کراچی: سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی، کثیر المنزلہ عمارت کی تعمیر جاری

اپ ڈیٹ 03 اگست 2021
کلفٹن میں مذکورہ پلاٹ جی 24، بلاک 9  ان 915 رہائشی/رفاہی پلاٹوں کی فہرست میں شامل تھا— فائل فوٹو: فہیم صدیقی
کلفٹن میں مذکورہ پلاٹ جی 24، بلاک 9 ان 915 رہائشی/رفاہی پلاٹوں کی فہرست میں شامل تھا— فائل فوٹو: فہیم صدیقی

سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی کے علاقے کلفٹن کینٹ میں 19 منزلہ رہائشی اور کمرشل عمارت تعمیر کی جا رہی ہے، 22 جنوری 2019 کو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے رہائشی اور رفاہی پلاٹوں کو تجارتی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے پر ’پورے کراچی شہر سمیت کینٹ کے علاقوں‘ میں پابندی لگائی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عبوری حکم ایک سول درخواست نمبر 815-K/2016 کی سماعت کے دوران دیا گیا تھا، جو لیاری میں املاک پر غیر مجاز تعمیرات کے بارے میں تھا، بعد میں کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ اس میں ترمیم کی جائے یا اسے الگ رکھا جائے۔

مزید پڑھیں: کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کے خلاف آپریشن

مذکورہ عمارت جسے زمزم آرکیڈ کہا جاتا ہے، ایک رہائشی پلاٹ پر تعمیر کیا جا رہا ہے جس کی پیمائش 3 ہزار 600 مربع گز ہے جہاں کبھی باتھ ویو اپارٹمنٹس ہوتے تھے۔

کلفٹن میں مذکورہ پلاٹ جی 24، بلاک 9 ان 915 رہائشی/رفاہی پلاٹوں کی فہرست میں شامل تھا، جو تجارتی استعمال میں تبدیل ہوئے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) نے اسے ایس سی کی ہدایات کے جواب میں مرتب کیا تھا۔

فہرست کے مطابق پلاٹ کو سپریم کورٹ کے حکم سے صرف چند ماہ قبل 20 اگست 2018 کو رہائشی سے کمرشل میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

آرڈر میں لکھا گیا کہ ایس بی سی اے اور نہ ہی کوئی دوسری اتھارٹی کسی بھی تبدیلی کو منظور کرے گی جس میں زیر التوا بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم

ان اتھارٹیز کی جانب سے اجازت دی جانے والی تمام تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام کوششیں کی جائیں گی کہ جو زمین اصل میں کراچی شہر کے ماسٹر پلان میں فراہم کی گئی تھی وہ اسی حیثیت میں بحال ہو۔

واضح رہے کہ کراچی کی رئیل اسٹیٹ کی غیر منظور شدہ کمرشل تعمیرات پہلے سے زوال پذیر شہری انفرا اسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔

24 جنوری کو عدالت کی جانب سے ہدایات جاری کرنے کے دو دن بعد ایس بی سی اے نے کراچی ڈویژن کے اندر تبدیل شدہ پلاٹوں پر تعمیراتی منصوبوں/این او سی کی منظوری پر فوری پابندی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔

نوٹی فکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ ’زمین کے استعمال یا (تبدیلی) کے تمام زیر التوا مقدمات اور تبدیل شدہ پلاٹوں پر تعمیراتی اجازت ناموں/ عمارتوں کے منصوبوں/ این او سی کی منظوری کو ناقابل غور سمجھا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: کراچی کے میگا پراجیکٹس اور فوج

جس پر ڈی جی ایس بی سی اے افتخار علی کامخانی نے دستخط کیے اور نوٹی فکیشن کی نقول دیگر اداروں کے علاوہ ڈائریکٹر ملٹری لینڈ اینڈ چھاؤنیوں، ضلعی کمشنرز اور ایس بی سی اے کے ڈائریکٹرز کو بھی ارسال کی گئیں۔

ایس بی سی اے نے ایک پبلک نوٹس بھی جاری کیا جس میں ’تمام منظوری، زمین کے استعمال کی تبدیلی/ تعمیراتی اجازت نامے/ تکمیل کے منصوبے/ قبضے کے سرٹیفکیٹ/ این او سی برائے فروخت اور اشتہار (وغیرہ) کو مسنوخ قرار دیا تھا۔

تاہم آئندہ چند مہینوں میں عدالت عظمیٰ کے حکم کی مکمل خلاف ورزی ہوئی۔

13 جون 2019 کو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پراپرٹی مالکان سے 97 لاکھ روپے بقایا وصول کیے، اگلے دن کے ڈی اے کے ڈائریکٹوریٹ آف لینڈ مینجمنٹ نے کنٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) کو ایک این او سی جاری کیا اور خاص طور پر یہ بتایا گیا کہ پلاٹ ’رہائشی تھا جسے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ ایس بی سی اے کے ذریعے کمرشلائز کردیا‘۔

کمرشل سیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے ڈی اے نے ڈان کو تحریری جواب میں بتایا کہ مذکورہ کمرشل پلاٹ ایم پی ڈی، ایس بی سی اے کی پابندی کی فہرست کے دائرہ کار میں نہیں آتا اس لیے محکمہ لینڈ نے طریقہ کار کے مطابق سی بی سی کو خط جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر واقعی ایسا تھا تو پھر سپریم کورٹ کی ہدایت پر سینئر کورٹ ایسوسی ایٹ سید ظفر علی نے 22 جنوری 2019 کے آرڈر کی مصدقہ کاپی 11 وصول کنندگان کو کیوں بھیجی؟

زمزم آرکیڈ کی تعمیر کرنے والی سی ایل بلڈرز اور ڈیولپرز نے ڈان کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

ملٹری لینڈ اینڈ کینٹ کراچی ریجن کے ڈائریکٹر عادل رفیع صدیقی نے ڈان کو بتایا کہ 22 جنوری 2019 کے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ایس بی سی اے کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن ’دفتر میں کبھی موصول نہیں ہوا‘۔

تاہم ایس بی سی اے کے ذرائع نے اس دعوے کی تردید کی اور ٹی سی ایس رسید (کنسائنمنٹ نمبر 306026311135) شیئر کی ہے۔

رسید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایس بی سی اے نے 29 جنوری 2019 کو 12.57 بجے ڈائریکٹر ایم ایل سی کو ایک دستاویز ارسال کیا تھا۔

ایس بی سی اے کے ایک ریٹائرڈ سینئر عہدیدار نے کنٹونمنٹ بورڈ کے جواب کو ’بے وقوفی پر مبنی، بے بنیاد اور فضول' قرار دیا۔

انہوں نے سوال کیا کہ سی بی سی اس منصوبے کو کیسے جاری رکھ سکتی ہے جبکہ ’کینٹ علاقوں سمیت کراچی میں مکمل پابندی عائد کردی ہے، ڈائریکٹر ایم ایل سی ایس سی اے کے حکم کی تعمیل کرنے کا پابند ہے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں