مسلم اقلیتی ممالک میں ایک مقام پر نماز عید کے 3 اجتماعات ہوسکتے ہیں، سعودی مفتی اعظم

اپ ڈیٹ 10 مئ 2021
یہ فیصلہ بڑے شہروں کے باہر مساجد اور عبادت گاہوں کی کمی کی بنیاد پر بھی کیا گیا ہے—فوٹو: اے ایف پی
یہ فیصلہ بڑے شہروں کے باہر مساجد اور عبادت گاہوں کی کمی کی بنیاد پر بھی کیا گیا ہے—فوٹو: اے ایف پی

سعودی مفتی اعظم شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ الشیخ نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاو کو روکنے اور اس حوالے سے نافذ پابندیوں کی وجہ سے مسلم اقلیتی ممالک میں اک مقام پر نمازِ عید کے 3 اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی مفتی اعظم نے کہا کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث مسلم اقلیتی ممالک میں باجماعت نماز عید تین مرتبہ میں ادا کی جاسکتی ہے اور ہر اجتماع کے ساتھ خطبہ بھی ہوگا۔

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ جو سینئر علما کی کونسل اور اسلامی تحقیق اور فتویٰ جاری کرنے کی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ یہ فیصلہ بڑے شہروں کے باہر مساجد اور عبادت گاہوں کی کمی کی بنیاد پر بھی کیا گیا ہے۔

کچھ مسلم اقلیتی ممالک میں ان دنوں کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر اور مساجد کی کمی اور نمازیوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے نمازِ عید اور خطبہ 3 مرتبہ ادا کرنے کا کہا گیا ہے۔

اس حوالے سے سعودی مفتی اعظم سے پوچھا گیا کہ کیا ایسا کرنے کی اجازت ہے۔

جس پر شیخ عبدالعزیز نے کہا کہ 'عام حالات میں ایک ہی جگہ پر کسی ضرورت یا عجلت کے بغیر باجماعت نمازِ عید کو دہرانے کی اجازت نہیں ہے لیکن ہمیں ان دنوں غیر معمولی حالات کا سامنا ہے'۔

مفتی اعظم نے کہا کہ کچھ علمائے کرام نے ضرورت کے تحت اس چیز کی اجازت دی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال میں عوامی صحت کا تحفظ شریعت کا بنیادی مقصد ہے۔

خیال رہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس نے ایک سال سے زائد عرصے سے معمولاتِ زندگی کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے جس سے ہر قسم کے تہوار اور سماجی تعلقات پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کیسز اور نئی اقسام کے پھیلاؤ کی وجہ سے مختلف ممالک میں عیدالفطر پر بھی مختلف پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی رمضان المبارک کے حوالے سے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) جاری کیے گئے تھے اور عید کے حوالے سے علیحدہ پابندیوں اور قواعد کا اعلان کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں