ایک تھیں قمر زمانی بیگم، جو دراصل کہیں اور کبھی تھیں ہی نہیں۔ لیکن نہ ہوتے ہوئے بھی اتنی بااثر کے ایک بند رسالہ دوبارہ شروع کروا دیا اور اپنے دور کے چوٹی کے شاعروں اور ادیبوں سے اپنی ادبی اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔

'قمر زمانی' ہماری ادبی تاریخ کا ایک دلچسپ مگر فرضی کردار ہے۔ اس کردار کو ایک 'بامقصد شرارت' نے جنم دیا۔ یہ پورا قصہ 'قمر زمانی بیگم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی انوکھی داستان معاشقہ' کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوچکا ہے۔

یہ ذکر ہے جنوری 1913ء کا جب آگرہ سے تعلق رکھنے والے اپنے دور کے ممتاز انشاء پرداز اور شاعر شاہ نظام الدین دلگیر نے 'نقاد' کے نام سے ایک ادبی رسالہ نکالا۔ دلگیر کا نام سید نظام الدین شاہ تھا، اور دلگیر ان کا تخلص۔ وہ زمیندار، آنریری مجسٹریٹ اور آستانہ عالیہ قادریہ کے سجادہ نشیں تھے۔ بطور شاعر اور نثرنگار وہ اپنے دور کی ممتاز شخصیات میں شامل تھے۔ دلگیر کا جاری کردہ 'نقاد' نئے رجحانات کا عکاس ہونے اور خیالات کی تازگی کے باعث دیکھتے ہی دیکھتے قارئین ادب میں مقبولیت حاصل کرگیا۔

'نقاد' اردو میں رومانوی تحریروں کے دلکش مرقع اور انشائے لطیف کی تحریک کے نمائندے کی حیثیت سے سامنے آیا۔ اس رسالے میں اُس دور کے چوٹی کے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ ماضی میں بھی ادبی پرچوں کو وہی مشکلات درپیش ہوتی تھیں جو آج ہیں، سو 'نقاد' مالی مسائل کی وجہ سے زوال کا شکار ہوتا گیا اور مارچ 1915ء میں آخری ہچکی لے کر موت کی آغوش میں چلا گیا۔ 'نقاد' کی بندش سے اس میں لکھنے والے اور اس کے قارئین کو بہت دکھ ہوا۔ ہر طرف سے نقاد کے دوبارہ اجرا کا مطالبہ کیا جانے لگا۔

شاہ نظام الدین دلگیر کو علامہ نیاز فتح پوری سمیت ان کے حلقۂ احباب نے رسالہ دوبارہ شروع کرنے پر آمادہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی، مالی امداد کی بھی پیشکش کی گئی، مگر وہ راضی نہ ہوئے۔ ان کے دوست باہم مشورہ کرتے رہے کہ انہیں رسالہ دوبارہ جاری کرنے پر کیسے راضی کیا جائے، آخرکار علامہ نیاز فتح پوری، ضیا عباس ہاشمی اور خلیق دہلوی نے باہم مشورے سے یہ طے کیا کہ بُجھے بُجھے سے رہنے والے دلگیر میں زندگی کی روح پھونکی جائے، تاکہ ان کی تخلیقی صلاحیتیں ماند پڑنے سے بچ جائیں اور نقاد بھی ازسرِ نو جاری ہوسکے۔

طے پایا کہ 'نقاد' کو حیاتِ نو دینے کے لیے اس سے پہلے دلگیر کو پژمردگی اور مایوسی کی کیفیت سے نکالنے کی ضرورت ہے، اب سوال یہ تھا کہ ان میں زندگی کی لہر کیسے دوڑائی جائے؟ جس پر نیاز صاحب نے تجویز کیا، 'بھائی سُنو! فلسفۂ حسن و عشق کے پردے میں جس طرح عورت سارے شاعروں، سارے ادیبوں اور میری آپ کی کمزوری ہے، اسی طرح دلگیر کی بھی ہے، بلکہ مجھ سے اور آپ سے زیادہ، لہٰذا کیوں نہ کسی لڑکی سے نقاد کو زندہ کرنے کے سلسلے میں دلگیر کے نام ایک رومان پرور خط لکھوایا جائے۔ ممکن ہے اس خط سے ان میں کچھ جُھرجُھری پیدا ہو‘۔ ترکیب سب کو پسند آئی، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ایسی تعلیم یافتہ لڑکی یا عورت کہاں ملے گی جو اس چکر میں پڑنے پر رضامند ہوجائے۔

آخر ضیا عباس ہاشمی نے نیاز صاحب سے کہا، 'بھائی آپ خود کیوں نہ کچھ دنوں کے لیے لڑکی بن جائیں، یوں بھی آپ کے افسانوں میں طبقۂ نسواں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی ہوتی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کرے گا کہ یہ کسی مرد کی تحریر ہے‘۔

نیاز صاحب مان گئے، اور فرمایا، 'میں خود بائیں ہاتھ سے ’قمر زمانی‘ کے نام سے خط لکھوں گا، آپ صرف اس کا انتظام کردیجیے کے خطوط کے جوابات رازدارانہ منگائے جاسکیں‘۔ یوں ہوا قمر زمانی بیگم کا ظہور۔ ہاشمی صاحب نے ذمہ داری لی کہ خط بھیجنے کا انتظام دہلی، بھوپال، بریلی، گوالیار اور لکھنؤ جہاں سے کہیں گے وہاں سے ہوجائے گا۔ یہ بھی طے پایا کہ یہ راز صرف کچھ مخصوص دوستوں کے درمیان رہے گا۔

اس کے ساتھ ہی 'قمر زمانی بیگم' اور دلگیر کے درمیان خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوا، جس کے نتیجے میں دلگیر کے دل کی کلی کھل اٹھی اور وہ پھر جی اٹھے، اور نقاد دوبارہ شروع ہوگیا۔

دلگیر نے قمر زمانی بیگم کے اصرار پر نقاد کا اجرا تو کردیا لیکن یہ شرط عائد کردی کہ وہ پسِ پردہ رہ کر رسالے کی نگرانی اور ادارت میں دلگیر کا ہاتھ بٹائیں گی۔ قمر زمانی نے یہ شرط جھٹ قبول کرلی اور نقاد کی جوائنٹ ایڈیٹر بن گئیں۔ دلگیر کے کہنے پر خود بھی نقاد میں مضامین لکھنے لگے، ان اعلیٰ پائے کے مضامین نے ادبی حلقوں میں ہلچل مچادی۔ دلگیر اور قمر زمانی کے ایک دوسرے کو خطوط ان کا پس منظر جاننے والے کے لبوں پر مسکراہٹ ہی نہیں بکھیرتے، بلکہ یہ ادبی اعتبار سے بھی بہت دلچسپ اور خوبصورت ہیں۔

'قمر زمانی' نے اپنا پہلا خط 3 نومبر 1916ء کو لکھا:

پھاٹک حسین خان، دہلی

3 نومبر 1916ء

مِری تقدیر میں دلگیر رہنا ہی مقدر ہے

نہ نکلی آج تک حسرت، میں وہ حسرت بھرا دل ہوں

جناب ایڈیٹر صاحب، تسلیم

آپ اس خط کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ لکھنے والی کون ہے اور یہ بھدّا خط کس کا ہے۔ لیجیے سُنیے۔

بھائی جان قبلہ کے پاس ایک عرصے تک 'نقاد' آتا رہا، چوری چھپے میں بھی اسے دیکھ لیتی تھی۔

ماشاءاللہ کیا طرزِ تحریر ہے اور کیا پیارا کلام ہے۔ غزلوں کو دیکھ کر دل بے قابو ہوگیا۔ دل نے کہا ہو نہ ہو یہ کسی دُکھے ہوئے جی کا کلام ہے۔ مگر حیران تھی کہ مجھ کم بخت سے بھی زیادہ کوئی دکھا ہوا دل رکھتا ہے۔ میں شاعرہ نہیں ہوں، لیکن تھوڑا بہت مذاقِ سخن ضرور رکھتی ہوں، جو میرے تڑپانے کے لیے کافی ہے۔ شاعروں کو سخن وری کی داد دے سکتی ہوں اور نہ میں اپنی سخن فہمی کی داد چاہتی ہوں۔ عالمگیر کی چہیتی بیٹی زیب النسا کی طرح میری زندگی بھی بسر ہوتی ہے۔

خیر اس ذکر کو چھوڑیے۔ اب آپ یہ بتائیے کہ اگر کوئی دُکھیا آپ سے ملنا چاہے تو کیونکر ملے، آپ بڑے آدمی ہیں، شاعر ہیں اور ایک مشہور شخص ہیں۔ آپ کی بلا سے، مگر نہیں، اگر آپ ویسا ہی درمند دل پہلو میں رکھتے ہیں جیسا کہ آپ کے کلام سے ظاہر ہے تو یقین ہے آپ ازراہِ کنیز نوازی کوئی تدبیر ملاقات کی ضرور نکالیں گے۔ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے کہ آپ 7 نومبر کی شب دہلی تشریف لاکر احمد بھائی کے کسی بالاخانے میں قیام کریں، وہاں یا تو میں خود حاضر ہوں گی یا میری خادمہ پیاری (اس کا نام ہے) میرا خط لے کر 10 بجے رات کو حاضر ہوگی اور سواری ساتھ لائے گی۔ آپ اگر تشریف لاکر میری عزت بڑھائیں گے تو میں بہت شکر گزار ہوں گی۔ یہ تاریخ خاص کر اس لیے مقرر کی ہے کہ اس دن میرے عزیز و اقارب بریلی جائیں گے اور گھر میں سوائے میری خادمہ کے اور کوئی نہ ہوگا۔ نقاد میں آپ کی تصویر دیکھ چکی ہوں، لیکن اب سامنے بیٹھ کر آپ سے کچھ حال دل کہنے کو جی چاہتا ہے۔ لللہ ملاقات کیجیے پھر خدا جانے کب موقع ملے کیونکہ بہت جلد بنارس جانے والی ہوں۔

(قمر زمانی)

شاہ دلگیر خوش قامت، خوب رو اور وجیہہ تھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ لڑکیاں ان کی رومان میں ڈوبی انشاء پردازی پر سو جان سے فدا ہیں، چنانچہ کسی 'قمر زمانی' کا مرمٹنا ان کے لیے قطعاً حیرت کا باعث نہ بنا۔

خط نے اپنا اثر دکھایا اور وہ قمر زمانی سے ملنے دہلی جا پہنچے۔ اب مشکل یہ تھی کہ ملاقات کے لیے کوئی خاتون کہاں سے لائی جائیں؟ یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ ضیا عباس ہاشمی کے عزیزوں میں ایک نوجوان محمد احمد اس مقصد کے لیے کام آئے، جو دُبلے پتلے خوبصورت نوجوان تھے۔ انہیں زنانہ لباس میں شناخت کرنا آسان نہ تھا۔ محمد احمد نے زنانہ لباس میں دلگیر سے ملاقات کی، دوران ملاقات احمد اپنے چہرے کو نقاب سے چھپائے رہے۔ دلگیر نقاب کشائی پر مصر تھے، لیکن 'قمر زمانی' مان کر نہ دیں۔ اتنے دُور سے آکر چہرہ بھی نہ دیکھ پانے کے دکھ نے دلگیر کو کچھ دلگیر تو کیا اور وہ جلد ہی اٹھ کر چلے گئے، لیکن تیر نشانے پر لگ چکا تھا اور قمر زمانی ان کے دل میں گھر کرچکی تھیں۔

اِدھر وہ گھر پہنچے اُدھر ان کے تعاقب میں قمر زمانی کا ایک اور خط آپہنچا، جس میں مختصر ملاقات کا شکوہ تھا اور نسوانی انداز میں خوب طنز کے تیر چلائے گئے تھے۔ اس خط نے تو وہ حال کیا کہ دلگیر قمر زمانی کے لیے ہر وقت مضطرب رہنے لگے۔ جواب میں انہوں نے محبت، شرمندگی اور شعروں بھرا جوابی خط لکھا۔ ان کی تڑپ بڑھانے کے لیے 'قمر زمانی' نے خاموشی اختیار کرلی، اِدھر دلگیر جواب میں انتظار میں بے کل رہتے۔ آخر انہوں نے ایک اور خط بھیجا۔ قمر زمانی نے جوابی مکتوب لکھا جو انہیں نہیں ملا، اضطراب اور بڑھ گیا، دوسرا خط لکھ ڈالا۔ جواب آہی گیا، اور پھر محبت ناموں کے آنے جانے کا سلسلہ چل نکلا۔

دلگیر کو پوری طرح اپنے عشق کا اسیر کرنے کے بعد قمر زمانی نے وہ فرمائش کر ہی ڈالی جس کے لیے وہ وجود میں آئی تھیں، یعنی 'نقاد' کا اجرا۔ دلگیر میں انکار کی مجال کب تھی۔ راضی ہوگئے، لیکن اس جوابی فرمائش کے ساتھ کہ 'اگر آپ نقاد کی ادارت اپنے ہاتھ میں لے لیں تو میں مرحوم کو زندہ کرنے کا سامان کروں‘۔

قمر زمانی کا جواب تھا، 'اپریل کے پہلے ہفتے میں پرچے میرے ہاتھ میں ہونے چاہئیں اور یہی محبت کا امتحان ہے۔ ایڈٹ کرنے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ آپ اگر مناسب سمجھیں تو اپنے نام کے ساتھ میرے نام کا بھی اعلان کردیجیے، لیکن پتا ظاہر نہ کیجیے گا۔ نقاد کا پرچہ اس (خط) کے جواب کے ساتھ آنا چاہیے‘۔ قمر زمانی نے 'نقاد' کو اپنی محبت کی یادگار قرار دے کر دلگیر کی نظروں میں اس رسالے کی وقعت دوچند کردی تھی۔ انہوں نے وعدہ کرلیا، 'آپ کی محبت کی یادگار نقاد اپریل کے پہلے ہفتے میں آپ کے دستِ مبارک میں ہوگا‘۔

ازسرِ نو جاری ہونے والے 'نقاد' کے لیے قمر زمانی کی 'افتتاحیہ' تحریر آچکی تھی، جو ظاہر ہے علامہ نیاز فتح پوری جیسے عالی دماغ کی کاوش تھی سو کمال کی کیوں نہ ہوتی۔ دلگیر صاحب کو لگا کہ اس کی ٹکر کا افتتاحی مضمون، جو قمر زمانی کی شان میں ہو وہ لکھنے سے عاجز ہیں۔ اس تحریر کے لیے انہوں نے علامہ نیاز کا در کھٹکھٹایا۔ یوں دلگیر کے نام سے ان کا افتتاحیہ بھی علامہ نیاز ہی نے تحریر فرمایا!

یوں علامہ نیاز اور ان کے دوستوں کی کوششیں رنگ لائیں، نقاد اپریل 1917ء میں بحال ہوگیا، جس میں قمر زمانی کے سحر انگیز انشائیوں کی شمولیت نے اس کی مقبولیت اور بڑھادی۔ قمر زمانی کے طرزِ تحریر اور خیال آفرینی نے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں پر اپنی دھاک بٹھادی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان، مولانا عبدالماجد دریا آبادی، ملا واحدی، ل احمد اور مولانا حامد حسن قادری جیسے اہم قلم ان کے زورِ قلم کے مداح تھے۔ مولانا شبلی، مولانا الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، مہدی افادی، وحید الدین سلیم ان کی تحریروں کو وقعت کی نظر سے دیکھتے تھے۔

1917ء تا 1920ء قمر زمانی کی شہرت کے عروج کا زمانہ تھا۔ خاص طور پر تعلیم یافتہ نوجوان ان کی تحریروں کے شیدائی تھے، اور ان سے ملاقات کا شوق لیے دہلی اور آگرہ کے چکر لگایا کرتے تھے۔

'نقاد' تو جی اٹھا لیکن جس کے لیے اسے زندگی دی گئی تھی وہ اب تک پردے میں اور دُور دُور تھی۔ دلگیر ملنے پر اصرار کرتے رہے، قمر زمانی وعدے کرتی اور بہانے بناتی رہیں۔ آخر رفتہ رفتہ دلگیر ان سے بددل ہوتے گئے، اتنے کہ ان کے خطوں کا جواب بھی کم ہی دیتے۔ علامہ نیاز فتح پوری کے قمر زمانی کے نام سے لکھے گئے یہ خط ایک دلچسپ داستان ہونے کے ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ علامہ کو انسانی نفسیات خاص کر محبت کی 'سائنس' پر کیسی قدرت حاصل تھی۔

انہوں نے دلگیر سے رسالے کے اجرا کا مقصد پورا بھی کروا لیا اور پھر پوری احتیاط اور بڑی آہستگی سے انہیں قمر زمانی سے دُور بھی کردیا۔ دلگیر قمر زمانی کے سلسلے میں دل برداشتہ ہوچکے تھے۔ اگرچہ انہوں نے ایک مرتبہ مہدی افادی سے کہا تھا، 'قمر زمانی کے وجود کا مجھے اس طرح یقین ہے جس طرح خود اپنے وجود کا‘۔ لیکن ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے مطابق دلگیر کو قمر زمانی کے عورت ہونے پر شک ہوگیا تھا جو یقین تک پہنچ چکا تھا، لہٰذا قمر زمانی کی طرف سے محبت کی یقین دہانیوں کے باوجود وہ ان کے خطوں کا جواب دینے سے گریزاں رہے۔

قمر زمانی کی مسیحائی سے نئی زندگی پانے والا 'نقاد' وقفوں کے ساتھ 1920ء تک چھپتا رہا، پھر اپنے ساتھ قمر زمانی کو لے کر عدم کو سُدھار گیا۔

تبصرے (2) بند ہیں

سیدہ صائمہ عثمان Apr 29, 2021 03:35pm
مصنف کی فلاہیہ طرز تحریر کے تو ہم شیدائی ہیں خصوصاً
usman jamaie Apr 30, 2021 03:31pm
شکریہ صائمہ عثمان