اسرائیل کی غزہ پر پیر کی صبح بھاری بمباری، ’ہسپتالوں تک جاتی تمام سڑکیں تباہ‘

اپ ڈیٹ 17 مئ 2021
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 بچے اور 34 خواتین سمیت 200 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ 
—فوٹو: اے پی
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 بچے اور 34 خواتین سمیت 200 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ —فوٹو: اے پی

فلسطین میں اسرائیلی حملے جاری رکھنے سے متعلق اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کے بعد تل ابیب کے جنگی طیاروں کے حملے دوسرے ہفتے میں داخل ہوگئے ہیں اور غزہ پر پیر کی صبح تازہ حملوں کے نتیجے میں ہسپتالوں تک جانے والی تمام سڑکیں تباہ ہوگئی ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق مسلسل 10 منٹ تک جاری رہنے والے حالیہ فضائی حملوں سے غزہ شہر شمال سے جنوب تک لرز اٹھا۔

مزید پڑھیں: اسرائیل: یہودی عبادت گاہ میں حادثہ، 2 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی

تازہ ترین اسرائیلی حملے گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور وسیع پیمانے پر کیے گئے۔

رپورٹ کے مطابق 24 گھنٹے قبل ہونے والے حملے، جس میں 42 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے، کے مقابلے میں آج ہونے والے حملے زیادہ خطرناک تھے۔

غزہ کی پٹی میں ہفتے بھر سے جاری اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک 58 بچے اور 34 خواتین سمیت 201 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے غزہ میں حماس کے 9 کمانڈروں کے گھروں پر حملے کیے۔

یہ بھی پڑھیں: سلامتی کونسل کا اسرائیل پر حملوں، فلسطینیوں کے انخلا کو روکنے پر زور

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے تازہ ترین حملوں میں مرکزی ساحلی سڑک، سیکیورٹی کمپاؤنڈز اور کھلی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا۔

بجلی کی تقسیم کار کمپنی نے بتایا کہ اسرائیل کے فضائی حملوں سے غزہ کے بجلی گھر سے جنوبی غزہ شہر کے بڑے حصوں تک بجلی فراہم کرنے والی ایک لائن کو نقصان پہنچا ہے۔

اتوار کو ٹیلیویژن خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ اسرائیل کے حملے 'پوری قوت' سے جاری ہیں اور جب تک ضرورت پڑی حملے جاری رہیں گے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل حماس سے 'بھاری قیمت وصول کرنا چاہتا ہے'۔

دوسری جانب اتوار کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں اسرائیل کی پرتشدد کارروائیوں سے متعلق تبادلہ خیال ہوا لیکن معاملے پر عدم اتفاق کے نتیجے میں مشترکہ بیان جاری نہیں ہوسکا۔

مزید پڑھیں: القدس کی مکمل آزادی تک سلامتی و استحکام ممکن نہیں، او آئی سی

علاوہ ازیں چین نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ واشنگٹن ہی کونسل کو 'مشترکہ بیان' دینے سے روکتا ہے۔

سیو دی چلڈرن نامی این جی او کے مطابق پیر کے روز اسرائیلی حملوں سے غزہ میں ہر گھنٹے میں تقریباً 3 بچے زخمی ہوئے ہیں۔

گزشتہ ہفتے کے دوران غزہ کے علاقے میں کم سے کم 58 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ اتوار تک غزہ میں ہونے والے حملوں میں ایک ہزار سے زیادہ افراد، جن میں 366 بچے بھی شامل ہیں، زخمی ہوئے ہیں۔

فلسطین پر اسرائیلی حملے

خیال رہے کہ رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس پر پاکستان نے شدید مذمت بھی کی ہے۔

مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2017 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔

یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 121 فلسطینی زخمی ہوئے، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے جبکہ اسرائیلی فورسز کے مطابق ان کے 17 اہلکار زخمی ہوئے۔

بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔

10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کاررائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔

اسرائیلی فوج کے حملے کے نتیجے میں 300 فلسطینی شہریوں کے زخمی ہونے کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔

اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں حماس کے کمانڈر سمیت 25 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 11 مئی کی شب بھی اسرائیلی فضائیہ نے ایک مرتبہ پھر راکٹ حملوں کو جواز بنا کر غزہ میں بمباری کی جس کے نتیجے میں 13 بچوں سمیت جاں بحق افراد کی تعداد 43 تک پہنچ گئی، یہ راکٹ حملے بھی حماس کی جانب سے کیے گئے تھے جس میں 5 اسرائیلیوں کے ہلاک اور متعدد کے زخمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

غزہ کی وزارت صحت نے 12 مئی کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فضائی کارروائیوں میں جاں بحق افراد کی تعداد 48 ہوگئی ہے جن میں 14 بچے شامل ہیں اور زخمیوں کی تعداد 300 سے زائد ہوگئی ہے۔

دوسری جانب 6 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے جبکہ غزہ سے تقریباً1500 راکٹ فائر کیے گئے اور اسرائیل میں مختلف مقامات نشانہ بنائے گئے۔

اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق 7 سے 10 مئی تک مشرقی بیت المقدس میں اسرائیلی فورسز کی پُرتشدد کارروائیوں میں ایک ہزار فلسطینی زخمی ہوچکے تھے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر پرتشدد کارروائیوں کے بعد عالمی برداری کی جانب سے ان حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔

مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ حساس تصور کیے جانے والی مسجد الاقصیٰ اس وقت سے تنازع کی زد میں ہے جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس کے مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور اسے بعد میں اسرائیل کا حصہ بنا لیا تھا، اسرائیلی پورے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت اور یہودیوں کے عقائد کا مرکز قرار دیتے ہیں لیکن فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں