آزمائشیں انسانی زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور دستک دیتی ہیں۔ کہیں انسان ہار مان جاتا ہے اور ناکامی کے گرداب میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتا ہے، تو کہیں ایک نئی امنگ کے ساتھ کامیابی و کامرانی کی نئی منازل طے کرتا ہے۔ جیتتا بھی انسان ہے اور ہارتا بھی انسان۔ قوت، ارادہ اور ہمت ہر شخص کا خاصہ ہیں، بس ضرورت ہوتی ہے اپنے اندر اعتماد پیدا کرنے کی۔

قوت، ارادے اور ہمت کے ساتھ خود پر اعتماد کرنے والوں میں سے ایک 26 سالہ سندس اسحٰق بھی ہیں، جنہوں نے حال ہی میں نمایاں نمبروں کے ساتھ مقابلے کا امتحان پاس کرکے پولیس سروس آف پاکستان میں اپنی جگہ بنائی ہے۔

گولڈ میڈلسٹ سندس اس وقت چین کی ایک یونیورسٹی سے ماحولیاتی سائنس میں ایم فل کر رہی ہیں اور کورونا کی عالمی وبا کے باعث آن لائن کلاسیں لے رہی ہیں۔

سندس کا تعلق دہشتگردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے پسماندہ ضلع بنوں سے ہے۔ ان کے والد محمد اسحٰق محکمہ آبپاشی سے بحیثیت ایس ڈی او وابستہ تھے اور 80ء کی دہائی میں اپنی سرکاری ملازمت کے سلسلے میں ایبٹ آباد تعینات ہوئے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے پھر ایبٹ آباد میں ہی رہائش اختیار کرلی۔

26 سالہ سندس اسحٰق  نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنی قابلیت کو ثابت کیا ہے
26 سالہ سندس اسحٰق نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرکے اپنی قابلیت کو ثابت کیا ہے

بچوں کی بہتر تعلیم کی غرض سے اپنے آبائی علاقے کو خیرباد کہنے والے محمد اسحٰق کی وفات اس وقت ہوئی جب ان کی لاڈلی اور شرارتی سندس ابھی تیسری جماعت میں پڑھ رہی تھی۔ والد کی اچانک وفات کم سن بیٹی کے لیے کسی بڑے سانحے سے کم نہیں تھی۔

والد کی یادوں کے ساتھ دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے رہے اور سندس کی تعلیم بھی جاری رہی۔ انہوں نے ماحولیاتی سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی محنت و لگن کے ساتھ گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔

پڑھیے: کیا سی ایس ایس صرف 'تابعداری' کا امتحان ہے؟

سندس کی بڑھتی عمر کو دیکھتے ہوئے خاندان کے بڑوں نے پختون روایات کے مطابق لڑکا چُن کر سندس سے شادی کروا دی۔ شادی شدہ زندگی پریشانیوں اور مسائل سے بھرپور رہی اور یوں چند برس بعد ہی طلاق کی صورت میں اس شادی کا باب بند ہوگیا۔

6 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی اور لاڈلی اس اعتبار سے خوش قسمت رہی کہ علیحدگی کے وقت بہن بھائی ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔

سندس اسحٰق کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’جب میری علیحدگی ہوئی تو یہ زندگی کا ایک بڑا واقعہ تھا۔ رونا دھونا اور شکایت کرنا میرے مزاج میں شامل نہیں تھا۔ جہاں کچھ ناگزیر حالات علیحدگی کا باعث بنے تھے وہیں میرے پڑھنے کا شوق اور کچھ کر دکھانے کا عزم بھی ایک اہم وجہ رہی‘۔

سندس بتاتی ہیں کہ ’شادی سے پہلے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ شادی کے بعد تعلیمی سلسلہ جاری رہے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ البتہ طلاق کے بعد تعلیمی سلسلہ وہیں سے شروع ہوا جہاں سے ٹوٹا تھا‘۔

سندس نے زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا
سندس نے زندگی کی مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا

سندس اپنے والد کی باتیں یاد کرکے اپنے اندر نیا جذبہ پیدا کرتی رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے بابا کہا کرتے تھے کہ یہ چھوٹی بڑا کام کرے گی‘۔

افسوس ہے کہ شادی کی ناکامی یا طلاق ہمارے سماج میں ایک ٹیبو تصور کیا جاتا ہے۔ سندس پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے لیکن انہوں نے اپنے والد کی'بڑے کام' کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کتابوں میں پناہ لی، یوں انہیں احساسِ تناہی دُور کرنے اور زندگی کو آگے بڑھانے کا موقع ملا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس وقت میں نے خود کو صدمے جیسی صورتحال سے باہر نکالنے کے لیے دوبارہ کتابوں کا سہارا لیا۔ گوکہ منزل واضح نہیں تھی۔ 3، 4 سال ضائع ہوچکے تھے مگر کتابوں نے مجھے جینے کا حوصلہ دیا تھا‘۔

سندس کہتی ہیں ’میں نے اپنی پوری توجہ تعلیم پر مرکوز رکھی، میں پڑھائی میں مصروف ہوگئی تھی لیکن پھر ایک دن میرے بھائی نے پوچھا کہ تم سی ایس ایس کا امتحان دینا چاہو گی؟ مجھے ان کی بات سُن کر احساس ہوا کہ خود کو ثابت اور اپنے ملک کی خدمت کا یہ ایک اچھا موقع ثابت ہوسکتا ہے‘۔

بس پھر شروع ہوا امتحان کی تیاری کا مرحلہ۔ سندس نے بتایا کہ تیاری کے لیے انہوں نے اپنی سہیلی کے بڑے بھائی ذیشان جو ایف بی آر میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور ان کی بھابھی ڈی پی او چترال، سونیا شمروز سے مدد طلب کی۔

پڑھیے: سی ایس ایس میں انگلش 'لازمی' ہے ہی کیوں؟

سندس نے بتایا کہ 'ذیشان بھائی کے ساتھ بات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اس وقت دیگر مصروفیات کو چھوڑ کر صرف سی ایس ایس کی تیاری کروں۔ ان کی مدد سے میں نے سی ایس ایس کی بھرپور تیاری شروع کردی تھی‘۔

ذیشان کہتے ہیں کہ انہیں سندس کی قابلیت کا اندازہ تو پہلے سے ہی تھا لیکن جب ان سے بات ہوئی تو یقین ہوگیا کہ اس کے لیے سی ایس ایس پاس کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔ ’میں نے صرف بنیادی رہنمائی فراہم کی تھی جبکہ باقی تیاری سندس نے خود کی‘۔

سندس اسحٰق کے مطابق ’کتابوں کی دوستی نے مجھے ماضی کے تلخ تجربات کو بھلانے میں مدد کی اور میری توجہ اور فکر کا مرکز کامیاب مستقبل تھا۔ میں یہاں یہ بھی کہنا چاہوں گی کہ میں منیبہ مزاری بلوچ سے بہت متاثر تھی۔ میں اکثر ان کی تقاریر سُنا کرتی جو مجھے ہمیشہ کچھ کر دکھانے کا حوصلہ بخشتی تھیں۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ مشکل ترین حالات میں میرا حوصلہ قائم رکھنے میں منیبہ مزاری بلوچ کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ وہ ایک ایسی دوست ہے جس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی مگر وہ ہمیشہ میری مددگار رہی ہے‘۔

کتابوں کی دوستی نے سندس کو ماضی کے تلخ تجربات بھلانے میں مدد کی
کتابوں کی دوستی نے سندس کو ماضی کے تلخ تجربات بھلانے میں مدد کی

سندس نے جب پہلی بار سی ایس ایس کا امتحان دیا تو وہ انگریزی مضمون نویسی میں فیل ہوگئیں۔ ان کے مطابق ’اس موقعے پر تھوڑی مایوسی تھی مگر میرے تمام بہن، بھائیوں کا ردِعمل بہت حوصلہ افزا تھا۔ میرے ایک بہنوئی نے مجھے کہا کہ تم بہت اچھے نمبروں سے فیل ہوئی ہو، چلو دوبارہ سے کوشش شروع کردو۔ دوسری مرتبہ کامیاب ہوجاؤ گی‘۔

سندس بتاتی ہیں کہ ’دوسری مرتبہ سب کو امید تھی کہ میں تحریری امتحان پاس کرلوں گی۔ بہترین مقرر ہونے کے باوجود انٹرویو پر کچھ شکوک و شہبات تھے۔ جس دن آخری نتیجہ آیا تو ایبٹ آباد سے بھائی عمیر خان نے فون کیا کہ نتیجہ چیک کرو لیکن میں نے کہا کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے اس خوف کو دیکھتے ہوئے انہوں نے خود میرا نتیجہ دیکھا اور جب انہوں نے مجھے خوش خبری سنائی تو مجھے خود پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا، میں اس قدر خوش ہوئی کہ میری آواز ہی بند ہوگئی‘۔

پھر میرے بہنوئی نے فون کیا کہ میں پاس ہوگئی ہوں۔ اس کے بعد کمرے کا کیا ماحول تھا کیا بتاؤں۔ خوشی کے آنسو، قہقہے اور جشن تھا۔ کوئی والد کو یاد کررہا تھا تو کوئی والدہ کو۔

سندس اسحٰق کا کہنا تھا کہ ’میں نے سونیا سے متاثر ہوکر پولیس فورس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ ایک بہترین ماں ہونے کے علاوہ بہترین پولیس افسر بھی ہیں۔ امتحان کا فارم پُر کرتے وقت بھائیوں سے بھی پوچھا کہ میں پولیس فورس کو اپنی ترجیح میں رکھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ جو اچھا لگتا ہے وہ کرو‘۔

پڑھیے: ساری امیدیں 'سی ایس ایس' سے ہی کیوں؟

’خواتین ہمت کریں تو دنیا کا کوئی کام ان کے لیے مشکل نہیں۔ میرا خیال ہے کہ میں پولیس فورس میں بہتر عوامی رابطے کے ذریعے ملک کے عوام کی خدمت کرسکتی ہوں۔ میری بات کو آنے والا وقت ثابت کرے گا۔‘

سندس سی ایس ایس کی دوسری کوشش میں کامیاب ہوئیں
سندس سی ایس ایس کی دوسری کوشش میں کامیاب ہوئیں

سندس کہتی ہیں کہ ’میرے والدین کا آبائی علاقہ بنوں ہے جبکہ میں ایبٹ آباد ہی میں پیدا ہوئی ہوں۔ اس طرح ہزارہ اور بنوں دونوں سے میرا تعلق ہے۔ دونوں علاقے ابھی بھی روایت پسند ہیں۔ ان علاقوں میں اب بھی خواتین اپنے متعدد حقوق سے محروم ہیں۔ ان حالات کو مدِنظر رکھ کر ذرا سوچیں کہ میرے بھائیوں نے میری کامیابی کے اس سفر میں کس طرح میرا ساتھ دیا ہوگا۔ علیحدگی کا فیصلہ کرتے ہوئے خود مجھ پر روایت پسند معاشرے کا دباؤ تھا تو کیا میرے بھائیوں پر نہیں رہا ہوگا؟‘

وہ اپنے بھائیوں کے بھرپور ساتھ پر فخر محسوس کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ’میرے بھائیوں نے اپنی بہن کی خاطر اس سماجی دباؤ کو قبول کیا اور مجھ پر کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ علیحدگی کو کبھی بھی میرے لیے طعنہ نہیں بنایا، صرف میری خوشی اور ہمیشہ سب سے پہلے میرے مستقبل کو مدِنظر رکھا ہے۔ شکر ہے کہ میں اپنے بھائی بہنوں کی توقعات پر پورا اتری ہوں۔ میں ایک بہترین پولیس افسر بن کر اپنے بھائیوں اور خاندان کا فخر بنوں گی۔ میں پاکستان کے باقی بھائیوں اور والدین سے بھی کہتی ہوں کہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر اعتماد کریں، ان کی حوصلہ افزائی کریں اور انہیں بھی زندگی میں کچھ کر دکھانے کا موقع فراہم کریں تاکہ وہ آپ کا فخر بن سکیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris May 21, 2021 09:20pm
Congratulations and Best Wishes for a happy life and for a successful career to serve the Pak Sarzameen.