پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ایک مرتبہ پھر اپنی 'جنم بھومی' یعنی متحدہ عرب امارات پہنچ چکی ہے۔ چھٹے سیزن کے باقی ماندہ مقابلوں کے آغاز میں ہی اندازہ ہوچکا ہے کہ کس میں کتنا دم ہے؟ اب تک سوائے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے تمام ہی ٹیمیں ابوظہبی میں کم از کم ایک مقابلہ کھیل کر اپنا دیدار کروا چکی ہیں اور لگتا یہ ہے کہ قلندروں کو ’حال‘ آیا ہوا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور قلندرز نے پچھلے سال پی ایس ایل فائنل تک رسائی حاصل کی تھی، لیکن شاید ہی کسی نے یہ سوچا ہوگا کہ وہ چھٹے سیزن کا آغاز 6 میچوں میں 5 کامیابیوں کے ساتھ کریں گے اور پوائنٹس ٹیبل پر سب سے اوپر ہوں گے۔ یہی نہیں بلکہ اب تو یہ لگتا ہے کہ اگر کسی ٹیم سے سب کو خطرہ لاحق ہے تو وہ لاہور قلندرز ہی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا نے جہاں لیگ انتظامیہ کے لیے مسائل کھڑے کیے اور شائقین کو مایوس کیا وہیں کئی ٹیموں کو بھی سخت پریشانی سے دوچار کیا ہے۔ بہت سے کھلاڑی جو مارچ میں دستیاب تھے اب میسر نہیں۔ لیکن چند ٹیموں کے لیے یہ تعطل رحمت ثابت ہوا ہے۔

اس بات کو یوں سمجھیے کہ لاہور قلندرز کو ڈیوڈ ویزے اور جو ڈینلی کی کمی تو محسوس ہو رہی ہوگی لیکن نئے آنے والے کھلاڑی جو کھیل پیش کر رہے ہیں وہ جاندار بھی ہے اور شاندار بھی۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل کی امارات واپسی چند ٹیموں کے لیے نیک شگون؟

مثلاً پشاور زلمی کے خلاف اہم مقابلے میں جیمز فالکنر ہی کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے پہلے میچ کے انتہائی نازک مرحلے پر 7 گیندوں پر 22 رنز کی اہم اننگ کھیلی اور پھر حریف ٹیم کے دونوں اوپنرز حیدر علی اور کامران اکمل کو ٹھکانے لگا کر لاہور کی کامیابی کی بنیاد رکھی۔

پھر ٹم ڈیوڈ، جنہوں نے تب اننگ سنبھالی جب لاہور کے 4 بیٹسمین صرف 25 رنز پر آؤٹ ہوچکے تھے، تب انہوں نے محض 36 گیندوں پر 5 چھکوں اور 3 چوکوں کی مدد سے ناقابلِ شکست 64 رنز بنائے۔ اور آخر میں سب سے بڑھ کر راشد خان، جو پاکستان میں ہونے والے میچوں کے دوران ہی قومی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے وطن واپس چلے گئے تھے، اب پوری شان کے ساتھ دوبارہ جلوہ گر ہیں اور پشاور کے خلاف مقابلے میں صرف 20 رنز دے کر 5 کھلاڑی آؤٹ کیے اور ’مردِ میدان‘ کا اعزاز حاصل کیا۔

لاہور کو اِس وقت جو ایک مسئلہ درپیش ہے وہ ٹاپ آرڈر بیٹنگ کا ہے۔ ان دونوں مقابلوں میں لاہور کے ابتدائی بیٹسمین توقعات پر پورے نہیں اتر پائے ہیں۔ لوئر آرڈر نے کسی حد تک اس خامی کو چھپا رکھا ہے اور پشاور کے خلاف تو آخری 5 اوورز میں 74 رنز بناکر گویا میچ کا فیصلہ ہی کردیا۔ تاہم آئندہ میچوں میں جہاں نچلے بلے باز نہ چل پائے تو لاہور کی شکست یقینی ہوگی۔

بہرحال، پشاور کے خلاف کامیابی نے تو ’دشمنوں‘ کو بھی قائل کرلیا ہوگا کہ اگر کسی ٹیم کا تال میل اس وقت بہترین ہے تو وہ لاہور ہی ہے۔ صرف 25 رنز پر 4 وکٹیں گر جانے کے بعد، جس میں فخر زمان اور محمد حفیظ بھی شامل تھے، میچ میں واپسی کے امکانات صفر ہوں، تب مقابلے کی دوڑ میں نہ صرف واپس آنا بلکہ حریف کو حواس باختہ کردینا لاہور کی تیاریوں اور عزم کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتا ہے۔

دوسری جانب کراچی ہے جس نے لیگ کے امارات پہنچنے سے پہلے پوائنٹس ٹیبل پر پہلی پوزیشن پر قبضہ جمایا ہوا تھا، اس کراچی کی اپنے پہلے مقابلے میں کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی، جبکہ ملتان سلطانز نے کراچی سے اپنی پچھلی شکست کا خوب بدلہ لیا اور یوں قیمتی 2 پوائنٹس حاصل کرلیے۔

سلطانز کے لیے یہ کامیابی اس لیے بہت ضروری تھی کیونکہ اب تک وہ 5 میچوں میں صرف ایک کامیابی حاصل کر پائے تھے اور ان 2 پوائنٹس نے ان کی امیدوں کا چراغ بجھنے سے بچا لیا ہے۔ گوکہ انہیں اب بھی باقی ماندہ تقریباً سارے ہی میچ جیتنے ہوں گے، تب جاکر اگلے مرحلے تک رسائی کا کوئی امکان ہوگا لیکن فی الحال یہ کامیابی ان کے لیے سکھ کا سانس ثابت ہوگی۔

البتہ امارات میں کراچی کا آغاز اچھا نہیں رہا۔ ٹاس جیتا، ملتان کو کھیلنے کی دعوت دی اور پہلے 10 اوورز ہی میں 107 رنز کھا لیے۔ اگر تھیسارا پیریرا رائلی روسو کو ٹھکانے نہ لگاتے اور اسی اوور میں محمد رضوان رن آؤٹ نہ ہوتے تو بلاشبہ ملتان 200 رنز کی نفسیاتی حد عبور کرجاتا۔ لیکن آخر میں خوشدل شاہ کے 44 رنز نے اسے 176 رنز تک ضرور پہنچایا۔

حریف کو اندازوں سے تقریباً 30 رنز کم پر روک لینے کے بعد کراچی کو یقین تھا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سلطانز کو چت کردیں گے لیکن ابتدا ہی سے اس کی بلے بازی مشکلات سے دوچار نظر دی۔ جس فیصلہ کن آغاز کی ضرورت تھی وہ مل ہی نہیں سکا۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ٹیم کے سب سے اچھے بیٹسمین بابر اعظم اپنی ابتدائی 9 گیندوں پر ایک رن بھی نہیں بنا پائے بلکہ ایک گیند پر تو ایل بی ڈبلیو ہونے سے بھی بال بال بچے۔

ہوسکتا ہے کہ چند حلقے بابر کی 45 گیندوں پر نصف سنچری کو شکست کا سبب قرار دیں لیکن یہ دراصل کراچی کے لوئر مڈل آرڈر کی ناکامی تھی، جس کی وجہ سے اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ بابر نے اپنی سی پوری کوشش کی، 63 گیندوں پر ناٹ آؤٹ 85 رنز بنائے لیکن آخری 10 گیندوں پر جب 26 رنز کی ضرورت تھی تو کنگز کو عماد وسیم اور پیریرا سے امیدیں تھیں، لیکن یہ دونوں صفر پر آؤٹ ہوئے اور آخر میں قاسم اکرم کی کوششیں بھی ناکام ہوئیں اور 12 رنز سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

آخری بار جب بابر پر سُست کھیلنے کا الزام لگا تھا تو کیا ہوا تھا؟ انہوں نے اسی سیزن کے ایک مقابلے میں اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف 54 گیندوں پر صرف 62 رنز بنائے تھے اور کراچی کو شرجیل خان کی سنچری کے باوجود شکست ہوئی تھی۔ بابر نے اس ہار کو اتنا سنجیدہ لے لیا کہ اگلے میچوں میں ملتان کے خلاف 60 گیندوں پر 90 اور پھر پشاور کے خلاف 47 گیندوں پر 77 رنز کی دو ناقابلِ شکست اننگز کھیل ڈالیں اور دونوں مقابلے جتوائے۔

مزید پڑھیے: قلندرز بمقابلہ یونائیٹڈ: وہ غلطیاں جو دونوں ٹیموں کو دور کرنی ہوں گی

بلاشبہ کراچی کو بیٹنگ لائن میں کولن انگرام، محمد نبی اور ڈین کرسچن کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہوگی۔ بہرحال، معاملات اب بھی ان کے ہاتھ میں ہیں اور فی الحال ’گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے‘۔

ویسے اب تک ابوظہبی میں جس طرح کی وکٹیں اور کنڈیشن میسر آئی ہیں، ان سے ہمیں گیند اور بلے کے درمیان ایک اچھا مقابلہ نظر آرہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں ہونے والے مرحلے کی طرح میچ کا فیصلہ ٹاس پر ہی ہو رہا ہو۔ تب ہر ٹیم ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کر رہی تھی اور ہدف کا تعاقب کرکے کامیابی سمیٹ رہی تھی۔ کسی ٹیم سے 200 رنز کے ہدف کا بھی دفاع نہیں ہو پا رہا تھا۔ ابتدائی 14 میں سے 13 میچوں میں ان ٹیموں نے کامیابی حاصل کی جنہوں نے ٹاس جیتا اور ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ لیکن یہاں ٹاس جیتنے والوں کے ارمان پورے نہیں ہو رہے، جو سمجھ رہے تھے کہ دوسری اننگ میں اوس پڑے گی اور حریف باؤلرز کو پریشانی ہوگی۔

ابوظہبی میں ہمیں تیز اور اسپن دونوں باؤلرز اچھی کارکردگی پیش کرتے نظر آرہے ہیں۔ فاسٹ باؤلرز کو سوئنگ مل رہا ہے اور اسپنرز کو وکٹ سے ٹرن۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ بلے بازوں کے لیے کچھ نہ ہو، صرف 3 میچوں میں کئی عمدہ اننگز دیکھنے کو ملی ہیں یعنی ہر لحاظ سے متوازن مقابلے ہو رہے ہیں۔ اس لیے توقع یہی ہے کہ اگلے میچ بھی بہت سنسنی خیز ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں