اس سلسلے کی گزشتہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط، چھٹی قسط، ساتویں قسط


70ء کی دہائی گلی گلی گھومنے والے خوانچہ فروشوں، پھیری لگانے والوں، ریڑھی والوں، بسوں میں صدا لگانے والوں اور فٹ پاتھی دوکانداروں کا عشرہ تھا۔ ہم نے جب تک موٹر سائیکل نہیں خریدی تھی اس وقت تک شہر میں کہیں بھی آنے جانے کے لیے بسوں کا سہارا لیتے تھے اور بس کا شاید ہی کوئی ایسا اسٹاپ ہوتا جہاں سے کوئی نہ کوئی کچھ نہ کچھ بیچنے والا گاڑی میں نہ چڑھتا ہو۔

ہلال سویٹ کے کھٹے میٹھے کھٹ مٹھے، منہ ٹھنڈا کرنے والی گولیاں، ممیری سرمہ، لقمانی منجن، فقیری مرہم، مشہور عالم گمنام شاعروں کی عشقیہ شاعری والے کتابچے، خستہ کرارے پاپڑ، نیبو پیاز اور مرچوں والے چٹپٹے چنے، ہاضمے کا چورن اور پھکی، فانٹا اور سیون اپ کی گولیاں، نماز سیکھنے کی کتابیں اور اللہ جانے کیا کیا۔

بسوں میں مانگنے والے فقیروں کی بھی ایک اپنی ہی دنیا تھی۔ سب سے زیادہ تو وہ کارڈ بانٹنے والی فقیرنیاں ہوتی تھیں جو عام طور سے گونگی بن کر آنا پسند فرماتی تھیں۔ وہ منہ سے کچھ نہ بولتیں، بس ایک ایک کارڈ بس میں بیٹھے ہر مسافر کی گود میں پھینکتی چلی جاتیں جس پر اس کی یتیمی اور مفلسی کی درد بھری داستان کے ساتھ یہ شعر ضرور لکھا ہوتا تھا:

قسمت کی تھی بدنصیبی دن بُرے آنے لگے

کبھی کرتے تھے پھولوں سے نفرت اب ٹھوکریں کھانے لگے

کچھ فقیر بس میں داخل ہوتے ہی کوئی دکھی گانا گانا یا نعت پڑھنا شروع کردیتے تھے۔ ایسے مانگنے والے زیادہ تر طلعت محمود کے غمگین نغمے چھیڑتے تھے۔ مثلاً:

زندگی دینے والے سن، تیری دنیا سے دل بھر گیا

میں یہاں جیتے جی مرگیا آ آ آ، زندگی دینے والے سن

یا مکیش کا گانا :

قسمت بگڑی دنیا بدلی، پھر کون کسی کا ہوتا ہے

یا محمد رفیع کا یہ گانا گاتے:

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

ہم اکثر ڈی جے کالج سے گھر جانے کے لیے 2D یا 5C بس میں سوار ہوتے تو طلعت اور رفیع کے گانے گنگنانے والا ایک شخص عام طور سے جامع کلاتھ مارکیٹ کے اسٹاپ سے بس میں سوار ہوتا اور پلازہ تک اپنے فن کا مظاہرہ جاری رکھتا، حتیٰ کہ ہم اس کی درد بھری تانوں سے متاثر ہوکر اسے کچھ نہ کچھ دے ہی دیتے۔

نعت پڑھ کر مانگنے والوں کی سب سے پسندیدہ نعت ’شاہِ مدینہ‘ ہوتی تھی:

شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ ... یثرب کے والی

سارے نبی ہیں تیرے در کے سوالی

شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ

وہ مانگنے والیاں، جو لوٹے والیاں کہلاتی تھیں، وہ اپنی المونیم کی گڑوی کو انگلی میں پہنے دھاتی چھلے سے بجاتی زیادہ تر یہ گیت گاتی تھیں:

باگاں دے وچ ہریل طوطا پھردا ڈالی ڈالی

جناں باگاں دے مرگئے مالی، اللہ اُنھاں دا والی

70ء کی دہائی میں قائد آباد سے ایک نابینا شخص بسوں میں سوار ہوتا تھا۔ وہ مانگتا نہیں تھا بلکہ ٹافیاں بیچنے کی صدا لگاتا تھا۔ اس کے پاس صرف فانٹا ٹافیاں ہوتی تھیں اور وہ یوں صدا لگاتا:

ہے کوئی جو غریب نابینا کی مدد کرے ے ے....

غریب نابینا کی مدد کرے فنٹا خریدے ے ے....

فنٹا خریدے غریب نابینا کی مدد کرے ے ے ....

لوگ اس سے فانٹا تو کم خریدتے، مدد زیادہ کرتے، اور یہی اس کا مقصد بھی ہوتا تھا۔ کبھی کبھی جب اس کو کوئی کچھ نہ دیتا تو وہ احتجاجاً اپنی صدا مختصر کرکے تقریباً چیختے ہوئے صرف چند الفاظ دہراتا:

غریب غریب .... نابینا نابینا .... مدد مدد .... فنٹا فنٹا

اور پھر پیر پٹختا ہوا بس سے اتر جاتا۔

فٹ پاتھی دوکانداروں کی بھی ایک رنگا رنگ دنیا ہوتی تھی۔ کاندھے پر بانس کی ایسی بہنگی جمائے پھرنے والے جس کے دونوں سروں پر لٹکتی تنکے کی ٹوکریوں میں مکئی کے دانے بھرے ہوتے۔ ان کے بیچ میں رکھی ایک ہانڈی میں سلگتی لکڑی سے ہلکا ہلکا دھواں اٹھتا رہتا جس کی تپش سے بھنتے مکئی کے دانوں کی سوندھی سوندھی مہک گاہکوں کو اپنی طرف کھینچتی۔ اسی طرح کی بہنگیوں میں امرود، جامن، لال بادام، فالسے، جنگل جلیبی، گوندنیاں اور اسی طرح کی کمیاب چیزیں فروخت کرنے والے گلی گلی گشت کرتے تھے، بلکہ اب بھی نظر آجاتے ہیں۔

فٹ پاتھوں پر سجائے جانے والے پتھاروں کی رنگا رنگی بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ پرانے میلے سکوں کو آئینے کی طرح چمکانے والا کیمیکل بیچنے والے، اپنی تصویروں کے نیگیٹیو سے کسی بھی کاغذ یا گتے پر خود ہی تصویر پرنٹ کرنے والا کیمیکل فروخت کرنے والے، کروم پر سے زنگ اتارنے والا پاؤڈر، دَرد دُور کرنے والا مونچھ مارکہ تیل، سانڈے کا تیل، معجزاتی انگوٹھیاں، دھاتی تار سے بنے ہوئے شعبدے اور جادوگری کے کھلونے، سیل سے چلنے والے عجیب اور دلکش کھلونوں کا تماشا دکھا کر طاقت کی دوائی بیچنے والے شعبدہ باز، فٹ پاتھ کے مداری، بچہ جمہورا کا تماشا دکھانے والے، تیز نوک دار آہنی نیزے کو اپنے حلقوم سے زور لگا کر ٹیڑھا کرنے والے خطرناک مداری، ایک فٹ کے گول آہنی چھلے میں سے تین انسانوں کا ایک ساتھ نکلنے کا تماشا دکھانے والے بازی گر، آگ میں جلتے رِنگ کے اندر سے چھلانگ لگانے والے، دو اسٹولوں پر الٹا لٹک کر زمین پہ رکھے نوکدار کیلوں سے بھرے تختے میں پھنسا پانچ روپے کا نوٹ دانتوں سے پکڑ کر اٹھانے والے، کئی کئی گھنٹے ایک ہی دائرے میں سائیکل چلانے اور سائیکل چلاتے چلاتے شیو کرنے، منہ ہاتھ دھونے اور ناشتہ کرنے والے، ویو ماسٹر اور منی مووی پروجیکٹر پر ’ممنوع‘ فلمی ٹوٹے دکھانے والے، بھنی ہوئی کلیجی اور ابلی ہوئی اوجھڑی بیچنے والے، گھڑیوں کو بف پالش سے چمکانے والے .... اور اللہ جانے کیا کیا۔ یہ سارے خوانچے اور تماشے اکثر شہروں میں کسی نہ کسی صورت اب بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔

80ء کی دہائی میں ہمیں قائدآباد سے کھوکھراپار والے گھر میں منتقل ہوئے ابھی پہلا ہی دن تھا کہ گلی میں ایک صدا بلند ہوئی:

یہ بڑے بڑے رس گلے چار آنے کے دو

یہ میٹھے میٹھے رس گلے چار آنے کے دو

میں اٹھ کر تیزی سے گلی کی طرف بھاگا۔ باہر نکل کر دیکھا تو گھر کے سامنے ہی ایک ٹھیلا نظر آیا جس پر المونیم کا ایک بڑا سا پتیلا ایک ڈھکنے سے ڈھکا رکھا تھا۔ میں جیسے ہی قریب گیا ٹھیلے والے نے ڈھکنا ہٹا کر مجھے دکھایا۔ پتیلا گہرے رنگ کے شیرے سے لبالب بھرا تھا اور اس میں واقعی بڑے بڑے رس گلے تیر رہے تھے۔

’کتنے کے ہیں؟‘، میں بولا۔

’چار آنے کے دو‘، وہ بولا۔

’اچھا رکنا‘، میں بولا اور تیزی سے واپس گھر کی طرف لپکا۔

’اماں اماں‘، میں نے گھر کے اندر گھستے ہی آواز لگائی۔

’اماں رس گلے لینے ہیں، ایک روپیہ دو۔‘

اماں نے پہلے تو مجھے ناراضگی سے دیکھا لیکن پھر یہ خیال کرکے کہ ہمیں آج ہی قائدآباد والا محلہ چھوڑ کر اس نئے محلے میں آنے کی اداسی نہ ہو، اس لیے مجھے ایک روپیہ دے دیا۔ میں نے باورچی خانے سے اسٹیل کا ایک بڑا سا پیالہ اٹھایا اور دوبارہ باہر کی طرف لپکا۔ رس گلے والا میرا انتطار کر رہا تھا۔ میں نے پیالہ ٹھیلے پر رکھا اور اسے ایک روپے کا نوٹ تھمایا۔ اس نے جھٹ ایک چمچ سے پیالے میں آٹھ بڑے بڑے گلاب جامن ڈالے اور اوپر سے بہت سا شیرا بھی ڈال کر میرے حوالے کردیا۔

میں پیالہ اٹھائے گھر میں داخل ہوا تو سب بھائی بہن میری طرف جھپٹے اور ذرا سی دیر میں وہ دو، دو آنے والے آٹھ رس گلے چٹ ہوگئے۔ بہت ہی مزیدار تھے۔ اب تو ہم رس گلے والے کے باقاعدہ گاہک بن گئے۔ وہ جب بھی آتا ہماری گلی میں آکر ضرور آواز لگاتا۔ یہ رس گلے والا لیاقت مارکیٹ کی طرف سے آتا تھا۔ آج بھی لیاقت مارکیٹ اسٹاپ پر چند ٹھیلے والے یہی شیرے والے گلاب جامن بہت ارزاں قیمت پر فروخت کرتے ہیں اور میں جب بھی وہاں جاتا ہوں تو بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لیے یہ رس گلے ضرور خریدتا ہوں۔

گلی میں آنے والے ہاکروں کا بھی ایک اپنا ہی انداز ہوا کرتا تھا۔ کھوکھراپار کی گلیوں میں بے شمار ہاکر آیا کرتے تھے۔ صبح ہوتے ہی ان کی سریلی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی تھیں۔ سبزی والے، آلو پیاز والے، چھولے والے، دہی بڑے والے، گولے گنڈے اور قلفی والے، شکر قندی والے، چٹنی سموسے والے، گرم حلیم والے، جام (امرود)، جنگل جلیبی، املی کتارے، فالسے، لال بادام، شریفے، شہتوت اور آملے والے۔ ان کی صدائیں بھی عجیب عجیب اور انوکھی ہوتی تھیں۔ ملیر کے باغات چونکہ ہمارے محلے سے قریب ہی تھے اس لیے وہاں پیدا ہونے والے یہ انوکھے پھل یہاں بڑے سستے ملتے تھے۔

بہنگی پر چیزیں بیچنے والا
بہنگی پر چیزیں بیچنے والا

شیرے میں ڈوبے رس گلے
شیرے میں ڈوبے رس گلے

چٹنی سموسے
چٹنی سموسے

ملیر کے املی کتارے
ملیر کے املی کتارے

لال بادام
لال بادام

بہنگی پر چیزیں بیچنے والے یہ لال بادام بھی بیچا کرتے تھے
بہنگی پر چیزیں بیچنے والے یہ لال بادام بھی بیچا کرتے تھے

ملیر کے شہتوت
ملیر کے شہتوت

ہماری گلی میں اکثر ایک بوڑھا کچھی ٹھیلے والا ملیر کے باغات سے یہ تازہ تازہ پھل لاتا تھا اور گلی کے بیچ میں آکر ناچ ناچ کر یہ فروخت کرتا۔ ہم بچے اس سے پھل تو کم خریدتے اس کا ڈانس زیادہ دیکھتے۔ وہ گلی میں داخل ہوتے ہی صدا لگاتا:

شریفے والا، جام والا، بیر والا ....

جنگل جلیبی والا، اے ہے جنگل جلیبی والا، اوہو جنگل جلیبی والا

جب وہ جنگل جلیبی پر پہنچتا تو لہک لہک کر اور جنگل جلیبی کے ’جیم‘ پر زور دے کر ’جھنگل جلیبی والا، جھنگل جلیبی والا‘ گاتا اور اس ردھم پر والہانہ رقص شروع کردیتا۔ اردگرد کھڑے لوگ پہلے تو چونکتے، پھر قہقہے لگاتے، پھر تالیاں بجاتے اور پھر اس خوش مزاج بوڑھے سے کچھ نہ کچھ ضرور خرید لیتے۔

اکثر گلی میں ایک قلعی گر بھی آکر ڈیرہ جماتا۔ زمین میں ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اس میں آگ کی دھونکنی فٹ کرتا اور لوگوں کے تانبے کے برتن اس آگ پر تپا تپا کر قلعی کرتا۔ ہرے ہرے زنگ لگے اور کالے پیلے برتنوں کو آئینے جیسی چمک دینے کا یہ عمل بچوں کے لیے بڑا دلچسپ اور ہیجان خیز ہوتا تھا، اس لیے جب تک قلعی والا گلی میں موجود ہوتا، بچے بھی اس کے گر مجمع لگائے رکھتے۔

کھوکھراپار کی جس گلی میں ہم رہتے تھے وہ قاسم پٹیل والی گلی کہلاتی تھی۔ گلی میں داخل ہوں تو بائیں طرف کا پہلا گھر محلے کی ہر دلعزیز شخصیت قاسم پٹیل کا تھا اور اس کے سامنے بائیں طرف والا کونے کا مکان ’آپاں چری‘ کا ہوتا تھا۔ یہ ایک پرانا آسیب زدہ سا مکان تھا جو ایک بڑے سے صحن اور ایک اکلوتے کمرے پر مشتمل تھا۔ سو گز کے اس پورے مکان کو ایک قدیم اور گھنا نیم کا درخت اپنے سائے میں لیے رکھتا تھا اور گھر کے اس واحد کمرے میں آپاں چری اکیلی رہتی تھی۔ آپاں چری کون تھی، کہاں سے آئی تھی اور اکیلی کیوں رہتی تھی؟ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس اتنا پتا تھا کہ 60، 65 سال کی یہ سفید رنگت اور سرخ جلالی آنکھوں والی بوڑھی عورت بہت خطرناک اور پاگل (یعنی چری) ہے، وہ ہر ایک کو گالیاں دیتی اور مارنے کو دوڑتی ہے اس لیے اس سے بچ کر رہنا ہے۔

جنگل جلیبی
جنگل جلیبی

ملیر کی جنگل جلیبی
ملیر کی جنگل جلیبی

قلعی گر
قلعی گر

تانبے کے برتن قلعی ہوتے ہوئے
تانبے کے برتن قلعی ہوتے ہوئے

قلعی کا یہ عمل بچوں کے لیے بہت دلچسپ ہوتا تھا
قلعی کا یہ عمل بچوں کے لیے بہت دلچسپ ہوتا تھا

قاسم پٹیل والی گلی
قاسم پٹیل والی گلی

آپاں چری واقعی ایک دیوانی عورت تھی۔ ہم نے سنا تھا کہ اس کا ایک بیٹا اور بہو بھی ہیں جنہیں اس نے کئی سال پہلے مار مار کر گھر سے نکال دیا ہے اور اب وہ اس گھر میں بالکل اکیلی رہتی ہے۔ اس کا 3 وقت کا کھانا قاسم پٹیل کے گھر سے جاتا تھا، بلکہ اکثر پٹیل صاحب خود ہی خوان پوش لیے آپاں کے گھر کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور آپاں ان سے کھانا لیتے وقت ان کو بھی خوب گالیاں دیتی تھی۔

آپاں کے بس 2 ہی کام تھے۔ گھر کے اندر بیٹھ کر اس قدر بلند آواز میں تلاوت کرنا کہ باہر تک سنائی دے، یا پھر دروازہ کھول کر باہر جھانکنا اور جو بھی نظر آجائے اسے غصے سے گھورنا اور اگر غلطی سے گزرنے والے نے بھی آپاں کو نظر بھر کر دیکھ لیا تو بس پھر اس کی شامت۔ آپاں کے منہ سے کوسنوں اور گالیوں کا ایک فوارہ ابلتا اور راہگیر گھبرا کر دوڑ لگا دیتا۔

آپاں کی سب سے مرغوب گالی ’سور کے بچے‘ تھی جس سے وہ بلا تفریق ہر ایک کو نوازتی تھیں۔ اس زمانے میں مجھ پر کتابوں کے مطالعے کا اس قدر جنون طاری تھا کہ میں گھر میں کھانا کھاتے وقت اور گھر سے باہر رستہ چلتے چلتے بھی کتابیں پڑھتا رہتا تھا۔ شامت اعمال، ایک دن میں اسی طرح کوئی کتاب پڑھتے پڑھتے گلی سے گزر رہا تھا اور میں نے غور نہیں کیا کہ آپاں چری اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی مجھے آتا دیکھ رہی ہے۔ میں اپنے مطالعے میں مگن جب قریب پہنچا تو اچانک اس پر نظر پڑی۔ جیسے ہی اس سے آنکھیں چار ہوئیں اسی وقت اس کا غصہ عروج پر پہنچ گیا اور وہ غصے سے بولی:

’چلتے چلتے بھی کاپیاں پڑھ رہے ہیں .... سور کے بچے۔‘

میں نے جو یہ سنا تو ایک دم گھبرا گیا اور اس کی مزید گالیوں سے بچنے کے لیے دوڑ لگا دی۔

ہمارے ابّا ایک بڑی بارعب اور غصیلی شخصیت تھے۔ ایک دن وہ بھی اسی طرح گلی سے گزر رہے ہوں گے کہ آپاں چری نے اپنی عادت کے مطابق ان کو بھی کوئی بُرا بھلا لفظ کہا۔ ابّا تو غصے کے آپاں سے بھی تیز تھے، وہ فوراً پلٹے اور قریب تھا کہ آپاں ابّا کے ایک زناٹے دار تھپڑ کا مزا چکھتی، لیکن خدا جانے یہ کیسے ہوا کہ آپاں، جس سے پورا محلہ ڈرتا تھا، وہ ابّا سے ڈر کر تیزی سے اپنے گھر کے اندر گھس گئی اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ اس دن کے بعد آپاں کئی دن تک اپنے گھر سے باہر نہیں نکلی اور نہ ہی کسی کو گالی دی۔ چند دن بعد جب وہ بالآخر اپنے گھر سے باہر نکلی تو سیدھی ہمارے گھر کی طرف آئی اور دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگائی:

’گوہر ایوب کی ماں .... اے گوہر ایوب کی ماں؟‘

ہم بڑے حیران ہوئے کہ یہ کون ہے اور کس طرح کی آواز لگا رہا ہے۔ اماں کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہمارا چھوٹا بھائی حبیب اللہ باہر پہنچ گیا۔ اس نے جیسے ہی دروازے سے باہر جھانکا تو آپاں چری کھڑی تھی۔ حبیب اللہ کو دیکھتے ہی وہ بولی:

’اے گوہر ایوب، جا اپنی اماں کو بلا لا۔‘

حبیب اللہ کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ یہ کیا کہہ رہی ہے۔ ابھی وہ ہکا بکا کھڑا آپاں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ اماں بھی دروازے پر پہنچ گئی۔ اماں کو دیکھتے ہی آپاں بولی:

’گوہر ایوب کی ماں، تمہارے میاں صدر ایوب سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اسے کہنا کہ وہ مجھے نہ مارے۔‘

یہ کہہ کر وہ واپس چلی گئی۔ اس وقت تو یہ سارا معاملہ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ رات کو ابّا دوکان سے واپس گھر آئے تو اماں نے یہ واقعہ گوش گزار کیا۔ ابّا خوب ہنسے۔ کہنے لگے کہ میں نے 3، 4 دن پہلے گالیاں دینے پر اسے ڈرایا تھا کہ بہت ماروں گا۔ ابّا کا خیال تھا کہ یہ عورت جس زمانے میں اپنے ہوش و حواس میں ہوگی وہ غالباً صدر ایوب خان کا دور تھا، اس لیے وہ آج بھی سب سے طاقتور آدمی، یا کم از کم ایسا شخص جس سے اسے خوف آتا ہو، اسے صدر ایوب سمجھتی ہے۔ چونکہ وہ مجھ سے ڈر گئی ہے اس لیے میں ہوا صدر ایوب، حبیب اللہ چونکہ میرا بیٹا ہے اس لیے یہ ہوا گوہر ایوب، اور تم ہو میری بیوی اس لیے تم ہوئیں گوہر ایوب کی ماں.... اس کے بعد اماں ابّا دیر تک ہنستے رہے۔

آپاں چری نے بڑی طویل عمر پائی۔ ہم 1990ء میں کھوکھراپار سے رفاہِ عام سوسائٹی منتقل ہوئے تو اس وقت تک آپاں چری زندہ سلامت تھی۔ کئی سال بعد اس کے مرنے کی خبر ملی۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے۔

تبصرے (6) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری May 18, 2021 11:29pm
واہ، ہمیشہ کی طرح عوامی تاریخ رقم ہوئی ہے۔ آج کل میری عمر کے لوگ ایسی کلپیں بھیج رہے ہیں جو ہمیں بچپن کی یادیں تازہ کرادیتی ہیں، ساتھ میں لکھا ہوتا ہے، اگر آپ ان تصاویر کو پہنچانتے ہیں تو آپ بوڑھے ہو چکے ہیں ۔ ٰایسا ہی کچھ آپ کی تحاریر پڑھ کر اور تصاویر دیکھ کر محسوس ہوتاہے۔ بہت کچھ بدل گیا ہے، بدلتا رہا ہے اور رہے گا۔ خوشی ہے کہ آپ نے قلم بند تو کیا۔ ایک چیز مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بسوں میں خواتین کے حصے سے پہلے ایک جملہ ہمیشہ یوں لکھا ہوتا تھا، ’خواتین کا حترام کریں۔‘ احترام کی بچائے۔ ہاں بالکل ٹھیک ہے کہ قلعی والا دیرا جما دیتا اور سارا محلہ قلعی کے لیے برتن بھیجتا رہتا تھا۔ مجھے ڈر ہے کہ رانگے کی وہ قلعی ہم سب کھا جاتے ہونگے۔ اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔
اشعر May 19, 2021 07:39am
:) بہت خوب ۔ کیا کچھ یاد دلادیا۔
jamilahmad May 19, 2021 04:43pm
how many rupees than we have when one rupee kay ras ghulle milte they
M. Saeed May 20, 2021 01:01pm
But, the picture above is not Rus Gullay but that of Gulab Jaman?
عبیداللہ کیہر May 20, 2021 05:00pm
جی اس ٹھیلے والے کے رس گلے اسی شکل کے ہوتے تھے
Kaspar May 22, 2021 10:53pm
Interesting!