دریائے گنگا میں تیرتی لاشیں دیکھ کر لوگوں میں خوف پھیل گیا

اپ ڈیٹ 11 مئ 2021
مقامی عہدیداروں نے لاشوں کو نکال کر تفتیش کرنے کا حکم دے دیا—فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا
مقامی عہدیداروں نے لاشوں کو نکال کر تفتیش کرنے کا حکم دے دیا—فائل فوٹو: پریس ٹرسٹ آف انڈیا

کورونا سے شدید متاثر پڑوسی ملک میں گزشتہ تین ہفتوں سے یومیہ ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار تک ہلاکتیں ہونے کی وجہ سے جہاں شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں جگہ کم پڑ چکی ہے۔

وہیں اب بھارت کے سب سے بڑے اور مقدس تصور کیے جانے والے دریائے گنگا میں مختلف شہروں کے قریب تیرتی لاشوں کو دیکھے جانے کے بعد وہاں دہشت پھیل گئی۔

بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق 11 مئی کو بھارتی ریاست اترپردیش میں دریائے گنگا میں مختلف مقامات پر درجنوں لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھا گیا۔

لاشوں کو گنگا میں تیرتا ہوا دیکھ کر جہاں مختلف علاقوں میں دہشت پھیل گئی، وہیں میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے بعد بھارت بھر میں بھی خوف پھیل گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریاست اترپردیش کے ضلع غازی پور کے مختلف گاؤں کے قریب دریائے گنگا میں لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھا گیا۔

لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھنے کے بعد مقامی افراد نے ضلعی انتظامیہ کو مطلع کیا، جس پر انتظامیہ نے تفتیش شروع کردی ہے کہ تیرتی لاشیں کہاں سے آئیں؟

رپورٹ میں مقامی افراد اور انتظامیہ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ممکنہ طور پر تیرتی لاشیں دوسری ریاست یا دوسرے ضلع سے گنگا میں بہائی گئی ہوں گی اور خیال کیا جا رہا ہے کہ مرنے والے تمام افراد کورونا سے چل بسے ہوں گے۔

رپورٹ میں مقامی عہدیداروں اور پوجاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بھارت بھر میں کورونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے باعث ملک بھر میں لاشوں کو چتا (چلانے) دینے کے لیے سامان کی قلت ہوچکی ہے اور شمشان گھاٹوں میں نامکمل انتظامات ہونے کی وجہ سے لوگ لاشوں کو دریائے گنگا میں چھوڑ رہے ہیں۔

اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ریاست ہما چل پردیش کے ضلع ہمیرپور کے قریب دریائے جمنا میں بھی لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھا گیا۔

دوسری جانب ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ریاست بہار میں بھی دریائے گنگا کے مختلف مقامات پر لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھا گیا، جس کے بعد علاقے میں خوف پھیل گیا۔

ریاست بہار کے ضلع بکسر سمیت دیگر شہروں کے قریب دریائے گنگا میں متعدد لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھا گیا اور انتظامیہ نے بھی دریائے گنگا میں لاشوں کی موجودگی کی تصدیق کی۔

انتظامی عہدیداروں کے خیال کے مطابق دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں کورونا سے متاثر ہو سکتی ہیں تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

اسی حوالے سے اسکرول نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دریائے گنگا میں ریاست بہار کے مختلف مقامات پر تیرتی ہوئی لاشوں کی تعداد کے حوالے سے متضاد اطلاعات ہیں اور تیرتی لاشوں کی تعداد 30 سے 150 کے درمیان بتائی جا رہی ہے۔

دریائے گنگا کے مختلف مقامات پر لاشوں کو تیرتے ہوئے دیکھنے کے بعد مختلف شہروں کی انتظامیہ نے مقدس دریا کی سیکیورٹی بڑھادی ہے جب کہ تیرتی ہوئی لاشوں کو محفوظ انداز میں نکال کر ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے احکامات جاری کردیے گئے۔

عہدیداروں کو یقین ہے کہ دریائے گنگا میں تیرتی ہوئی لاشیں کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کی ہوں گی، اس لیے تمام لاشوں کی کورونا ایس او پیز کے تحت آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔

خیال رہے کہ دریائے گنگا اور جمنا ایک ساتھ بہتے ہیں اور ان دونوں دریاؤں کو ہندو مذہب میں مقدس دریاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے۔

دونوں دریا بھارت کی مختلف ریاستوں سمیت بنگلادیش میں بھی بہتے ہیں اور دونوں دریاؤں کے کنارے بھارت کے کئی معروف شہر بھی آباد ہیں، جن میں ورناسی اور کولکتہ بھی شامل ہیں۔

دریائے گنگا بھارت کی ریاست اتراکھنڈ، اترپردیش اور بہار سمیت مغربی بنگال تک پھیلا ہوا ہے اور اس دریا کے کنارے ہریدوار، کانپور، علی گڑھ، مرزاپور، ورناسی، غازی پور، فرخ آباد، پٹنا، بھگلاپور، مرشد آباد، کولکتا، شانتی پور، ڈھاکا اور چھتیس گڑھ سمیت دیگر شہر شامل ہیں۔

ہندو مذہب کے پیروکار دریائے گنگا اور جمنا میں اپنے پیاروں کی چتا کی راکھ بہانے سمیت مذکورہ ندیوں میں گناہوں کی بخشش کے لیے اشنان بھی کرتے ہیں۔

وارناسی سمیت متعدد شہر گنگا کنارے آباد ہیں—فائل فوٹو: فیس بک
وارناسی سمیت متعدد شہر گنگا کنارے آباد ہیں—فائل فوٹو: فیس بک

تبصرے (0) بند ہیں