کوئٹہ: جوائنٹ ونچر پر مشتمل ایک مقامی کمپنی نیشنل ریسورسز پرائیویٹ لمیٹڈ (این آر ایل) نے مربوط دستاویزات کے ساتھ جامع تجاویز بلوچستان منرل ایکسپلوریشن کمپنی (بی ایم ای سی) کو پیش کردی ہیں کہ پہلے تنجیل اور پھر ریکو ڈیک منصوبے مکمل کیے جائیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ، بلوچستان کے عہدیداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بی ایم ای سی-بلوچستان حکومت کا مشترکہ منصوبہ (90 فیصد) اور حکومت پاکستان (10 فیصد) اور مراعات رکھنے والے ای ایل 199 (ریکو ڈیک اور تنجیل ذخائر پر مشتمل) کو این آر ایل کی جانب سے ایک تجویز موصول ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: ریکوڈک لیز کیس: پاکستان پر عائد 6 ارب ڈالر جرمانے پر حکم امتناع

بی ایم ای سی کے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ بی ایم ای سی کو ریکو ڈیک اور تنجیل کے ذخائر کی ترقی سے متعلق تجاویز موصول ہوئی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ این آر ایل دراصل عارف حبیب ایکویٹی (نجی) لمیٹڈ، ماری پیٹرولیم کمپنی لمیٹڈ، لبرٹی ملز لمیٹڈ، ریلائنس کموڈٹیز (نجی) لمیٹڈ (فاطمہ گروپ)، وائی بی پاکستان لمیٹڈ (لکی گروپ) اور ساؤتھ ویسٹرن مائننگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ پر مشتمل مشترکہ منصوبے کی کمپنی ہے۔

این آر ایل کے چیف ایگزیکٹو افسر شمس الدین اے شیخ نے کہا کہ بی ایم ای سی بورڈ کو ایک ابتدائی پیش کش میں این آر ایل نے اپنی تجویز کی نمایاں خصوصیات پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کا پاکستان اور اس کی معیشت کی ترقی میں نمایاں کردار ہے۔

شمس الدین اے شیخ نے بتایا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت تنجیل اور ریکو ڈیک کے ذخائر کی ترقی کے ذریعے این آر ایل کو اُمید ہے کہ وہ اس خطے میں ترقی کے ایک نئے دور کی شروعات کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ریکوڈک کیس: نیب نے سرکاری افسران، غیر ملکی کمپنیوں کے خلاف ریفرنس دائر کردیا

انہوں نے مزید کہا کہ چاغی کے علاقے میں زبردست صلاحیت اور وسیع معدنی وسائل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے میں کان کنی کے شعبے کی ترقی کے علاوہ پورے علاقے کے لیے ایک مکمل معاشرتی ترقی پیکیج ہوگا۔

شمس الدین اے شیخ نے کہا کہ ہم نے بی ایم ای سی بورڈ سے بھی درخواست کی ہے کہ این آر ایل کو معدنی وسائل اور توانائی اور پانی کے وسائل کی مزید تحقیقات کرنے کی اجازت دی جائے جو مجوزہ منصوبے کی جلد تکمیل کے لیے درکار ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ این آر ایل نے تمام مطلوبہ دستاویزات اور فزیبلٹی اسٹڈی کے ساتھ اپنی جامع تجویز پیش کیں کیونکہ مقامی مالی اعانت اور تکنیکی جانکاری رکھنے والی یہ کمپنی کان کنی کے علاقے کو ترقی دینے اور اس میں شامل امور کو حل کرنے میں بلوچستان حکومت کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میں 6 ریکو ڈیک کے معاملات میں عالمی عدالت کی جانب سے عائد 6 ارب ڈالر جرمانے بھی شامل ہیں۔

شمس الدین اے شیخ نے کہا کہ ابتدائی طور پر ذخائر کی ترقی پر کام شروع کرنے کے لیے 5 سے 6 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی لیکن اس کے بعد مزید سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

مزیدپڑھیں: ریکوڈک کیس: پاکستان پر ہرجانہ نافذ کرنے کیلئے کمپنی کا ورجن آئی لینڈ کی عدالت سے رجوع

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بی ایم ای سی بورڈ اور عہدیداروں کا رد عمل بہت مثبت ہے اور انہوں نے این آر ایل کو یقین دلایا کہ معاملے پر مشاورت کی جائے گی اور صوبے اور ملک کے بہترین مفاد میں قوانین کے مطابق اس معاملے کو نمٹایا جائے گا۔

واضح رہے کہ ریکو ڈک جس کا مطلب بلوچی زبان میں 'ریت کا ٹیلہ' ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ایک چھوٹا گاؤں ہے جو ایران اور افغانستان سرحد کے قریب واقع ہے۔

ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے پانچویں بڑے ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

جولائی 1993میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے ریکو ڈک منصوبے کا ٹھیکہ آسٹریلوی کمپنی پی ایچ پی کو دیا تھا۔

بلوچستان کے 33 لاکھ 47 ہزار ایکڑ پر واقع اس منصوبے کا معاہدہ صرف ڈرلنگ کے لیے ہوا تھا لیکن آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لیے بغیر مزید کام کرنے کے لیے اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے معاہدہ کرلیا تھا۔

آسٹریلوی کمپنی نے کوشش کی تھی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈک کا سونا اور تانبہ کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے جس سے بلوچستان کو مجموعی آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔

تاہم بلوچستان حکومت نے پی ایچ پی کی جانب سے بے قاعدگی کے بعد معاہدہ منسوخ کردیا تھا، بعد ازاں صوبائی حکومت نے 2010 میں یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے پر خود کام کرے گی۔

علاوہ ازیں جنوری 2013 میں اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچستان حکومت اور آسٹریلوی مائننگ کمپنی کے درمیان ریکوڈک معاہدے کو ملکی قوانین کے منافی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں