قائدِ اعظم کی جائے پیدائش کراچی ہے یا کوئی اور مقام؟

کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع قائد اعظم کی جائے پیدائش— تصویر : بشکریہ لکھاری
کراچی کے علاقے کھارادر میں واقع قائد اعظم کی جائے پیدائش— تصویر : بشکریہ لکھاری

ایک عام خیال یہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پیدائش کراچی میں ہوئی تھی۔ لیکن کچھ مقامی روایتوں کے مطابق وہ موجودہ دور کے ضلع ٹھٹہ میں واقع ایک قصبے جھرک میں پیدا ہوئے تھے۔ اس روایت کے حامی دلیل کے طور پر 1950ء کی دہائی میں سندھ میں چھپنے والی درسی کتاب کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ قائدِ اعظم جھرک میں پیدا ہوئے تھے۔

یہ اختلاف ایک طویل عرصے سے چلا آرہا ہے۔ حکام کی جانب سے اس اختلاف کو حل کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں۔ ٹھٹہ کی ضلعی حکومت اور سید عبداللہ شاہ نے بحیثیت وزیرِ اعلی سندھ اس حوالے سے کمیٹیاں بھی تشکیل دیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سوانح عمری مرتب کرنے کے دوران میں بھی اس مشکل سے دوچار ہوا اور میں نے اس حوالے سے 3 مختلف پہلؤوں سے کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ تین پہلو

  • دستاویزی ثبوت،
  • اس حوالے سے قائدِ اعظم کے ذاتی بیانات اور
  • ان کے اہلِ خانہ کے بیانات تھے۔

اس سعی کے نتائج آپ کے سامنے پیش کیے جارہے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں ہم قائدِ اعظم کی پیدائش کے وقت ان کے خاندانی پس منظر اور اس اختلاف میں موجود دو جغرافیائی اکائیوں یعنی کراچی اور جھرک کے حوالے سے مختصراً جان لیتے ہیں۔

خاندانی پس منظر

قائدِ اعظم کے اجداد کا تعلق کاٹھیاواڑ کی ایک ریاست گوندل کے گاؤں پنیلی سے تھا۔ ان کے دادا پونجا بھائی گاؤں میں کپڑا بننے سے متعلق کاروبار کرتے تھے۔ ان کے 4 بچے تھے۔ بیٹی مان بائی اور تین بیٹے ولی بھائی، نتھو بھائی اور سب سے چھوٹے جناح بھائی، جو 1850ء میں پیدا ہوئے۔ جناح بھائی نے پنیلی چھوڑ کر گوندل میں کاروبار کا آغاز کیا۔ 1874ء میں ان کی شادی ان کی برادری کی ہی ایک لڑکی متھ بائی سے ہوگئی۔ جناح بھائی کو اپنے عزائم کے سامنے گوندل بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا اور انہوں نے مغرب کی جانب سندھ جانے کا سوچا۔ 1869ء میں نہرِ سوئز کے کھلنے کے بعد سندھ ایک نئے تجارتی مرکز کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔

جھرک: ایک تجارتی مرکز

جھرک بنیادی طور پر دریائے سندھ پر واقع ایک دریائی بندرگاہ تھا۔ یہ کراچی سے تقریباً 100 کلومیٹر دُور واقع تھا۔ اس خطے میں سڑکوں اور ریل کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے ’انڈس فلوٹیلا‘ کے نام سے ذرائع آمد و رفت کا ایک ذریعہ متعارف کروایا تھا۔ اس کا ہیڈکواٹر جھرک میں قائم تھا۔ تجارتی اور کاروباری حوالے سے اس جگہ بہت مواقع موجود تھے اور کاروباری افراد دُور دراز سے یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔

جھرک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آغا خان اوّل پرنس حسن علی نے 1843ء میں یہاں اپنا گھر تعمیر کروایا تھا جو آج بھی موجود ہے۔ سر سید احمد خان کی جانب سے علی گڑھ میں اسکول قائم کرنے سے 5 سال قبل 1870ء میں انگریزوں نے یہاں ایک اسکول قائم کیا تھا۔ جارج بِیس نے سندھ ڈائریکٹری میں 1861ء کے جھرک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’سر چارلس نپیئر کو افسوس تھا کہ انہوں نے یورپی بیرکوں کے لیے حیدر آباد کی جگہ اسے [جھرک] کیوں نہ منتخب کیا‘۔

سندھ مدرسۃ الاسلام کا جنرل رجسٹر— تصویر: بشکریہ لکھاری
سندھ مدرسۃ الاسلام کا جنرل رجسٹر— تصویر: بشکریہ لکھاری

کراچی: یورپیوں کے لیے قابلِ قبول موسم والا شہر

اگرچہ کراچی ایک چھوٹی سی بستی کے طور پر ایک عرصے سے آباد تھا لیکن برطانوی دور میں یہ ایک جدید شہر اور بہترین بندرگاہ میں تبدیل ہوا۔ انگریزوں نے بھی اسے اپنی رہائش کے لیے مناسب سمجھا۔ جارج بِیس کے الفاظ ہیں کہ ’یہاں کا موسم تمام یورپیوں کے لیے قابلِ قبول محسوس ہوتا ہے۔ یہاں اموات کی شرح بھی شمال مغربی صوبوں کے کسی بھی اسٹیشن کی نسبت کم ہے‘۔

نہرِ سوئز کے کھلنے سے کراچی کی اہمیت مزید بڑھ گئی کیونکہ اس طرح یہ شہر برطانوی ہند میں موجود یورپ سے سب سے قریبی بندرگاہ بن گیا۔ اس کے علاوہ سندھ کے راستے پنجاب، شمالی ہندوستان اور افغانستان تک بھی رسائی آسان تھی۔

ترقی کے مواقعوں کی وجہ سے جناح بھائی 1870ء کی دہائی میں کراچی منتقل ہوگئے اور وہاں کاروبار شروع کردیا۔ تاہم یہاں دو رائے موجود ہیں۔ ایک کے مطابق جناح بھائی گوندل سے براہِ راست کراچی منتقل ہوئے اور دوسرے کے مطابق وہ اور ان کا خاندان کچھ سال تک جھرک میں مقیم رہے جہاں قائدِ اعظم کی پیدائش ہوئی اور وہیں انہوں نے کراچی آنے سے قبل ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

دستاویزی ثبوت

اسکول ریکارڈ کسی بھی شخص کے مقام پیدائش کا تعین کرنے کے حوالے سے مستند ترین دستاویز سمجھے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں قائدِ اعظم کے 4 اسکول ریکارڈ موجود ہیں۔ ان میں سے 3 تو سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے ہیں اور ایک چرچ مشن اسکول (سی ایم ایس) کا۔ ان ریکارڈز کے مطابق قائدِ اعظم کا اسکول میں پہلا داخلہ 4 جولائی 1887ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام میں ہوا۔ اس کا اندراج جنرل رجسٹر کے صفحہ نمبر 7 میں نمبر شمار 114 میں ہوا ہے۔ یہاں قائدِ اعظم کے نام کے آگے واضح طور پر آبائی شہر میں ’کراچی‘ درج ہے۔

دوسرا اور تیسرا ریکارڈ بھی سندھ مدرسۃ الاسلام کا ہی ہے جہاں 1887ء سے 1892ء میں تقریباً ساڑھے 4 سالوں کے دوران ان کا 2 مرتبہ دوبارہ داخلہ ہوا۔ اس کی وجہ قائدِ اعظم کا اپنے رشتے داروں سے ملنے بمبئی چلے جانا تھا۔

ان دونوں ریکارڈ کا اندراج نمبر شمار 170 اور 430 پر موجود ہے اور یہاں بھی ان کا آبائی شہر کراچی ہی درج ہے۔ چوتھا ریکارڈ سندھ مدرسۃ الاسلام چھوڑنے کے بعد مارچ 1892ء میں سی ایم ایس میں داخلے کا ہے۔ یہاں قائدِ اعظم نے برطانیہ جانے سے قبل 7 ماہ تعلیم حاصل کی۔ اس ریکارڈ میں بھی ان کی جائے پیدائش کراچی ہی درج ہے۔

اس قدر واضح اسکول ریکارڈ کے بعد یہ اختلاف یہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا لیکن یہاں ایک نقطہ اور ہے۔ اس وقت خود جھرک بھی ضلع کراچی کا حصہ تھا۔ آج کی طرح ان دنوں بھی اکثر لوگ دستاویزات میں اپنے قصبے یا گاؤں کا نام لکھوانے کے بجائے بڑے قصبوں یا ضلعی ہیڈکوارٹر کا نام لکھواتے تھے۔

لیکن سندھ مدرسۃ الاسلام کے ریکارڈ رجسٹر کے جس صفحے پر قائدِ اعظم کے پہلے داخلے کا اندراج ہوا ہے اس کو باریکی سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ نمبر شمار 113 پر جس طالب علم کا اندراج ہے اس کا آبائی علاقہ ’جھرک‘ درج ہے جبکہ قائدِ اعظم کے نام کے آگے آبائی شہر میں کراچی لکھا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ نمبر شمار 113 پر موجود طالب علم کا داخلہ بھی اسی دن یعنی 4 جولائی 1887ء کو ہی ہوا تھا جس دن قائدِ اعظم کا داخلہ ہوا تھا۔ اگر قائدِ اعظم کی پیدائش جھرک میں ہوئی ہوتی تو ایسا ہونا مشکل ہے کہ اسکول کے ریکارڈ میں جھرک کی جگہ کراچی لکھا جاتا خاص طور پر تب جب قائدِ اعظم کے نام کے اوپر موجود طالب علم کے ریکارڈ میں جھرک لکھا ہوا ہے۔

ذاتی بیانات

اب ہم قائدِ اعظم کے اپنے الفاظ پر غور کرتے ہیں کیونکہ اس قسم کے معاملات میں انسان کے اپنے بیانات کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ قائدِ اعظم نے کئی مواقعوں پر کراچی کو بطور اپنی جائے پیدائش بیان کیا ہے۔

ایسے ہی ایک موقع پر 7 اکتوبر 1938ء کو کراچی میں منعقدہ سندھ صوبائی مسلم لیگ کانفرنس میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے انہوں نے کراچی سے اپنی وابستگی کا اظہار کچھ یوں کیا کہ ’اس عظیم شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں کہ جو ایک بہترین بندرگاہ اور مسلمانوں کے پہلے وطن کی حیثیت رکھتا ہے، مجھے بات کرتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔ آج کی اس کانفرنس جیسی کوئی کانفرنس سندھ میں کبھی منعقد نہیں ہوئی ہوگی۔ آپ یہ بات سن کر میرے جذبات کا اندازہ لگا سکیں گے کہ کراچی میری جائے پیدائش ہے اور میں اس شہر کی فلاح کے لیے جتنا مضطرب ہوں اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں‘۔

قائدِ اعظم نے ایک اور موقع پر بھی کراچی کو اپنی جائے پیدائش بیان کیا ہے۔ 30 اپریل 1946ء کو روزنامہ انجام کے ایک علمِ نجوم کے ماہر کو اس کی درخواست پر اپنی پیدائش کا وقت، تاریخ اور سال لکھا۔ اس علمِ نجوم کے ماہر کو یہ معلومات قائدِ اعظم کا مکمل زائچه بنانے کے لیے درکار تھی۔ قائدِ اعظم نے اپنی پیدائش کا وقت ’صبح سویرے‘، تاریخ پیدائش ’25 دسمبر 1876ء‘ اور مقام پیدائش ’کراچی‘ بتایا۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قائدِ اعظم نے اپنی 72 سالہ زندگی میں کبھی بھی جھرک کا اپنی جائے پیدائش کے طور پر ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کبھی وہاں کا دورہ کیا۔

خاندان کے افراد کے بیانات

اس معاملے میں معلومات کا ایک ذریعہ ان کے ہم عصر افراد اور گھر والوں کے بیانات ہیں۔ ان کے گھر والوں میں بھی ان کے سب سے قریب ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح تھیں۔ انہوں نے ’مائی برادر‘ کے عنوان سے قائدِ اعظم کی سوانح لکھی ہے۔ انہوں نے اس میں لکھا ہے کہ 1870ء کی دہائی میں ان کے والدین گوندل سے کراچی منتقل ہوئے اور قائدِ اعظم کی پیدائش کراچی میں ہوئی۔

حاصل

ایسا لگتا ہے کہ درسی کتاب کا اقتباس صرف سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے۔ اس اقتباس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قائدِ اعظم نے میٹرک سندھ مدرسۃ الاسلام سے کیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قائدِ اعظم نے پانچویں جماعت میں پڑھنے کے دوران ہی سندھ مدرسۃ الاسلام چھوڑ دیا تھا جو میڑک سے دو سال پہلے کی بات ہے۔ حقائق کی اس قسم کی غلطیاں درسی کتاب کے اقتباس کو معلومات کا غیر معتبر ذریعہ بنا دیتی ہیں۔

یوں ایک پرانی درسی کتاب میں موجود اقتباس کی بنیاد پر کھڑے ہونے والے قائدِ اعظم کی تاریخ پیدائش کے اختلاف کو اب ختم ہوجانا چاہیے۔


یہ مضمون 11 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Jul 16, 2021 09:58pm
ڈاکٹر محمد علی شیخ صاحب اس وضاحت کا بہت شکریہ۔ آپ نے تمام ثبوت مہیا کریے ہیں۔ اب اس بحث کو یقیناً ختم ہو جانا چاہیے۔