افغانستان سے رپورٹ: کابل ہوائی اڈے پر افراتفری، دھماکے سے چند لمحے قبل روانگی

اپ ڈیٹ 30 اگست 2021
ہوائی اڈے کے باہر سے رپورٹنگ کے دوران طالبان جنگجو ہمیں دو مرتبہ فلم بندی سے روکتے ہیں — فوٹو: اے پی
ہوائی اڈے کے باہر سے رپورٹنگ کے دوران طالبان جنگجو ہمیں دو مرتبہ فلم بندی سے روکتے ہیں — فوٹو: اے پی
ڈان نیوز کے اینکر عادل شاہ زیب ان دنوں افغانستان میں ہیں— فوٹو: اسکرین شاٹ
ڈان نیوز کے اینکر عادل شاہ زیب ان دنوں افغانستان میں ہیں— فوٹو: اسکرین شاٹ

یہ اس سلسلے کی تیسری تحریر ہے۔ اس مضمون میں پیش کیے گئے تمام مناظر ڈان نیوز کے نمائندے عادل شاہزیب کے پروگرام اور ان کی رپورٹنگ سے لیے گئے ہیں جو اس وقت طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں موجود ہیں۔ اس سلسلے کی تمام تحاریر پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

مایوسی واضح ہے۔۔۔

ہجوم، افراتفری اور گولیوں کی آواز، کوئی بھی چیز ہزاروں افغانوں کو روکنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی ہے۔ سیکڑوں افغانی ہوائی اڈے کے باہر اپنے ذہن میں صرف ایک چیز لے کر جمع ہوئے ہیں کہ ’ملک چھوڑو‘۔

شہر کابل سے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے تک پہنچنے میں ہمیں صرف 10 سے 15 منٹ لگے، ہوائی اڈے کی حد تک سڑکیں صاف ہیں جہاں طالبان جنگجو تعینات ہیں۔

گیٹ پر ایک کے بعد ایک بڑی بسیں آکر رکتی ہیں جس میں سیکروں لوگ موجود ہیں اور ان کے سفری دستاویزات کی جانچ پڑتال کے بعد انہیں اندر جانے کی اجازت دی جاری ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے رپورٹ: حکومتی خلا کے سبب کابل کے عام شہری پریشان

لیکن سیکڑوں اور ہزاروں افراد ان خوش نصیبوں میں شامل نہیں ہیں جو ان بسوں پر سوار ہوں گے۔ وہ دوپہر کی گرمی میں انتظار کرتے ہیں، جہاز میں سوار ہونے کی امید میں مردوں، عورتوں اور بچوں کے بیگ پکڑے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے علاوہ امریکا، کینیڈا، یورپ کہیں بھی طیارے انہیں لے جائیں۔

ہمیں بتایا گیا ہے کہ ملک میں یہ بات پھیل گئی ہے کہ کسی کو بھی مغربی طیاروں میں سوار ہونے کی اجازت دی جا سکتی ہے چاہے ان کے پاس پاسپورٹ یا ویزا نہ ہو۔ جس کے ساتھ ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے ساتھ ہی کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔

ہجوم پر قابو پانے کے اقدامات کے طور پر طالبان ہر وقت ہوائی فائرنگ کرتے ہیں۔

ایک مقامی صحافی انس بارکزئی ہمیں بتاتے ہیں کہ بیرون ملک جانے کے خواہشمند ایسے لوگ ہیں جو طالبان سے ڈرتے ہیں، مغربی حکومتوں کے ساتھ یا افغان فورسز کے ساتھ کام کر چکے ہیں، کچھ دوسرے لوگ ہوائی اڈے پر موجود ہیں کیونکہ وہ صرف ایک موقع حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی ملک چلے جائیں اور کوئی سوال نہیں پوچھا جائے۔

ہوائی اڈے کے باہر سے رپورٹنگ کے دوران طالبان جنگجو ہمیں دو مرتبہ فلم بندی سے روکتے ہیں اور ہمیں سیکیورٹی رسک کا حوالہ دیتے ہوئے دوسری جگہ جانے کو کہتے ہیں۔

اس کے باوجود ہم نے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری کردہ ایکریڈیشن لیٹر دکھایا۔ مجھے ابتدا میں طالبان کی بدری بریگیڈ 313 نے روکا اور مجھے یہ بتانے میں آدھا گھنٹہ لگا کہ مجھے بطور صحافی کام کرنے کی قانونی اجازت کیسے ہے۔

میں نے ہوائی اڈے کا گیٹ چھوڑ دیا لیکن فلم بندی جاری رکھی اور افغانستان سے جانے کے خواہش مند لوگوں سے بات کی۔

ہم سے ایک طالبان عہدیدار شاہ غاسی نے رابطہ کیا جو ہمارے پیچھے ایک کار میں تھا جو ہمیں فلم بندی سے دوسری مرتبہ روکنے کے فوراً بعد بات چیت پر راضی ہو گیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان کا آنکھوں دیکھا حال: مہنگائی کا رونا، عوام کو مستقبل کی پریشانی

عام معافی کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان نے کسی کو یہاں سے جانے کا حکم نہیں دیا اور یہ کہ جنہوں نے ماضی میں مغربی حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا وہ ’امریکا یا کینیڈا جانے کے موقع‘ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

ہمیں وہاں سے گئے محض 30 منٹ ہی گزرے تھے کہ خوف پر مبنی خیالات بدترین سچ میں تبدیل ہوگئے۔ کابل ایئرپورٹ کے باہر ایک بڑا دھماکا ہوا۔ ہم خوف کے ساتھ دیکھتے ہیں جب زخمی ہونے کی رپورٹیں آتی ہیں۔

کچھ ہی دیر بعد زخمیوں کے بعد ہلاکتوں کی خبریں آتی ہیں۔ شام بڑھتے ہی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم رات کے وقت شہر کے مرکزی ایمرجنسی سرجیکل سینٹر فار وار وکٹمز ہسپتال کے باہر کھڑے ہیں، ایمبولینس کے بعد ایمبولینس زخمیوں اور مرنے والوں کو لارہی ہیں۔

سیاسی بے یقینی اور الجھن کی ہوا اب غم اور سوگ سے بھر گئی ہے۔ ان لوگوں کے رشتہ دار جنہوں نے اپنے ذہنوں میں ایک محفوظ اور مستحکم کل کے خوابوں کے ساتھ ایئر پورٹ پر دن گزارا اب انہیں اپنے جسموں کی تلاش اور شناخت کرنا پڑ رہی ہے۔

ہمارے جذبات کا اظہار کرنا مشکل ہے۔ شکر ہے چند منٹ کے فرق سے ہم بچ گئے۔ دن ختم ہوتے ہی افغانوں کی ہلاکتوں کی تعداد 60 تک پہنچ گئی ہے۔

صحافت کا برسوں کا تجربہ آپ کو ایسے ایسے سانحات کے لیے تیار نہیں کرتا جو گزشتہ 40 برس میں افغانوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔

جب میں اس رات اپنے ہوٹل واپس آیا، جو ہسپتال سے صرف چند سو میٹر کے فاصلے پر ہے، میں کسی چیز پر توجہ نہیں دے سکا۔

جب میں سونے کے لیے جدوجہد کر رہا تھا ایک اور بڑے دھماکے نے ہمارے ہوٹل کی عمارت کو ہلا دیا۔

اگلی صبح ہوائی اڈے کے منظر کو دیکھ کر لگا کہ شاید کل رات یہاں کچھ بھی نہیں ہوا لوگ واپس جانے کے لیے بے چین تھے۔

جب ہم دوسرے دن کابل میں وزارت اطلاعات کی عمارت سے نکلے تو ہم نے ایک نوجوان لڑکے کو سڑک کے کنارے سوتے ہوئے دیکھا، اس نے ایک خالی اسکول بیگ کو تکیے کے طور پر استعمال کیا، جوتے کی پالش اور برش کا ایک جوڑا اس کے سر کے پاس ہے۔

یہ بچہ مغربی حکومت کی جانب سے خالی کرانے کے لیے ہوائی اڈے پر نہیں جا سکتا کیونکہ اس نے ان کے لیے کام نہیں کیا۔ اسے اب افغانستان میں ہی رہنا ہے۔

لیکن کیا وہ اپنے باقی ہم وطنوں کی طرح افغانستان کا المیہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوتے ہوئے دیکھے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں