک مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہتی ہے تو احتجاج کے لیے تیار رہیں، جس کے باعث حکومت نے انہیں 12 اپریل کو گرفتار کرلیا تھا۔

ٹی ایل پی سربراہ کی گرفتاری کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے اور دھرنے شروع ہوگئے تھے جنہوں نے بعض مقامات پر پرتشدد صورتحال اختیار کرلی تھی۔

جس کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے اور سڑکوں کی بندش کے باعث لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

بعد ازاں حکومت پاکستان کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کرنے اعلان کیا گیا تھا، اس دوران ملک کے مختلف احتجاجی مقامات کو کلیئر کروا لیا گیا تھا تاہم لاہور کے یتیم خانہ چوک پر مظاہرین موجود تھے جہاں اتوار کی صبح سے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اس نے نواں کوٹ تھانے پر حملے کے بعد مظاہرین کے خلاف آپریش کیا، اس کارروائی کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد جاں بحق اور 15 پولیس اہلکاروں سمیت سیکڑوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔

دوسری جانب ٹی ایل پی نے ڈی ایس پی سمیت 11 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا جنہیں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ وزارت داخلہ نے 15 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دیا تھا، بعد ازاں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے جماعت کی میڈیا کوریج پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔

مذکورہ معاملے پر 20 اپریل کی صبح یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ گزشتہ رات کوٹ لکھپت جیل میں ٹی ایل پی کے سربراہ سعد رضوی اور حکومتی ٹیم کے مابین 7 گھنٹے طویل مذاکرات کے تینوں ادوار بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے تھے۔

جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے اعلان کیا تھا کہ حکومت پاکستان، فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد آج قومی اسمبلی میں پیش کرے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں