ہاؤسنگ منصوبے کیلئے قرض کے حصول کی رفتار سست روی کا شکار

اپ ڈیٹ 21 اپريل 2021
—فائل فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان
—فائل فوٹو: بشکریہ ریڈیو پاکستان

لاہور: حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے سستے مکانات کی ترغیب کے باوجود ہاؤسنگ منصوبے کے لیے قرض کے حصول کی رفتار سست روی کا شکار ہے اور مورگیج (گروی رکھنا) کی صنعت میں متوقع تیزی حاصل نہیں کرسکی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مرکزی بینک کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق کمرشل بینکوں کا خالص ہاؤسنگ فنانس اسٹاک جولائی اور مارچ کے درمیان 9 ماہ کے عرصے میں محض 13 ارب 70 کروڑ روپے اضافے کے ساتھ 93 ارب 50 کروڑ روپے ہوگیا۔

مزید پڑھیں: ہاؤسنگ اسکیم کے تحت تعمیر کیلئے ہر گھر کو 3 لاکھ روپے کی سبسڈی ملے گی، عمران خان

تاہم اس میں بینکوں کے ذریعے اپنے ملازمین کو پیش کیے گئے ہاؤسنگ بلڈنگ قرضوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کا اسٹاک اسی عرصے کے دوران 109 ارب 80 کروڑ روپے سے بڑھ کر 134 ارب 80 کروڑ روپے ہوگیا ہے۔

مشترکہ طور پر بینکوں کا ہاؤسنگ لون اسٹاک جولائی میں 189 ارب 60 کروڑ سے بڑھ کر 228 ارب 30 کروڑ ہوا جو ملکی معیشت کے حجم کا 0.5 فیصد سے تھوڑا زیادہ ہے۔

متوسط آمدنی والے گھرانوں کو سستی رہائش فراہم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ملنے والی مراعات میں ایک لاکھ چھوٹے مکانات اور اپارٹمنٹس کو نمایاں سود کی سبسڈی کے علاوہ 3 لاکھ روپے فی یونٹ سبسڈی کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ گھر مالکان کے لیے مورگیج کی ادائیگی آسان ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم: رجسٹریشن کی آخری تاریخ میں توسیع

ساتھ ہی مرکزی بینک نے کمرشل بینکوں کو ہاؤسنگ اور شعبہ تعمیرات کے لیے اپنے نجی شعبے کے پورٹ فولیو کا کم از کم 5 فیصد تقسیم کرنے کے اہداف دیے تھے اور ہدف پورا نہ کرنے والے بینکوں کو ریگولیٹر کے ذریعے جرمانہ عائد کیا جانا تھا۔

کسی بھی طرح سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ حکومت کو متوقع نتائج حاصل ہوئے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے مقابلے میں بھارت نے گزشتہ 15 برس میں اپنی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم مارگیج فنانسنگ میں 10 فیصد سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔

ایک سینئر بینکر نے ڈان کو بتایا کہ ہاؤسنگ فنانس میں سست روی کی متعدد وجوہات ہیں اگرچہ بینک اس زمرے میں توسیع کے خواہاں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ دیگر عوامل کے علاوہ ایک مسئلہ سپلائی سائٹ کا ہے کہ حکومت اپنے مکانات یا اپارٹمنٹ لینا چاہتی ہے اور قیمت کم ہونے کی وجہ سے اب تک کسی بھی بلڈر یا ڈیولپرز نے اس شعبے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: ہاؤسنگ منصوبے پر حکومت سندھ سے کوئی تعاون نہیں ملا، عمران خان

ان کا کہنا تھا کہ قرض دہندگان کی اکثریت بینک کی شرائط پر پورا نہیں اترتے کیونکہ ان کے پاس (انکم) پروفائل یا کریڈٹ ہسٹری نہیں ہے۔

بینکر نے بتایا کہ ہاؤسنگ فنانس کی ترقی میں یہ بھی ایک بڑی مشکل ہے۔

ایک اور سینئر بینکر نے کہا کہ ایسے حالات میں بینک اپنے حصص کا تحفظ چاہتے ہیں، حکومت گروی کی ضبطی کے قانون کو ایسا نہیں بناتی جس کے تحت انہیں عدالت کی اجازت درکار نہ ہو۔

انہوں نے بتایا کہ بینک اپنے ذخائر اور برسوں پر محیط قانونی چارہ جوئی سے تحفظ چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سستے ہاؤسنگ منصوبوں کی کامیابی کے لیے حکومت کو پہلے سرکاری ملازمین کے لیے سرکاری اراضی پر چھوٹی، کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنی ہوں گی۔

مزید پڑھیں: نیا پاکستان ہاوسنگ اسکیم: درخواست گزاروں میں 2 لاکھ کے قریب کچی آبادی کے رہائشی شامل

انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب یہ اقدام نجی بلڈروں اور ڈیولپرز کے لیے مراعات پیدا کرے گا تب ہی ہم بینکوں کے ذریعے مورگیج میں معنی خیز چڑھاؤ دیکھ سکیں گے۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 'ذاتی قرضوں' میں وہ واحد زمرہ ہے جہاں گزشتہ 9 ماہ میں صارف کی مالی اعانت میں نمایاں نمو دیکھنے میں آئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں