اسرائیل کی غزہ پربمباری جاری، اے پی، الجزیرہ سمیت میڈیا کے دفاتر بھی تباہ

اپ ڈیٹ 16 مئ 2021
الجلا ٹاور میں میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں کے بھی دفاتر تھے—فوٹو: اے ایف پی
الجلا ٹاور میں میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں کے بھی دفاتر تھے—فوٹو: اے ایف پی
الجلا ٹاور میں میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں کے بھی دفاتر تھے—فوٹو: رائٹرز
الجلا ٹاور میں میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں کے بھی دفاتر تھے—فوٹو: رائٹرز

اسرائیل کی غزہ پر بمباری جاری ہے اور اس دوران ایک اور بلند عمارت کو نشانہ بنایا جہاں الجزیرہ اور امریکی خبر ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سمیت دیگر بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر بھی تباہ ہوگئے جو اسرائیلی فوج کی غزہ میں میڈیا کو خاموش کرنےکی بدترین کوشش ہے۔

غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق الجلا ٹاور کے مالک نے میڈیا کو اسرائیلی حملے کے حوالے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا اور عمارت کو خالی کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: غزہ پر اسرائیلی حملے چھٹے روز میں داخل، جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 136 ہوگئی

الجزیرہ میں جاری کی گئیں ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 12 منزلہ عمارت کارروائی کے بعد لمحوں میں تباہ ہورہی ہے اور آسمان کی جانب دھواں بلند ہورہا ہے۔

ویڈیو بنانے والی خاتون نے آگاہ کیا کہ 'ٹاور گر چکا ہے، آپ جب کبھی نے صحافیوں کو غزہ سے رپورٹنگ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اکثر اس عمارت کی چھت پر کھڑے ہوکر رپورٹ کرتے تھے لیکن اب اسرائیلی فوج نے کارروائی کرکے اس عمارت کو تباہ کردیا ہے۔

الجزیرہ کی اینکر نے جذباتی انداز میں کہا کہ 'یہ چینل خاموش نہیں ہوگا، الجزیرہ خاموش نہیں ہوگا، ہم اس کی ابھی ضمانت دیتے ہیں'۔

اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

مذکورہ عمارت میں میڈیا کے علاوہ دیگر شعبوں کے دفاتر بھی قائم تھے اور کئی اپارٹمنٹس پر مشتمل تھی۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں جاں بحق فلسطینیوں کی تعداد 122 ہوگئی

قبل ازیں اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی میں ہی گنجان آباد مہاجر کیمپ کو پر ایک اور کارروائی کرتے ہوئے کم ازکم 10 فلسطینیوں کو نشانہ بنایا تھا جہاں خواتین اور بچے بھی جاں بحق ہوگئے تھے۔

غزہ پر اسرائیلی حملے

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے تھے جبکہ غزہ سے تقریباً 1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے عید الفطر کے روز بھی غزہ میں بلند و بالا عمارتوں اور دیگر مقامات پر مزید فضائی حملے کیے، جس کے نتیجے میں پیر سے اب تک جاں بحق افراد کی تعداد 103 تک پہنچ گئی جس میں 24 بچے بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین کی صورتحال پر او آئی سی کی وزارتی کمیٹی کا اجلاس طلب

مشرق وسطیٰ میں امن عمل کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کے فضائی حملوں اور حماس کے راکٹ کی وجہ سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی صورتحال 'وسیع پیمانے پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے'۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں