معروف ادیب و نقاد شمیم حنفی کا نئی دہلی میں انتقال

اپ ڈیٹ 07 مئ 2021
وہ برصغیر کے ایک نہایت ہی قابل عزت ادیب، ڈرامہ نگار اور شاعر تھے — فوٹو: بشکریہ ٹائمز آف انڈیا
وہ برصغیر کے ایک نہایت ہی قابل عزت ادیب، ڈرامہ نگار اور شاعر تھے — فوٹو: بشکریہ ٹائمز آف انڈیا

بھارت میں اردو کے نامور ادیب اور نقاد شمیم حنفی انتقال کر گئے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شمیم حنفی کی عمر 81 برس تھی اور ابتدائی طور پر ان کی موت کی وجہ سامنے نہیں آئی۔

وہ برصغیر کے ایک نہایت ہی قابل عزت ادیب، ڈراما نگار اور شاعر تھے۔

شمیم حنفی نئی دہلی میں جامعہ ملیہ کے شعبہ اردو کے استاد تھے جنہوں نے ادبی تنقید میں متعدد قابل قدر کتابیں تصنیف کیں۔

ان کی مشہور کتابوں میں جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، نئی شعری روایت، تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ، اردو کلچر اور تقسیم کی روایت، خیال کی مسافت اور قاری سے مکالمہ شامل ہیں۔

شمیم حنفی نے ڈرامے لکھے، کتابوں کے ترجمے کیے اور بچوں کے لیے چار کتابیں نکالیں جن سے انہوں نے بےحد لطف اندوز ہونے کا اعتراف کیا۔

ان کی شاعری کا مجموعہ 'آخری پہر کی دستک' 2015 میں ریختہ میں شائع ہوا۔

شمیم حنفی کی زندگی کا وہ پہلو جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا وہ یہ کہ انہیں مصوری، مٹی کے برتن بنانے اور پرفارمنگ آرٹس کا بہت شوق تھا۔

شمیم حنفی، اترپردیش کے سلطان پور میں ایڈووکیٹ محمد یاسین صدیقی اور بیگم زیب النسا کے گھر پیدا ہوئے، وہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔

انہوں نے مولوی مغیث الدین سے فارسی زبان سیکھی اور اردو ادب میں ان کی دلچسپی ان کے والد کی اردو، تاریخ اور انگریزی کے استاد سید معین الدین قادری سے قربت کا نتیجہ تھی۔

الہٰ آباد یونیورسٹی میں ان کی رفاقت فراق گورکھ پوری، ڈاکٹر اعجاز حسین، پروفیسر احتشام حسین اور پروفیسر ایس سی ڈیب سے بڑھی جنہوں نے ان کی حساسیت پر گہرا اثر چھوڑا۔

شمیم حنفی نے 1966 میں الہٰ آباد یونیورسٹی سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔

انہوں نے جامیہ ملیہ اسلامیہ میں شمولیت سے قبل 7 سال تک اے ایم یو میں بطور فیکلٹی رکن خدمات انجام دیں۔

تبصرے (0) بند ہیں