جب لوگ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ جناب، آپ کی اردو تو بہت اچھی ہے تو ہم اچھی خاصی شرمندگی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں بتاتے ہیں کہ دراصل آج کل لوگوں کی اردو بہت خراب ہوگئی ہے۔ ایسے میں ہم 4 لفظ اگر ڈھنگ سے بول لیتے ہیں، کچھ لفظوں کی بُنت اور درست تراکیب کا کچھ سلیقہ جان گئے ہیں تو اس میں واقعی ہماری کوئی بڑائی نہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی تیر مارا ہے۔

بس یہ ہماری امی کی تربیت، محنت اور اس کے ساتھ ماہ نامہ 'ہمدرد نونہال' کا ثمر ہے۔ تبھی ہم نے کبھی اسکول میں 'اردو' کے املے کی تیاری نہیں کی، ہمیں یہ اعتماد رہا کہ درسی کتب میں سے کہیں سے بھی املا کرا دیا جائے، ہم لکھ ہی لیں گے۔ تبھی اردو کے پرچوں میں ہمارے 2 مرتبہ 99 نمبر آئے۔ چھٹی جماعت میں مرحوم سر سلیم منصوری نے کلاس کو 'قسطنطنیہ' لکھ کر دکھانے کا کہا، تو ہم نے اس نئے لفظ میں فقط آخر میں الف لکھنے کی غلطی کی تھی۔

بزرگوں کی بات کیجیے تو ہم میں یہ لکھنے پڑھنے کا اصل ورثہ ہماری امّاں (نانی) سے منتقل ہوا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہم ہمیشہ 'گَرد' کو 'گِرد' کہتے تھے، تو وہ ہر بار ہماری گرفت فرماتیں کہ یہ دونوں تو یکسر الگ الگ لفظ ہیں۔ ایسے ہی جب ہم 'میدے' اور 'معدے' کو خلط ملط کرتے، تو وہ ہمارے غلط تلفظ کی اصلاح کیا کرتی تھیں۔

پڑھیے: اردو میں عجیب و غریب اضافتوں اور تکرار کا مسئلہ

ہماری اردو سے متاثر ہوکر بہت سے باذوق لوگ ہم سے بہت اعلیٰ پائے کے ادب کے حوالے سے گفتگو کرنے لگتے ہیں، جب کہ ہم ٹھہرے ایک سطحی سی معلومات والے ایک طالب علم! البتہ اسے ہماری خوش نصیبی کہہ لیجیے کہ ہمیں کچھ ایسے اساتذہ اور بزرگوں کی قربت حاصل رہی اور اب بھی حاصل ہے، جو آج بھی ہماری تحریر کی باقاعدہ فون کرکے تصحیح کرتے ہیں، ہماری تراکیب درست کراتے اور روزمرہ سنوارتے ہیں۔

ایسا ہی کچھ گزشتہ دنوں ہوا کہ جب حسبِ روایت ممتاز ادیب اور زبان و بیاں پر بہترین عبور رکھنے والے ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے ہماری ایک اخباری تحریر پر اصلاح فرمائی۔ آئیے اس درستی میں آپ کو بھی ساجھے دار کیے دیتے ہیں۔

ہم نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ 'رات کے کوئی 12 بجے کے قریب کا وقت تھا' اب اس فقرے پر غور کیجیے تو 'کوئی' کے بعد 'قریب' کی ضرورت بالکل نہ تھی۔ درست جملہ یوں ہوتا کہ 'رات کے کوئی 12 بجے تھے'۔

اسی تحریر میں اردگرد کے ماحول کے زیرِ اثر ایک جملہ ہم بھی ایسا لکھ گئے کہ 'گاڑی پر ٹارچ مارتے ہوئے'۔ انہوں نے فرمایا کہ بھئی یہ 'ٹارچ مارنا' کون سی زبان ہے؟ 'ٹارچ کی روشنی ڈالتے ہوئے' لکھنا چاہیے تھا۔ پھر اسی تحریر میں 'کہا' کے بجائے 'بولا' کا سہو تو ہم سے جانے کیسے سرزد ہوگیا، ہم بہت دھیان رکھتے ہیں کہ بولتے تو جانور ہیں، انسان کے لیے تو 'کہنا' لکھنا چاہیے۔

اسی طرح وہ پہلے ہمیں یہ بتا چکے کہ 'سہولیات' یا 'تحاریر' نہیں، بلکہ سہولتیں یا تحریریں زیادہ واضح، درست اور فصیح الفاظ ہیں۔ ایسے ہی ایک تحریر پڑھ کر فرمایا کہ کسی شخص کے لیے 'بندہ' نہیں لکھنا چاہیے، بلکہ آدمی لکھو کیونکہ بندہ تو دراصل رب کا ہوتا ہے۔

اردو زبان و بیان کی تصحیح کا باب آج کے زمانے کی ایک دیوقامت شخصیت جناب شکیل عادل زادہ کے تذکرے کے بغیر ادھورا ہے۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی طرح آپ ان کی محفل میں جب بھی بیٹھیں گے، اپنی اردو کی بے شمار غلطیاں درست کرکے اٹھیں گے۔

چند دن پیشتر ہمارے اخبار میں شدید گرمی کے حوالے سے ایک شہ سرخی میں 'پارہ' لکھا گیا تو ان سے رہا نہ گیا، فوراً ہمیں فون کرکے بتایا کہ گول ’ہ‘ کے ساتھ 'پارہ' تو کسی چیز کے چھوٹے سے جزو یا حصے کو کہتے ہیں۔ جیسے 'نمک پارہ' یا 'شہ پارہ' وغیرہ اور الف والا 'پارا' دراصل تھرما میٹر یا 'حرارت پیما' ہے، اس لیے محاورتاً گرمی میں یا کسی شخص کا غصے میں پارا چڑھنا بھی الف سے ہی درست ہوگا۔

پڑھیے: اردو اپنے آپ بدل جائے گی، اِسے آپ نہ ’بدلیے‘

'بی بی سی' لندن سے وابستہ رہنے والے مشہور صحافی شفیع نقی جامعی صاحب کے ہاتھوں بھی ہماری زبان کی ایک درستی کا مرحلہ طے ہوا کہ 'اللہ نہ کرے' تو دراصل 'عورتوں کی زبان' ہے۔ اب بتائیے، کہ آج کیا ہم عورتوں اور مردوں کی زبان میں کوئی فرق کرسکتے ہیں۔ ایک ہی زبان کی بہ لحاظ صنف، الگ الگ بولی اس عجیب طریقے سے خلط ملط ہوئی ہے کہ اب ہماری خواتین بھی بڑھ چڑھ کر مردوں کے سے اندازِ تکلم اپنا رہی ہیں، تو ہم یہ تفریق کیسے کریں لیکن بہرحال وضع دار لوگ آج بھی اس کا خوب دھیان رکھتے ہیں۔

ممتاز صحافی اور روزنامہ ایکسپریس کے میگزین مدیر احفاظ الرحمٰن (مرحوم) نے یوں تو ہماری زبان و بیان کی بے شمار اصلاحات کیں لیکن سرِدست ہمارے ایک صفحے کے پروف پر ان کی یہ درستی ہمیشہ کے لیے نقش ہوگئی کہ 'چولہا' گول ہ سے نہیں، بلکہ دو چشمی ھ سے ہے۔ 'چولھا'۔۔۔ اگر دیکھیے تو یہ کس قدر خفیف سی بات ہے، لیکن زبان کے معیار اور بہتری کی بات ہے کہ احفاظ صاحب نے اتنی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ہمیں سکھانا چاہیں۔

زبان کے حوالے سے ممتاز نقاد انور احسن صدیقی کے بہت سے اصلاحی کالم پڑھ کر ہماری یہ تربیت ہوئی کہ 'مشکور' تو وہ ہوتا ہے کہ جس کا شکریہ ادا کیا جائے، اس لیے جو شکریہ ادا کرے، اسے 'مشکور' کے بجائے 'شکر گزار' کہنا چاہیے۔ انہی کے کالم سے ہمیں یہ پتا چلا کہ جب 'انٹینا' آیا تو اس کا آسان اور خوبصورت ترجمہ 'موج گیر' کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے یہ رائج ہی نہ ہوسکا۔

اسی طرح 'جاسوسی ڈائجسٹ' کے کمپیوٹر سیکشن میں اپنی زندگی کی دوسری ملازمت کرتے ہوئے وہاں زبان و بیاں کے پیچ وخم پر گہری نظر رکھنے والے اظہر بھائی مرحوم کی صحبت میں بھی ہماری اردو کے بے شمار الفاظ درست ہوئے۔ انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ 'ایکسرے' کا بہت خوبصورت اور سہل ترجمہ 'عکس ریز' کیا گیا تھا۔

ہمدرد نونہال کے عہد ساز مدیر جناب مسعود احمد برکاتی نے اپنے ایک اداریے 'پہلی بات' کے ذریعے کم سنی میں ہی ہمیں 'السلام علیکم' کا درست املا ازبر کرا دیا، کہ پھر کبھی 'اسلام علیکم' یا 'اسلام وعلیکم' نہیں لکھا۔ اسی طرح نونہال میں 'ادائیگی' کو 'ادائی' لکھا جاتا، اور توتے کو 'ط' کے بجائے 'ت' سے لکھا جاتا، جس پر اعتراض تو ہم نے ان سے پہلی ملاقات میں ہی کیا تھا، لیکن انہوں نے جھٹ لغت اٹھاکر دکھا دی تھی کہ دیکھیے 'توتا' ہی درست ہے۔ اسی طرح 'گھر کا پتہ' کے بجائے 'پتا'، 'امریکہ' اور 'افریقہ' کے بجائے 'امریکا' اور 'افریقا' لکھنے کی صلاح بھی حکیم محمد سعید کی کتابوں اور مسعود برکاتی کے 'ہمدرد نونہال' ہی کی سوغات ہیں۔

پڑھیے: اردو لکھتے ہوئے کی جانے والی 12 بڑی غلطیاں

'میں نے جانا ہے' اور 'انہوں نے آنا ہے' کی پختہ غلطی کو 'مجھے جانا ہے' اور 'انہیں آنا ہے' کرکے ہمارے میگزین انچارج اور منفرد شاعر اور نثرنگار محمد عثمان جامعی نے سلجھایا۔ 'نے' کے ساتھ 'آنا، کھانا، بتانا وغیرہ کا استعمال ہمارے گھروں کی بولی میں پیدا ہونے والا ایک بگاڑ تھا، جسے اب ہم سدھارنے کے لیے کوشاں ہیں۔

'ابھی بھی' اور 'کبھی بھی' کو 'اب بھی' اور 'کبھی' جیسی اصلاح ہمارے دفتری ساجھے دار رہنے والے سینئر انٹرویو نویس اور افسانہ نگار اقبال خورشید سے ربط و ضبط کا نتیجہ ہے۔

ہمارے حلقے کے ایک اور باذوق بزرگ جناب اقبال راجا نے ہماری تحریروں کی اصلاح کرتے ہوئے بتایا کہ درست لفظ 'ہم شیر' ہے، 'ہم شیرہ' نہیں اور معنوی اور تکنیکی اعتبار سے یہ صرف بہن کے لیے نہیں، بلکہ بھائی کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کے معنی 'دودھ شریک' کے ہیں۔

انہوں نے 'مِن وعن' میں 'م' کے نیچے زبر کو زیر سے بھی بدلوایا۔ یہ وہ غلطی ہے کہ جو سبھی کرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے ڈاکٹر رﺅف پاریکھ نے 'اِبلاغ' کو اَبلاغ کہنے پر ہماری تصحیح فرمائی تھی، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ہم 'اِبلاغ عامہ' لکھتے ہوئے الف کے نیچے زیر لگانا کبھی نہیں بھولتے۔

تو جناب، اگر آپ کو ہماری اردو کچھ بہتر معلوم ہوتی ہے تو اس میں اتنے سارے مشاہیر، اساتذہ اور سینئر ساتھیوں کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ ہماری حیثیت تو ایک وسیلے یا مرسل کی ہے کہ جو کچھ ہم سیکھ سکے، وہ آپ کو بھی بتائے دیں اور کچھ بھی نہیں۔

تبصرے (7) بند ہیں

vishal Jul 05, 2021 01:22pm
Behtareen .... apka andaz bayan bht pasand aya .... Qabil taeef hai apka andaz bayan dusron ki tareef ka ....
Rafi Ahmed Jul 05, 2021 03:07pm
نہایت دلچسپ تحریر ہے۔مجھے بھی اردہ صحیح طرح بولے میں خاصی دشواری ہے اور اپنی سی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا، توتا اور طوطا دونوں ہی درست ہیں۔ udb.gov.pk ملاحظہ کیئجے۔
Rafi Ahmed Jul 05, 2021 03:09pm
نہایت دلچسپ تحریر ہے۔مجھے بھی اردہ صحیح طرح بولے میں خاصی دشواری ہے اور اپنی سی کوشش بھی کرتا رہتا ہوں لیکن ایک بات کہنا چاہوں گا، توتا اور طوطا دونوں ہی درست ہیں۔ udb.gov.pk ملاحظہ کیئجے۔
نعمان Jul 05, 2021 06:01pm
بہت خوب
شاہد اسرار صدیقی Jul 06, 2021 03:06am
بہت ہی عمدہ تحریر ہے مختصر مگر جامع انداز میں اردو لکھنے اور بولنے والوں کی اصلاح کی بہترین کوشش بھی۔
Talha Jul 06, 2021 02:59pm
nahin ab hum Urdu nahin Hindustani bolnay kiee koshish kar rahay hain…..
رضوان طاہر مبین Jul 06, 2021 04:44pm
طلحہ صاحب ہماری رائے میں ہندوستانی کوئی الگ زبان نہیں ہے ، سلیقے سے بولیے گا تو یہی اردو ہی سرحد پار ہندوستانی کہی جاتی ہے۔ پھر جب اردو اور ہندی کے درمیان سے اگر رسم الخط کا فرق نکال دیجیے تو آپ دونوں زبانوں کو الگ نہیں کرسکتے، تو ہندوستانی میں کیسے کرسکتے ہیںِ، وہ بھی بولنے میں۔ ۔ ۔