حکومت بجٹ کے اعدادوشمار میں ہیرپھیر کر کے عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے، شاہد خاقان

اپ ڈیٹ 13 جون 2021
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف حکومت کے تیسرے بجٹ کو اے ٹی ایم بجٹ قرار دیا — فوٹو: ڈان نیوز
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے تحریک انصاف حکومت کے تیسرے بجٹ کو اے ٹی ایم بجٹ قرار دیا — فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو اس کے 'ناقابل عمل مالی اہداف' کے حامل بجٹ پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد میں فیصلہ سازوں نے عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے مالی سال 22-2021 کے بجٹ میں اعداوشمار میں ہیر پھیر کی۔

اتوار کو پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نئے بجٹ میں 383 ارب روپے مالیت کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، ان میں سے بالواسطہ ٹیکسوں کی رقم 265 ارب روپے ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ غریبوں کو اسے بھی برداشت کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: بجٹ 2022ء: معیشت کی درستی کی جانب پہلا قدم

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے آمدنی پیدا کرنے کے دعوؤں کے حوالے سے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کسی ٹھوس ذرائع کی نشاندہی نہیں کی گئی۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنے پچھلے تین سالوں میں حکومت اپنی خالص آمدنی میں 20 فیصد کا بھی اضافہ نہیں کرسکی اور اب ان کا دعویٰ ہے کہ وہ نئے مالی سال میں 24 فیصد اضافہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نجکاری کے ذریعے 252 ارب روپے وصول کرے گی لیکن ہم اثاثے بیچ کر آمدنی پیدا نہیں کر سکتے۔

'اے ٹی ایم بجٹ'

سابق وزیر اعظم نے اسے 'اے ٹی ایم بجٹ' قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان لوگوں کو فائدہ ہوا جنہوں نے قومی دولت لوٹ لی اور چینی کی قلت پیدا کی، انہوں نے الزام لگایا کہ یہ بجٹ دوستوں کے لیے بنایا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے سوال کیا کہ صوبے کس طرح اپنے ترقیاتی کاموں کو روک کر محصول تقسیم کریں گے، صوبائی سرپلس پہلے 240 ارب روپے تھا اور اب یہ 570 ارب روپے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 2022ء میں نوجوانوں کے لیے کیا ’خاص‘ ہے؟

انہوں نے بتایا کہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) محصولات کی پیداوار کے لیے ایک اہم شعبہ ہے اور حکومت نے اس پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا ہے، انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کم از کم 30 روپے کا اضافہ کیے بغیر ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

عباسی نے مزید وزیر خزانہ سے 2018 اور موجودہ برآمدی اعداد و شمار کے موازنے کو عام کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب مسلم لیگ (ن) اقتدار میں تھی تو پاکستان 6 فیصد ترقی کرچکا تھا اور تجارتی خسارہ 35 ارب روپے تھا جبکہ اب یہ 30 ارب روپے ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب کوئی ترقی نہیں ہورہی ہے۔

انہوں نے حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر فصلوں کے حصول کے دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی بھی کھانے کی اشیا کے خالص درآمد کنندہ ہیں لہٰذا فصلوں کی بڑے پیمانے پر نمو کیسے ہوئی؟ ہماری کپاس کی پیداوار ایک کروڑ 20 لاکھ سے 70 لاکھ گانٹھوں تک ہے، کیا آپ اسے بمپر فصل کہتے ہیں؟

انہوں نے الزام لگایا کہ بجٹ کے اعدادوشمار در حقیقت حکومت کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ اگلا بجٹ پیش ہونے تک ایک اور وزیر خزانہ ہو گا۔

مزید پڑھیں: بجٹ میں پینشن میں 10 فیصد اضافہ، کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر

انہوں نے کہا کہ حکومت کے تین سالوں میں دو کروڑ افراد خط غربت سے نیچے آچکے ہیں، بڑھتے ہوئے بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں کمی کے لیے موجودہ حکمرانوں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعمیراتی مافیا کو بنیادی فوائد مل رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے الزام لگایا کہ حکومت نے لوگوں کو ایسے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دی ہے جس میں عام معافی ہے اور کالے دھن والے گھروں کو خرید رہے ہیں جبکہ غریب اپنے گھر خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

انتخابی اصلاحات کے موضوع پر شاہد خاقان عباسی نے الزام لگایا کہ آخری انتخابات رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم (آر ٹی ایس) کے ذریعے چوری کیے گئے، الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں جو حکومت چاہتی تھی، وہی کام کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے سی پیک اتھارٹی بل کی منظوری اور اس کے سربراہ سے جواب طلبی پر پابندی عائد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کے چیف سے پوچھ گچھ نہیں کرسکتے، اس کے برعکس آپ سابق وزیر اعظم سے پوچھ گچھ کرسکتے ہیں اور ایک اور سابق وزیر اعظم کو مجرم قرار دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بجٹ 21-2020: حکومت نے کراچی کے 3 ہسپتالوں کیلئے 14 ارب روپے مختص کردیے

اس موقع پر سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ نجکاری کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو استعمال کرنے کا حکومت کا فیصلہ سراسر غلط اقدام ہوگا، یہ ایسا ہے کہ ایک تاجر جو روزانہ ایک لاکھ روپے کماتا ہے اور اپنی ذاتی کار فروخت کرتا ہے، تو وہ اپنی آمدنی میں اپنی گاڑیوں کی فروخت کا حساب نہیں رکھے گا، حکومت اس کے برعکس اثاثوں کی فروخت کر کے حاصل ہونے والی آمدن کو آمدنی میں شامل کررہی ہے۔

مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ حکومت بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کر سکتی تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں