ہمارے محلے میں 3 بھائی رہتے تھے، 'وجاہت'، 'شجاعت' اور 'سخاوت'۔ وجاہت کو دیکھنے کے بعد لوگ بے ساختہ پوچھ بیٹھتے 'آپ کا یہ نام رکھنے کی کوئی ایک وجہ؟'، دوسرے بھائی شجاعت تنہائی، رسوائی اور ہمسائی سمیت ہر ایک سے ڈرتے تھے، 'بھائی' سے تو بہت ہی خائف تھے، خیر اس دور میں 'بھائی' سے تو سبھی خوفزدہ تھے، ان بھائیوں کے برادر خرد سخاوت کا حال فیض صاحب کے مصرعے میں یک لفظی ترمیم کرکے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ

ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ 'سخاوت'

ان برادران کے نام اور اوصاف کے تفاوت نے 'شخصیت پر ناموں کے اثر' کی متھ سے ہمارا ایمان اٹھا دیا۔ پھر ضیا الحق، شریف اور فردوس جیسے بعض شخصیات کے ناموں نے اس بدعقیدگی کو اور مضبوط کیا۔ لیکن جب اخلاق احمد صاحب سے واسطہ پڑا تو نام کے اثر پر ایمان تازہ ہوگیا۔

میری ان سے پہلی ملاقات اخبارِ جہاں کے دفتر میں ہوئی۔ میں صحافت میں چند سال کا تجربہ رکھنے والا ایک سب ایڈیٹر ملک کے سب سے بڑے میگزین کے مدیر کے سامنے بیٹھا تھا۔ میں اپنی تحریروں کی تھپی اور اخبارِ جہاں میں ملازمت کی خواہش لیے وہاں گیا تھا۔ یہ تو یاد نہیں کہ کیا بات ہوئی، اخبارِ جہاں میں ادارتی عملے کی تعداد پوری ہونے کے سبب میرے لیے جگہ نہیں تھی، لیکن اس کے مدیر کی شخصیت میرے دل میں گھر کرچکی تھی۔ واپسی پر ان کی چھاﺅں سی شفقت، لہجے کی نرماہٹ اور مہربان رویہ میرے ساتھ تھے۔

جب اخلاق احمد صاحب سے واسطہ پڑا تو نام کے اثر پر ایمان تازہ ہوگیا
جب اخلاق احمد صاحب سے واسطہ پڑا تو نام کے اثر پر ایمان تازہ ہوگیا

اس کے بعد ان سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن یہ نام جب بھی سامنے آیا ان کی من موہنی شخصیت کے پہلے تاثر نے مجھ میں دھیرے سے آنکھیں کھول دیں۔ پھر ایک مدت بعد بیتے برس جب میرا ناول 'سرسید، سینتالیس، سیکٹر انچارج' شائع ہوا تو کتاب کے بیک ٹائٹل کے لیے تحریر اور اس کی تقریبِ اجراء کے مقررین کے انتخاب کے مرحلے میں میرے لبوں پر آنے والا پہلا نام تھا 'اخلاق احمد'۔ دل میں خدشہ تھا کہ وہ انکار نہ کردیں۔ اقبال خورشید رابطے کا ذریعے بنے، اخلاق صاحب کو مسودہ بھیجا گیا، اور جب میں نے تحریر اور شرکت کی بابت تشفی کے لیے بذریعہ ٹیلی فون ان کی مصروفیات میں رخنہ ڈالا، تو ناول کی ستائش میں ان کے الفاظ مجھے مالال مال کرگئے۔

ایسی کسرنفسی اسی کا خاصہ ہوسکتی ہے جو عزت اور حیثیت کے کسی مصنوعی خول میں نہ رہتا ہو۔ اخلاق صاحب کا ظاہر ان کے چہرے پر سجے صوفیانہ اطمینان، عینک سے جھانکتی ذہانت اور بچوں کی سی بہت معصوم مسکراہٹ سے عبارت ہے۔ یہ مسکراہٹ ان کے شخصی خاکے کی پہلی سطر ہے، جو ان کے افسانوں کے ابتدائی الفاظ کی طرح روک لیتی ہے، انس پیدا کردیتی اور چونکاتی ہے۔ پھر جس طرح افسانے دھیمے پن سے خود کو پڑھواتے چلے جاتے ہیں اسی طرح ان کی شخصیت بھی دھیرج سے عیاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ چلیے ذکر آگیا ہے تو ان کی تخلیقات کے ابتدائیوں پر ایک نظر دوڑالیں:

'بہت دنوں سے ایک کہانی کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہوں'

'رئیس کچھ دنوں سے چُپ ہے'

'یہ کہانی میں بہت جلدی میں لکھ رہا ہوں'

'مسلا ہوا بستر پوری کہانی تھا'

'ایک رات عجیب واقعہ پیش آیا'

'اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے'

'باﺅ وارث ایک روز اچانک گم ہوگیا'

یہ پہلی سطر ہی بتادیتی ہے کہ آپ کو افسانے میں لاکر علامتوں کے سایوں کا تعاقب کرایا جائے گا، نہ نفسیات کی گتھیوں میں الجھایا اور نہ فلسفے کی دقتوں سے گزارا جائے گا، بلکہ لکھنے والا سیدھے سبھاﺅ کہانی سنانا چاہتا ہے۔ پہلی سطر ہاتھ پکڑتی ہے، پھر لفظ قطار در قطار اپنے دائرے میں لیے قاری کو کہانی میں لے جاتے ہیں، اور جب وہ پلٹتا ہے تو یہ کہانی اچھے میزبانوں کی طرح اسے کچھ دان ضرور کرچکی ہوتی ہے۔ کوئی چبھتا ہوا احساس، کوئی کھٹک، کوئی خلش، زندگی کے کسی ایسے زاویے یا گوشے کی تصویر جس میں شاید پڑھنے والے کو اپنی جھلک بھی نظر آجائے۔

پڑھیے: لائٹ ہاؤس کی روشنی، ارجن اور مشرف عالم ذوقی

اخلاق صاحب بہت قریب سے بھی ظالم نہیں لگتے لیکن ہیں بہت سفاک، وہ کتنی سفاکی سے اپنے کرداروں کی چُبھن ہمارے سینوں میں اتار دیتے ہیں۔ جیسے 'اچھے ماموں' مجھے بے چین کیے رکھتے ہیں۔ دل چاہتا ہے انہیں اس چائے خانے سے کھینچ کر نکال لاﺅں جہاں وہ شادی کے کچھ دنوں بعد ہی بھاگ جانے والی اپنی بیوی کی کھوج میں ڈیرا جمائے بیٹھے ہیں۔ اس آس پر کہ کبھی تو چائے خانے سے ملحق گھر کے دروازے پر انہیں چھوڑ جانے والی عورت دکھائی دے گی، جس کے بارے میں انہیں ایمان کی حد تک یقین ہے کہ اسے اسی چائے خانے کے ملباری مالک نے ان سے چھینا ہے۔

یہ کردار اپنی تلاش اور انتظار کی ساری اذیت سمیت پڑھنے والے کے دل و دماغ میں بس جاتا ہے۔ بظاہر تو 'اچھے ماموں کا چائے خانہ' کا عنوان پانے والے اس افسانے میں ماموں کا کردار چھایا ہوا ہے، لیکن چائے خانے کا مالک بھی ایک اچھوتا کردار ہے، جو اپنے اوپر لگایا جانے والا غلط فہمی پر مبنی الزام مدعی کی پوری ذمے داری سمیت نبھارہا ہے۔ کاش اس کردار کو بھی کوئی اخلاق احمد مل جاتا تو ہم وضع داری کی ایک انوکھی کہانی سُن پاتے۔

اس دور میں ہم ایک دوسرے کو بالمشافہ ملاقاتوں سے زیادہ سوشل میڈیا کے توسط سے جانتے ہیں، جہاں ہمارے خیالات، رائے، تبصرے، معمولات اور اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تصاویر ہماری فکر اور زندگی کی کتنی ہی پرتیں کھول دیتی ہیں۔

میں نے جب اخلاق صاحب کی ان کے گھرانے کے ساتھ تصویر دیکھی تو ایک خوشگوار تاثر لیا۔ ایک باہم جُڑا ہوا کنبہ، جس کے ہر فرد کے چہرے پر اپنوں کے ساتھ اور محبت کی آسودگی تھی، ایک گھنے پیڑ جیسا خاندان، جسے دیکھ کر پتا نہ چلے کہ کس شاخ پر کون سی شاخ سایہ فگن ہے۔ پھر دوستوں کے جھرمٹ میں ان کے ہنستے مسکراتے عکس۔ اخلاق صاحب کی یہ معہ اہل وعیال تصویر ان کے افسانے پڑھتے ہوئے میری نظروں کے سامنے لہرا جاتی ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ اپنوں اور دوستوں کی محبت اور خیال کی شادابی میں آسودہ زندگی بسر کرتے شخص کی اکثر کہانیوں میں اکیلے پن کے ماجرے اس کیفیت کے پورے کرب کے ساتھ کیسے اُتر آتے ہیں۔

چائے خانے میں چُپ چاپ زندگی کرتے ماموں، 'رئیس کیوں چپ ہے؟' کا شوکت، 'بنجر بے رنگ زندگی والا' شفیق، 'ہمسائے سے مانگے ہوئے زیور' کی طرح میسر محبت سے محروم ہوجانے کا یقین جھیلتا 'فسانہ ختم ہوتا ہے' کا ثاقب، پردیس میں پیپر میرج سے شروع ہوکر جسم کے رشتے تک پہنچنے والے تعلق کی خنک ہوتی فضا میں ایک بار پھر اجنبی بننے کے سفر پر گامزن 'کھویا ہوا آدمی' کے کردار انور اور ماریانہ۔ ان سب قصوں میں بے رنگ تنہائی کے الگ الگ رنگ ہیں۔ اور ہاں، وہ 'کہانی ایک کردار' کی، جس میں 'عابد شہباز' کا کردار 'شکیل' جو ابنِ صفی کے عمران کا پرتو ہے۔

ناول نگار عابد شہباز کی عطا کردہ اپنی تمام تر مردانہ وجاہت، بہادری، ذہانت، قابلِ فخر کارناموں، اور شاندار کامیابیوں کے باوجود شناخت نہ ہونے کے صدمے سے یوں بے کل ہوجاتا ہے کہ اپنی دنیا ہی پھونک ڈالتا ہے۔ یہ کردار بتا رہا ہے کہ اپنی جڑوں سے محروم یا ناآشنا ہونا خوفناک ترین تنہائی ہے۔ شکیل کسی نسبت سے محرومی کا درد جھیل رہا ہے۔ سو ایک دن وہ چیخ پڑتا ہے 'اگر تم ذرا سی دیر کے لے بھی سوچ سکو نازلی، تو شاید زندگی بھر کبھی نہ ہنسو۔ ہم بالکل ادھورے ہیں۔ بے زمین، بے نام و نشاں، بے شجرہ کردار۔ میں شکیل ہوں۔ مگر کون شکیل؟ شکیل احمد یا شکیل خان یا شکیل رضوی؟ ہوسکتا ہے میں شکیل بلوچ ہوں۔ یا شکیل اجمیری۔ تم بھی ایسی ہی ہو، اور وہ سب بھی جو عابد شہباز کی کہانیوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ اور ہم سب اس لیے ادھورے ہیں‘۔

یہ فقرے ہمارے ملک میں شناخت کے نعروں کی بھی تفہیم کرتے ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ فرد خاندان، برادری، قبیلہ، قومیت کی پہچان اور سلسلے سے جڑا نہ ہونا بھی تنہائی جنم دیتی ہے، شاید تکلیف دہ ترین تنہائی۔

اخلاق احمد کے افسانوں کا جغرافیہ بظاہر بڑا محدود ہوتا ہے، کبھی کبھی تو بس ایک چار دیواری، لیکن ان کی سطور میں کھلتے جھرونکوں سے ہم بہت دُور کے منظر بھی دیکھ لیتے ہیں، جیسے پرانا کراچی، وہ کراچی جس میں ملباری کے ہوٹل تھے، مکرانی ویٹر تھے، جہاں محلہ داری کی روایت تحریری معاہدوں اور آئین و قوانین سے کہیں زیادہ پابندی سے نبھائی جاتی تھی، اس روایت کے تحت گلی کا کم عمر لڑکا چائے کے ہوٹل کا رخ نہیں کرسکتا تھا، اور اگر ایسا کرلے تو اس گلی کا کوئی بھی بڑا اسے بے دھڑک ٹوک دیتا تھا۔

پڑھیے: ‘ادیب برائے فروخت’

کسی ادبی تخلیق میں حالاتِ حاضرہ کا در آنا ان اصحاب کو بہت گراں گزرتا ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ آنکھوں کے سامنے ظلم ہوجانے دو، عشروں بعد جب یقین آجائے کہ یہ ظلم تھا تو اس پر تخلیقی جہت سے خامہ فرسائی کی جائے۔ اخلاق صاحب چونکہ صحافی ہیں اس لیے ان کی نگارشات میں رواں زندگی کا کوئی گزرتا منظر آجانے پر انہیں صحافیانہ اسلوب کا طعنہ دیا جاسکتا ہے، لیکن وہ ایسے کسی طعنے سے ڈرے بغیر اپنی کہانیوں میں بڑی مہارت سے ایسے مناظر بھی ٹانک دیتے ہیں جن میں ہم جی رہے ہیں یا جو ہمارے اردگرد دور پاس جنم لے رہے ہیں۔ ان کے افسانوں میں یہ منظر یوں آتے ہیں جیسے کسی الہامی کتاب میں ماضی کی اقوام کا بیان ہوتے ہوتے صحیفے کے دورِ نزول کا کوئی ایسا واقعہ آجائے کہ پڑھنے والے کے دل میں شانِ نزول جاننے کی تڑپ جاگ اٹھے۔

جیسے 'رئیس کچھ دنوں سے چُپ ہے' میں رئیس شوکی سے کہتا ہے:

'تو نے مجھے صرف ٹارچر کرنے کے لیے بلایا ہے'، رئیس ہنسا۔ 'تو ایک اذیت پسند جنونی ہے شوکی۔ تجھے کسی خفیہ ایجنسی میں نوکری کرنی چاہیے تھی۔'

'کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر' کی یہ سطریں دیکھیے:

آفاق عرف بابو بھائی اپنے باپ مشتاق سے کہہ رہا ہے:

'کچھ مشکل نہیں ہوتا، ابّا۔ وہ 13 کیا، 113 مقدمے بناسکتے ہیں۔ آپ کو یاد ہے نا وہ پہلا مقدمہ۔ وہ فائرنگ والا کیس۔ گھر سے گرفتار کیا تھا انہوں نے مجھے۔ ایک بالکل جھوٹے الزام میں۔ میں اس رات گھر سے کہیں نہیں گیا تھا۔ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ میں لانڈھی جاکر فائرنگ کیسے کرسکتا تھا۔ اس گرفتاری کے بعد ہی میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ضمانت پر رہا ہوگیا تو کبھی ان کے ہاتھ نہیں آؤں گا۔'

مشتاق حسین کو سب یاد تھا۔ وہ دروازے توڑ کر اندر گھسے تھے۔ آفاق کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ تھانے میں اسے بُری طرح مارا گیا تھا۔ اس کے 2 ناخن اکھیڑ دیے گئے تھے۔ عدالت میں پیشی کے وقت وہ سہارے کے بغیر چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔

اسد محمد خان، مستنصر حسین تارڑ اور اخلاق احمد
اسد محمد خان، مستنصر حسین تارڑ اور اخلاق احمد

'بنجر بے رنگ زندگی والا' میں بلوچستان کے سلگتے روز و شب یوں اپنی جھلک دکھاتے ہیں:

'تیسرے دن اسے اچانک خضدار جانا پڑا۔ کراچی سے 400 کلو میٹر دُور۔ کسی کلائنٹ کی فرمائش تھی کہ اس کے پروڈکشن پلانٹ کا بروشر شائع کیا جائے جس کے ذریعے ثابت ہوجائے کہ ایسا معیاری پروڈکشن پلانٹ نہ کبھی پہلے بنا تھا اور نہ آئندہ بن سکے گا۔

آر سی ڈی شاہراہ پر 7، 8 گھنٹے کے سفر کے دوران محمد شفیق کے اعصاب پر یہ خوف مسلسل سوار رہا کہ کسی بھی جگہ ان کی گاڑی روک لی جائے گی اور انہیں اغوا کرلیا جائے گا۔ اس کے ساتھ سفر کرنے والے کلائنٹ سروس ایگزیکٹیو اور فوٹو گرافر بھی راستے بھر خاموش رہے۔ حالات نے سب کو ایک جیسا بزدل بنادیا تھا۔'

پڑھیے: کون تھیں قمر زمانی؟

اخلاق احمد کی کہانیوں کا اہم ترین پہلو ان کا تاثر انگیز ہونا ہے، یہ قاری پر اس لیے تاثر چھوڑ پاتی ہیں کہ ان کا خالق کہانی کے ابلاغ پر یقین رکھتا ہے، اور تاثر ابلاغ کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ کہانی پن کو اہمیت دیتے ہیں، سو ان کی کہانیاں پڑھنے والوں کی دلچسپی ایک لمحے کے لیے بھی کم نہیں ہونے دیتیں۔ وہ اپنے کرداروں کو زندگی سے جوڑے رکھتے ہیں، اور یہ جُڑت ہمیں کہانی پڑھتے ہوئے کرداروں سے ایسا مانوس کردیتی ہے کہ بعض اوقات ہم اس کے جذبوں میں سانس لینے لگتے ہیں۔ ان کے ہاں جدید تکنیک بھی ہے، مگر وہ کہانی کو تکنیک میں گم نہیں ہونے دیتے۔ وہ تکنیک کا زور دکھانے کی کسی فنکارانہ للک سے دُور رہتے ہوئے اس میں کہانی کو بڑی چابک دستی سے بُنتے ہیں۔

عالمی ادب کے مطالعے اور ترجمے کے تجربے نے ان کی نظر کو وسعت دی ہے، جو کرداروں کے نفسیاتی عمل و ردِعمل کو مکالموں اور بیانیے کی صورت پیش کرتے ہوئے صاف جھلکتی ہے۔ اخلاق صاحب کا ایک اور کمال یہ ہے کہ صحافت میں عشرے بتانے کے باوجود انہوں نے اپنے افسانہ نگار کو ساتھ رہتے بستے صحافی سے بچائے رکھا۔ اس کامیابی ہی کی بنا پر وہ خبر کو کہانی کرنا جانتے ہیں، لیکن کہانی کو ذرا سا بھی خبر نہیں بننے دیتے۔

یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ صحافت کے اعصاب شکن پیشے سے وابستہ رہنے اور زندگی کی تلخی سے بھری کہانیاں لکھنے کا عمل جھیلنے کے باوجود وہ نہ کھردرے ہوئے نہ تلخ، بلکہ سرتاپا محبت ہی رہے۔ یہ ان کی محبت جیسی شخصیت ہی ہے کہ کہانیاں بلاجھجھک اور بنا خوف ان کے سامنے بیٹھ کر اور ان کے کندھے پر سر رکھ کر خود کو بیان کردیتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Jul 03, 2021 12:34am
I often feel that being nice is its own reward. But sometimes it comes with extra goodies.