پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن میں جو ٹیمیں پہلے امتحان میں کامیاب ہوئیں، ان میں سے صرف ایک ایسی ہے جو کبھی چیمپیئن نہیں بنی۔ جی ہاں! ہم ملتان سلطانز کی بات کر رہے ہیں جو 'ریڈ ہاٹ' اسلام آباد کو شکست دیتے ہوئے فائنل تک پہنچ گی ہے جبکہ دفاعی چیمپیئن کراچی اپنے روایتی حریف لاہور قلندرز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 'بہت بے آبرو ہوکر' اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگیا ہے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ملتان فائنل میں پشاور اور اسلام آباد کے مابین مقابلے کے فاتح کا انتظار کرے گا اور پھر فیصلہ ہوگا اس سال کے چیمپیئن کا۔ ویسے سلطانوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ وہ جب پاکستان سپر لیگ کا حصہ بنے تھے تو مسلسل 2 سال لاہور قلندرز کے ساتھ آخری نمبروں پر آئے تھے۔ پچھلے سال سے ہمیں ان کی کارکردگی میں تو بہت نکھار نظر آیا، لیکن قسمت ان کے ساتھ نہیں تھی۔ 10 میچوں میں صرف 2 شکستیں پانے کے بعد نمبر ون کی حیثیت سے کوالیفائر تک آئے اور نہ صرف یہاں سپر اوور میں ہارے بلکہ ناک آؤٹ مقابلے میں لاہور قلندرز سے شکست کھا بیٹھے۔

البتہ اس سال ملتان کی کارکردگی میں ہمیں بہت نشیب و فراز نظر آئے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ نشیب پہلے تھا اور فراز اب آخری اور اہم مرحلے میں آیا ہے۔

رواں سیزن کے آغاز پر کراچی میں سلطانز کو اپنے 5 میچوں میں صرف ایک کامیابی ملی تھی اور پھر کورونا وائرس آگیا جس کا سلطانز کو فائدہ ہی ہوا۔ فائدہ اس لیے کہ لیگ ملتوی ہوگئی اور پھر ابوظہبی منتقل ہوگئی جہاں کی آب و ہوا ملتان سلطانز کو راس آگئی ہے۔ یہاں انہوں نے مسلسل 4 میچ جیتے۔ وہ کوالیفائر سے پہلے آخری مقابلہ ضرور ہارے لیکن ٹاپ 1 میں جگہ ضرور بنائی۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 6: آگے کیا ہونے جارہا ہے؟

یونائیٹڈ بمقابلہ سلطانز

یہ اماراتی دارالحکومت میں ایک اور انتہائی گرم دن تھا، جب ملتان کے کپتان محمد رضوان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا حیران کُن فیصلہ کیا۔ اسلام آباد نے اس سیزن میں اپنی زیادہ تر کامیابیاں ہدف کے تعاقب میں حاصل کی تھیں، بلکہ خود ملتان کو دونوں میچ ہدف کا تعاقب کرکے ہرائے تھے۔ اس کے باوجود رضوان کا بیٹنگ کا فیصلہ عجیب تھا اور کچھ ہی دیر میں وہ خود صفر پر آؤٹ بھی ہوگئے۔

اس صورتحال میں صہیب مقصود نے ایک بحرانی اننگز کھیلی اور جانسن چارلس نے 41 رنز بنائے لیکن ملتان کو کسی بہت ہی ’خاص‘ اننگ کی ضرورت تھی۔

19واں اوور شروع ہوا تو پچھلے 5 اوورز میں صرف 29 رنز کا اضافہ ہوا تھا، یعنی بازی مکمل طور پر اسلام آباد کی گرفت میں تھی۔ پھر یہاں پر خوشدل نے دل خوش کردیا۔ انہوں نے 19ویں اوور میں عاکف جاوید کو مسلسل 4 چھکے لگا کر اس اوور سے 29 رنز لوٹے اور یوں ملتان اسلام آباد کو 181 رنز کا نسبتاً بہتر ہدف دینے میں کامیاب ہوگیا۔

اسلام آباد شاید اس دھچکے سے نکل ہی نہیں پایا۔ ابتدا ہی سے اس کے بلے باز دباؤ میں نظر آئے۔ ملتان کے سہیل تنویر نے ان پر ایسے وار کیے کہ وہ مقابلے کی دوڑ میں واپس آہی نہیں سکے۔ کولن منرو اور شاداب خان کو صفر پر آؤٹ کرنے کے بعد سہیل تنویر نے بعد میں عثمان خواجہ کو بھی آؤٹ کیا کہ جن کی 40 گیندوں پر 70 رنز کی اننگز خطرناک روپ دھار چکی تھی، یقیناً اگر عثمان خواجہ کریز پر موجود رہتے تو کامیابی اسلام آباد ہی کو ملتی۔

اس ناکامی میں بڑا کردار اسلام آباد کے لوئر مڈل آرڈر کے ناقص کھیل کا تھا۔ افتخار احمد نے 15 گیندوں پر 16 اور آصف علی نے 5 گیندوں پر صرف ایک رن بنایا اور ایسے موقع پر آؤٹ ہوئے جب ان کی اشد ضرورت تھی۔

بہرحال، 31 رنز کی نمایاں کامیابی کے ساتھ اب ملتان فائنل میں پہنچ چکا ہے جو 24 تاریخ کو اسی شیخ زید اسٹیڈیم میں ہوگا۔ البتہ اسلام آباد کو ایک دوسرا موقع ملے گا کہ وہ پہلے ایلیمینیٹر میں کامیابی حاصل کرنے والے پشاور کے ساتھ ایک اور 'ٹاکرا' کرے اور پھر فیصلہ ہو کہ ملتان کے ساتھ فائنل کون کھیلے گا۔

کنگز بمقابلہ زلمی

ویسے پہلے ایلیمینیٹر میں لگ رہا تھا کہ کراچی اور پشاور کے درمیان بُرا کھیلنے کا مقابلہ ہے۔ کراچی کی جانب سے نہ شرجیل خان چلے، نہ بابر اعظم کی اننگ میں کوئی فیصلہ کُن عنصر تھا۔ گپٹل سے معجزاتی اننگ کی توقع تھی تو وہ بھی پوری نہیں ہوئی، جن کے لیے یہ پورا سیزن ہی ایک بھیانک خواب تھا۔ 6 اننگز میں صرف 69 رنز اور اس ناک آؤٹ مقابلے میں تو صفر پر وکٹ دے بیٹھے۔ یہ تو بھلا ہو تھیسارا پیریرا کے 37 اور عماد وسیم کے 16 رنز کا کہ جن کی بدولت آخری 5 اوورز میں 70 رنز کے اضافے کے ساتھ کراچی 175 رنز تک پہنچ گیا۔

‏176 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پشاور کا آغاز بہتر تھا۔ اوپنرز نے 5ویں اوور تک ہی اسکور 49 رنز تک پہنچا دیا اور افغان بلے باز حضرت اللہ زازائی تو ایک اینڈ سے کراچی کے باؤلرز کی جم کر دھلائی کر رہے تھے۔ کوئی باؤلر ان کے بڑھتے ہوئے حملوں سے بچ نہیں پایا اور ابتدا ہی میں واضح ہوگیا کہ کامیابی پشاور ہی کی ہوگی کیونکہ 10 اوورز میں ہی اسکور بورڈ پر 92 رنز کا ہندسہ جگمگا رہا تھا۔ ڈیرن سیمی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور کراچی کے کیمپ میں ہرشل گبز اور وسیم اکرم کے لٹکے ہوئے چہرے اور میدان میں عماد وسیم کی جھنجھلاہٹ بہت کچھ ظاہر کر رہی تھی۔

لیکن اب چونکہ دونوں ٹیموں میں 'بُرا کھیلنے کا مقابلہ' تھا، اس لیے پشاور نے کراچی کو مقابلے میں واپس آنے کا پورا پورا موقع دیا۔

پیریرا نے بیٹنگ کے بعد باؤلنگ میں بھی کراچی کو امید کی کرن دکھائی۔ اپنے 2 مسلسل اوورز میں سری لنکن آل راؤنڈر نے امام الحق اور حضرت اللہ کی وکٹیں حاصل کیں، جو تب تک 38 گیندوں پر 77 رنز بنا چکے تھے۔ پھر 19ویں اوور میں محمد عامر نے پی ایس ایل کے ابوظہبی آنے کے بعد اپنی پہلی وکٹ بھی حاصل کرلی۔ وہ گزشتہ 6 میچوں سے 'بے وکٹ' تھے اور جب انہوں نے شعیب ملک کو آؤٹ کیا تو میچ یکدم دلچسپ مرحلے میں داخل ہوگیا۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی جیت کا حقدار تھا ہی نہیں، خاص طور پر اپنی ناقص باؤلنگ اور بدترین فیلڈنگ کی وجہ سے۔ آخری 5 اوورز میں وہ مقابلے میں واپس آسکتا تھا لیکن مواقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ آخری 2 اوورز میں تو 3 آسان کیچ چھوڑے جو اگر پکڑے جاتے تو شاید میچ بہت ہی دلچسپ ہوجاتا۔

مزید پڑھیے: پی ایس ایل سیزن 6 میں چھکوں، چوکوں اور ریکارڈز کا دن

ایسے مقابلوں میں کہ جہاں دفاع کے لیے بڑا ہدف نہ ہو، وہاں تو ہاف چانس کیچ بھی پکڑنا پڑتے ہیں تب جاکر کامیابی کا کوئی امکان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن کراچی نے نہ صرف آسان مواقع ضائع کیے بلکہ 10 فاضل رنز دے کر پشاور کا کام مزید آسان کردیا یوں پشاور آخری اوور کی 5ویں گیند پر مقابلہ جیت گیا۔

کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ ایک طرف حضرت اللہ نے 38 گیندوں پر 77 رنز بنائے، وہیں باقی پشاوری بلے بازوں کا حال یہ تھا کہ 81 گیندوں پر صرف 89 رنز بنا پائے۔

ویسے حضرت اللہ کو بھی کراچی سے کوئی خدا واسطے کا بیر تھا۔ پورے سیزن میں صرف 3 میچ کھیلے جن میں سے 2 کراچی کے خلاف تھے۔ ان میچوں میں انہوں نے 63 اور 77 رنز کی اننگز کھیلیں۔ یاد رہے کہ تیسرا مقابلہ اسلام آباد سے تھا، جس میں وہ صفر پر آؤٹ ہوئے تھے۔ اس لیے پشاوری بھائی ذرا سنبھل کر، اسلام آباد سے کراچی والی غلطیوں کی توقع ہرگز نہ رکھیں۔

دونوں ٹیموں کی کارکردگی میں فرق کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پشاور 6 میچوں میں صرف 2 فتوحات حاصل کرکے اگلے مرحلے تک پہنچا جبکہ اسلام آباد 5 فتوحات کے ساتھ۔ اس لیے پہلے ایملیمینیٹر جیسا کھیل پیش کرکے پشاور کبھی اسلام آباد کو شکست نہیں دے سکتا۔ زلمی کو اپنا گیم لازماً بہتر کرنا ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں