کیا نوجوان مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری بعد کے عرصے میں کی گئی ان کی شاعری سے مختلف تھی؟ غالب نے خود کہا کہ انہوں نے اپنی ابتدائی شاعری کا اکثر حصہ ضائع کردیا تھا۔

مولانا امتیاز علی خان عرشی جیسے اسکالرز کے مطابق غالب کی ابتدائی شاعری غیر واضح ہے، اس میں تخیل کی بے ذائقہ اڑانیں، مشکل استعارے اور فارسی کے غیر معمولی فقرے شامل ہیں۔ لیکن کیا غالب نے واقعی بعد کے دور میں اپنی شاعری میں تبدیلی پیدا کی تھی؟ کیا دیوانِ غالب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہم یہ معلوم کرسکتے ہیں کہ غالب کی کونسی غزل ابتدائی دور کی ہے؟

ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ غالب نے 1828ء سے 1848ء کے درمیانی 20 سالوں میں اردو شاعری نہیں کی تھی اور صرف فارسی کلام ہی لکھا تھا۔ جب وہ اردو کی جانب واپس آئے تو ان کا انداز زیادہ رواں، نکھرا ہوا اور قابلِ رسائی تھا۔

مارکسسٹ نظریات کے حامل اردو ادب کے ناقد خورشید الاسلام نے غالب کے ابتدائی دور پر بہت اچھا کام کیا ہے (غالب: ابتدائی دور)۔ انہوں نے بجا طور پر کہا ہے کہ نوجوان غالب کے یہاں خیال بندی بہت زیادہ تھی۔ خیال بندی ایک شاعر کو بیرونی حقائق سے آزاد کرکے تخیلاتی، تجرباتی، غیر متوقع اور بے قاعدہ خیالات کی اجازت دیتی ہے۔

خیال بندی کی مدد سے ایک شاعر حقیقت یا فلسفے کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرسکتا ہے۔

لیکن غالب خیال بندی کی جانب کیوں راغب ہوئے؟ بدقسمتی سے اس حوالے سے خورشید الاسلام کی وضاحت بہت کمزور ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ غالب کو درپیش ذاتی مشکلات تھیں۔ لیکن میرے خیال میں غالب اپنے انداز کی تازگی اور اس کے امکانات کے حوالے سے بہت پُرجوش تھے۔ انہوں نے اپنے پورے دور میں خیال بند شاعری کہی۔ غالب کی ابتدائی شاعری بہت پیچیدہ اور مجتمع ہے جبکہ ان کی بعد کی شاعری نسبتاً زیادہ براہِ راست ہے۔

نوجوان غالب کی شاعری میں ’حیرت‘، ’آئینے‘ کے استعارے سے اس کے اظہار اور ’جلوے‘ کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے 1816ء اور 1821ء دیوانوں کا ایک سرسری تجزیہ بھی ان خیالات کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی خیالات کا شکار ہوجائے تو شاید پیچیدگی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ آئیے غالب کے کچھ اشعار پر نظر ڈالتے ہیں۔

خبر نگہ کو نگہ چشم کو عدو جانے

وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے

یہ شعر آگہی کے بارے میں ہماری تفہیم اور ادراک کے ساتھ اس کے تعلق کو تجریدی سطح پر لے جاتی ہے جو پیچیدہ ہوتی ہے۔ آگہی نہیں چاہتی کہ آنکھ کچھ دیکھے یا کچھ سمجھے، نظر کی طاقت خواہشات کے تیر چلاتی ہے لیکن آنکھ کو یہ معلوم نہیں ہونے دینا چاہتی۔

یہاں آنکھ اور نظر کے درمیان بہت باریک سا فرق ہے۔ روایتی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ نظر آنکھوں سے روشنی کی کرنوں کی صورت نکلتی ہے۔ غزل کے شاعر بھی اسے اسی طرح دیکھتے ہیں۔ یہاں عاشق اپنے محبوب (خدا) سے کہتا ہے کہ وہ اپنے جلوے کو اس تجریدی سطح پر لے جائے جہاں آگہی اور ادراک ہی ختم ہوجائے۔

عاشق نقابِ جلوۂ جانانہ چاہیے

فانوسِ شمع کو پرِ پروانہ چاہیے

اس شعر میں ہم ایک ساتھ حیرت انگیز منظر کشی اور تجرید کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں عاشق کے محبوب کے جلوے کا نقاب ہونے اور شمع کے فانوس کے لیے پروانے کے پر کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں۔

  • پہلا تو یہ کہ عاشق اپنے معشوق کے اتنا نزدیک ہو جتنا کہ نقاب ہوتا ہے،
  • دوسرا یہ کہ پروانے کی طرح عاشق بھی معشوق کے جلوے کی نظر ہوجائے اور یوں دنیا کے سامنے اس کا جلوہ عیاں ہوجائے،
  • تیسرا مطلب یہ کہ عاشق معشوق کے حُسن کو دنیا سے چھپا کر رکھے، اور
  • چوتھا مطلب یہ کہ اصل محبوب تو خدا کا حُسن یا خدا کی وہ ذات ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

صوفی نظریے کے مطابق خدا کی ذات زمینی چیزوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یعنی دنیا کی ہر چیز اسی کا مظہر ہیں لیکن وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مولانا جلال الدین رومی کے بعد سے اس خیال کو کئی لوگوں نے اختیار کیا۔ تاہم غالب نے اس میں ایک تبدیلی کی اور وہ یہ کہ اس دنیا نے خدا کے جلوے کو چھپایا ہوا ہے۔ اگرچہ یہ دنیا الگ ضرور ہے لیکن یہ خدا کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی جس کے لیے یہ ایک نقاب بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک عاشق بھی معشوق کے بغیر باقی نہیں رہ سکتا، یوں معشوق کو چھپا کر وہ دراصل اسے ظاہر کررہا ہوتا ہے۔

تمثالِ جلوہ عرض کر اے حُسن کب تلک

آئینۂ خیال کو دیکھا کرے کوئی

حُسن اپنے آپ میں ناقابلِ بیان خیال ہے۔ یہ اپنے خالق کے مترادف ہے جو اپنی خوبصورتی میں عیاں ہے۔ لیکن محبوب کے لیے یہ کافی نہیں ہے اور وہ عکس سے زیادہ مضبوط اور ٹھوس چیز کی چاہت رکھتا ہے۔

آئینہ ایک وہم پیدا کرتا ہے اور تخیل اس پُرفریب اور غیر محسوس عکس کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ تمثالِ جلوہ ایک بہت ہی غیر معمولی تصور ہے کیونکہ اس سے مراد کسی زبردست اور ناقابلِ بیان چیز کو حقیقت کا روپ دینا ہے۔

اس شعر میں بہت زیادہ تجرید موجود ہے۔ آخر خیال کو آئینے کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں محبوب کا حُسن منعکس ہوگا۔ لیکن کوئی وہم پیدا کیے بغیر خیال کا عکس کیسے پیدا ہوگا؟ اور آخرکار جلوے کا عکس کیسے نظر آسکتا ہے؟

غالب نے جس وقت یہ شعر کہے تھے اس وقت ان کی عمر 20 سال بھی نہیں تھی۔ میں نے جن غزلوں میں سے یہ اشعار منتخب کیے ہیں وہ غزلیں بھی شاندار ہیں۔ لیکن غالب نے ان غزلوں کو تلف کردیا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ان کے دیوان میں اس طرح کی غزلیں کثرت سے موجود ہوئیں تو پڑھنے والے اس میں دلچسپی کھو دیں گے۔

میرا خیال یہ ہے کہ نوجوان غالب مابعد طبعیاتی دریافتوں میں مشغول تھے۔ وہ مرزا بیدل سے بھی بہت متاثر تھے اور انہوں نے اپنے پہلے دیوان (1816ء) میں اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔

غالب پر بات کرنے والے ان اشعار کا ذکر کرنے سے ہچکچاتے ہیں جنہیں غالب نے اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا۔ میری آنے والی کتاب جس کا فی الحال عنوان غالب: اے برنٹ ٹریژر (Ghalib: A Burnt Treasure) ہے، قارئین کے سامنے نوجوان غالب کو پیش کرنے کی کوشش ہے۔


یہ مضمون 20 جون 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں