’اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میرا نہیں خیال سینما ویسے ہی سہاگن بن سکے گی جیسے تھی وہ!‘۔ یہ جملہ شان شاہد نے لاہور سے فون پر بات کرتے ہوئے ادا کیا۔

شان کی حالیہ فلم زرار انہوں نے ہی لکھی ہے اور خود ہی اس کی ہدایت کاری اور پیشکش کی ہے۔ یہ فلم گزشتہ 2 سالوں سے ایڈیٹنگ مشینوں پر ہی ہے اور اس کی ریلیز کے لیے صحیح موقع اور حالات کا انتظار کیا جارہا ہے۔

تقریباً 2 سال ہونے کو آئے ہیں کہ سینما مالکان نے اپنے پروجیکٹروں کی تاریں نکال دی ہیں اور 50 فٹ کی اسکرینوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔

2021ء کی آخری سہ ماہی قریب آرہی ہے لہٰذا ہم نے چاہا کہ پاکستان میں سینما کے مستقبل پر روشنی ڈالی جائے۔ تو کیا سینما کے حوالے سے اب کوئی امید کی کرن موجود ہے؟ بلآخر جب دنیا بھر میں فلم کا کاروبار آہستہ آہستہ معمول پر واپس آرہا ہے تو پاکستان میں حالات اس سے مختلف کیوں ہوں؟

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنز سینٹر (این سی او سی) کے گزشتہ احکامات سے یہ اشارہ ملا تھا کہ شاید سخت ایس او پیز کے ساتھ سینما کو کھول دیا جائے اور لوگوں کو سینما میں داخلے کے لیے اپنے ویکسیشین کارڈ دکھانے پڑیں۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ میں یہ حکم نافذ نہیں ہوا کیونکہ یہاں سینما نہیں کھولے گئے۔ جولائی سے اگست تک پنجاب میں کچھ سینما ضرور کھلے لیکن باکس آفس کی آمدن کچھ خاص نہیں رہی (ذرائع کے مطابق باکس آفس کی درست آمدن کے حوالے سے اعداد و شمار دستیاب نہی ہیں)۔

اگر فلمی صنعت میں پھیلنے والی باتوں پر یقین کرلیا جائے تو اگلے دو ہفتوں کے اندر این سی او سی کا فیصلہ آجائے گا اور انہی ایس او پیز کے ساتھ سینما کھل جائیں گے۔

یہ بات ممکنات میں سے ایک لگتی ضرور ہے لیکن ہے نہیں۔

فلمی صنعت اور حکومت کے بااختیار افراد ابھی کسی سمجھوتے پر نہیں پہنچے ہیں اس وجہ سے ابھی سینما کھلنے کے حوالے سے کوئی امید نہیں رکھیں۔

اگر فلمیں بنانے والے اور انہیں دکھانے والوں کی بات سنی جائے تو ان کے مطابق فلمی صنعت اس وقت بہت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا فلمی صنعت کی حالت پہلے بھی ایسی ہی نہیں تھی؟ شاید ہاں لیکن اب حالات مزید خراب ہوچکے ہیں۔

ندیم مانڈوی والا ایک پروڈیوسر، تقسیم کار اور نمائش کنندہ ہیں (وہ سنٹارس اور ایٹریم سینما کا انتظام دیکھتے ہیں)۔ ان کے مطابق سینما مالکان کو حکومت سے ایک بیل آؤٹ پیکج کی ضرورت ہے۔ اگر یہ پیکج نہ ملا تو سینما بند ہوجائیں گے اور اگر سینما بند ہوئے تو فلمی صنعت بھی برقرار نہیں رہ سکی گی۔

ان کے مطابق دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کو اس کام کی کوئی بہت بڑی قیمت ادا نہیں کرنی ہوگی۔ مثال کے طور پر امریکا میں ہزاروں سینما ہیں اور اس کے برعکس پاکستان میں صرف 70 سینما ہیں۔

تاہم ندیم مانڈوی والا کو سال 2021ء کی آخری سہ ماہی میں سینما کی بحالی کے حوالے سے کچھ امید ضرور ہے۔ ان کے مطابق شاید اس کا اثر 2022ء کی پہلی ششماہی میں ہی نظر آئے۔

ان کے خیال میں اگر آج بھی این سی او سی کے احکامات کو لاگو کردیا جائے تو بھی چند سینما ہی کھلیں گے اور کچھ بڑے پروڈیوسر ہی بڑی فلمیں ریلیز کرنے کا رسک لیں گے۔ کسی بھی صورت میں یہ سب چیزیں اسی صورت ممکن ہوں گی جب مزید لاک ڈاؤن نہ لگیں اور کورونا کی کوئی نئی قسم سامنے نہ آجائے۔

پیر سعد سنی پیکس سینما کے سربراہ ہیں جو پاکستان میں سینما کی سب سے بڑی چین ہے۔ وہ فٹ پرنٹ انٹرٹینمنٹ نامی ادارے کے بھی سربراہ ہیں جو ڈزنی، فاکس، پیراماؤنٹ اور یونیورسل کی فلمیں ریلیز کرتا ہے۔ وہ این سی او سی کے منصوبے کی تعریف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ 2021ء کے ماندہ عرصے میں سینما کے لیے اب کوئی امید نہیں ہے۔

اگرچہ فلمی صنعت مشکلات کا شکار ہے لیکن پیر سعد کے مطابق اس وقت انتظار کرنا ہی بہتر ہے۔ ان کے مطابق جو چیز مالکان کو سینما دوبارہ کھولنے سے روک رہی ہے وہ فلموں کو ریلیز کرنے کی حکمتِ عملی ہے۔

اگر فلموں کو سال بھر کے بجائے صرف عید یا دیگر تہواروں پر ہی ریلیز کیا جائے گا تو سینما مالکان سال بھر کیا چلائیں گے؟ اگر ہالی وڈ فلموں کی بات کی جائے تو ان کے ناظرین کی تعداد بہت محدود ہے اور وہ عوام کی بڑی تعداد کو راغب نہیں کرتیں۔

عمر خطیب خان ایک تقسیم کار ہیں جن کی میٹرو لائیو موویز درمیانے اور کم بجٹ والی آزاد فلموں پر ہی چلتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر تیار ہیں اور جیسے ہی سینما کھلتے ہیں وہ اپنی فلمیں ریلیز کردیں گے۔

ان کے پاس 6 مکمل فلمیں موجود ہیں (جن میں سے 5 فلم ساز ابو علیحہ کی ہیں جن کا نیچے ذکر آیا ہے) اور 3 فلموں پر بات چیت جاری ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ان کی تمام فلموں کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی لیکن ’سینما کی خاطر‘ وہ اور ان فلموں کے پروڈیوسر یہ رسک لینے کو تیار ہیں۔ شاید ان جیسے افراد کم ہی ہوں اور ان کے اس حوصلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فلموں کی مالیت کے حوالے سے ان کا کچھ زیادہ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔

شان کے مطابق فلم سازوں کو نئے میدان تلاش کرنے چاہئیں اور تبدیلی کا آغاز حکومت کی جانب سے ہونا چاہیے۔ عالمی سطح پر فلموں کی ریلیز کے حوالے سے معاہدے یا اسٹریمنگ پلیٹ فارمز کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے کیونکہ ندیم مانڈوی والا کی طرح ان کا بھی یہی خیال ہے کہ سینما کھلنے میں ابھی خاصا وقت ہے۔

شان کے مطابق جو لوگ واقعی انٹرٹینمنٹ کے کاروبار کے حوالے سے فکرمند ہیں انہیں چاہیے کہ سینما کا رخ کرنے کے بجائے مقامی طور پر تیار کردہ او ٹی ٹی (اوور ڈی ٹاپ اسٹریمنگ پلیٹ فارم) پر توجہ دیں۔ یہ سرمایہ کاری کئی ارب روپے کی ہوسکتی ہے لیکن طویل مدت میں یہ فلم سازوں کے کام آئے گی۔

تصویر: سعد عارفی
تصویر: سعد عارفی

حسن ضیا ’گھبرانہ نہیں ہے‘ کے پروڈیوسر ہیں۔ یہ فلم انہوں نے نیوپلیکس سینما چین کے مالک جمیل بیگ کے ساتھ بنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فلمی صنعت میں موجود غیر یقینی فلم سازوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا رہی ہے۔

ان کے مطابق سخت محنت کے بعد چند فلم سازوں نے اس صنعت میں قدم جمالیے تھے۔ تاہم یہ تاخیر فلم سازوں میں موجود سنجیدگی کو ختم کردے گی اور اگر حالات بد سے بدتر ہوجاتے ہیں تو صرف زیادہ پیسے والے فلم ساز ہی فلمیں بنائیں گے اور وہ بھی صرف شوق کے طور پر۔

حسن ضیا کا ہم سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستانی سینما کی بقا کا تمام دار و مدار سینما کے کھلنے پر ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے برعکس جہاں سینما کلچر پروان چڑھ چکا ہے، پاکستان کے پاس او ٹی ٹی پلیٹ فارمز نہیں ہیں یا پیسہ کمانے کے لیے دیگر ذیلی راستے نہیں ہیں۔ ٹی وی چینلوں کو فلم کی فروخت سے پروڈیوسرز کو مالی اعتبار سے زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔

ماضی میں ہونے والی مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حسن ضیا کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کتنے سینما اب دوبارہ کھلیں گے۔

شاید یہ آخری موقع ہوگا جب ہم اس موضوع پر تفصیل سے بات کر رہے ہیں، اس وجہ سے یہاں سیاق و سباق کے لیے ماضی کی کچھ تفصیل دی جارہی ہے۔

فلم کے کاروبار میں بنیادی طور پر 3 کردار ہوتے ہیں۔ ان میں سینما مالکان (جنہیں نمائش کنندہ کہا جاتا ہے)، پروڈیوسر جو فلمیں بناتے ہیں اور تقسیم کار جو نمائش کنندگان کو فلمیں فراہم کرتے ہیں شامل ہیں۔

کورونا وائرس کے بعد سینما بند ہوگئے اور پروڈیوسروں نے فلموں کی شوٹنگ کا شیڈول بھی تبدیل کردیا۔ گزشتہ 2 سالوں کے دوران نامور پروڈیوسروں اور کچھ آزاد پروڈیوسروں نے اپنی فلمیں مکمل کرلی ہیں (سوائے ’لندن نہیں جاؤں گا‘ جس میں ہمایوں سعید ہیرو ہیں۔ اس فلم کے لندن کے مناظر ابھی شوٹ نہیں ہوئے ہیں اور یہ فلم 5 بڑی فلموں میں سے ایک سمجھی جارہی ہے)۔

کچھ فلم ساز جیسے نبیل قریشی اور فضا علی میرزا اور ابو علیحہ نے مزید فلمیں بھی بنائیں (نبیل اور فضا نے فہد مصطفیٰ اور ماہرہ خان کے ساتھ ’قائدِاعظم زندہ باد‘ مکمل کرنے کے بعد حال ہی میں سجل علی اور بلال عباس کے ساتھ ’کھیل کھیل میں‘ بھی مکمل کرلی ہے۔ اس کے علاوہ ابو علیحہ نے ’ادھم پٹخ‘، ’لاک ڈاؤن‘، ’ونس اپان اے ٹائم ان کراچی‘ اور ’شینوگئی‘ مکمل کرلی ہیں اور ’جاوید اقبال‘ پر پروڈکشن مکمل ہونے کو ہے)۔

اس وقت تقریباً 20 بڑی فلمیں مکمل ہیں اور 30 سے 40 فلمیں مختلف مراحل میں ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کم از کم اتنا تو ہوا کہ اس صنعت کو اپنی شاندار واپسی کے لیے خاطر خواہ فلمیں مل گئیں۔ عام طور پر ایک سال میں عموماً 5 بڑی پاکستانی فلمیں ریلیز ہوتی تھیں اور اس وقت 20 فلمیں تیار حالت میں موجود ہیں۔

اس کے نتیجے میں تقسیم کاروں نے پروڈیوسروں کے ساتھ معاہدے شروع کردیے ہیں تاکہ جب سینما کھلیں تو ان کے پاس کئی فلمیں موجود ہوں۔ نمائش کنندگان کے واجبات کی وصولی کے وقت بھی فلموں کا ذخیرہ تقسیم کاروں کے کام آئے گا۔ یوں کسی بھی قسم کے فیصلے کے وقت تقسیم کاروں کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ جب تک مالی معاملات طے نہ پائیں وہ سینما میں فلمیں نہ لگنے دیں۔

سال 2018ء اور 2019ء میں نمائش کنندگان پر واجب الادا رقم ایک بڑا مسئلہ تھی۔ مشترکہ طور ان واجبات کی مالیت 50 کروڑ روپے بنتی تھی جو نمائش کنندگان کی جانب سے تقسیم کاروں کو ادا کیے جانے تھے (اس ضمن میں کچھ ادائیگیاں ہوچکی ہیں اور ابھی صحیح اعداد و شمار کا پتا لگانا بہت مشکل ہے)۔ بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کی جانب سے ہالی وڈ فلموں کی برآمد اور درآمد پر پابندی کے فیصلے اور تقسیم کاروں کی جانب سے اس کے نفاذ کے بعد سینما گھروں میں فلم بینوں کی تعداد کم ہوگئی اور یوں یہ واجبات بڑھتے گئے۔

صرف ہالی وڈ فلموں سے پاکستانی سینما نہیں چل سکتے۔ دوسری جانب ہماری اپنی فلمیں تعداد میں تو کم ہوتی ہی ہیں ساتھ ہی اپنی جمالیات اور تکنیکی خصوصیات کے حوالے سے بھی بہت زیادہ معیاری نہیں ہوتیں۔ بڑی فلمیں صرف عید پر ہی ریلیز ہوتی ہیں جہاں وہ باکس آفس پر حکمرانی کے لیے ایک دوسرے کے مدِمقابل ہوتی ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے فلمی صنعت پہلے ہی عدم استحکام کا شکار تھی۔

یہ اندرونی رسہ کشی جاری رہی اور اس دوران پریس میں یہ سوال بارہا اٹھایا گیا کہ آخر بڑی فلموں کو سال بھر ریلیز کیوں نہیں کیا جاتا تاکہ کم بجٹ کی فلموں اور ہالی وڈ فلموں کی ریلیز کے لیے بھی جگہ بنائی جاسکے؟ کیا اس حکمتِ عملی سے فلم بینوں کو صرف عید کے علاوہ سال بھر بھی سینما میں آنے کے لیے راغب نہیں کیا جاسکتا؟ اور اس کے نتیجے میں لوگ متعدد بار سینما کا رخ نہیں کریں گے؟

لیکن بدقسمتی سے کسی نے ان سوالات پر کان نہیں دہرے اور 2019ء کے اواخر تک باکس آفس کے اعداد و شمار نیچے کی جانب ہی جاتے رہے۔ اس دوران کوئی بھی رسک لینے کو تیار نہیں تھا۔

نمائش کنندگان کی جانب سے ادائیگی کا دورانیہ 4 سے 6 ہفتے ہوتا تھا جو اس وقت قابلِ قبول ہوا کرتا تھا تاہم 2017 سے 2019ء کے درمیان یہ دورانیہ 4 سے 6 ماہ ہوگیا تھا۔ اس کی وجہ کم آمدن، زیادہ اخراجات اور جگہوں کے کرائے تھے۔

لیکن اس کے باوجود بھی اگر کاروبار کو ایمانداری سے چلایا جاتا تب بھی شاید کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔

ٹکٹوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کو عام طور پر سینما کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم کاروں کو ہونے والی ادائیگیوں کے طویل دورانیے بالی وڈ فلموں کے خلا کو پورا کرنے اور مقامی فلمیں بنانے کے حوالے سے پروڈیوسروں کے لیے حوصلہ شکنی کا باعث بنتے (دسمبر میں ریلیز ہونے والی فلم کی ادائیگی مئی میں ریلیز ہونے والی فلم کی آمدن سے کی جاتی)۔

تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو سینما کا ایک ٹکٹ 600 سے 1500 روپے تک کا ہوتا ہے جس کا نصف نمائش کنندہ یا سینما مالک کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنے اس حصے سے ہی اپنا کاروبار چلاتے رہتے تو پریشانیوں سے بچے رہتے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ 1500 روپے کا سینما ٹکٹ نیٹ فلکس کی مہینے بھر کی سبسکرپشن کے برابر ہے۔

اس حوالے سے بارہا بحث ہوچکی ہے کہ حکومت کو اب مداخلت کرنی چاہیے اور چیزوں کو درست کرنا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب تک حکومت کو معلوم ہی نہیں تھا کہ فلمی دنیا کے کسی بھی مسئلے کو حل کیسے کیا جائے۔

دیکھا جائے تو اس میں ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔ کئی مرتبہ وزارتِ اطلاعات اور نشریات اور ڈائریکٹریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشنز (ڈی ای ایم پی) کو حاصل معلومات کا انحصار بھی ان کے سامنے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار پر ہی ہوتا ہے۔ ڈی ای ایم پی ہی وہ ادارہ ہے جو فلم کے معاملات کو دیکھتا اور حالیہ فلم پالیسی بھی اسی کا کارنامہ ہے۔ حکومت کا کام سہولت کاری کا ہے لیکن وہ ایسا کیسے کرے جب اسے نمائش کنندگان اور تقسیم کاروں کی جانب سے مختلف معلومات دی جائیں گی۔

لیکن یہ سب اب ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔ اس وقت منصوبہ یہی ہے کوئی منصوبہ بندی نہ کی جائے۔

فلمی برادری کے مابین کئی مواقعوں پر گفتگو ہوئی جس میں سے کچھ کی میزبانی حکومت نے بھی کی لیکن پھر بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکا۔ میرے مشاہدے کے مطابق حکمتِ عملی یہ ہے کہ کوئی حکمتِ عملی نہ بنائی جائے اور دیکھا جائے کہ کون پہلے ہار مانتا ہے۔

فلم بینوں کو ان جھگڑوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس قسم کے جھگڑے کی وجہ سے لوگ سینما کلچر کو سنجیدہ نہیں لیتے۔

ویسے بھی مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم ایک فیصد سے بھی کم عوام کو راغب کرسکے ہیں۔ کورونا سے پہلے کے دور میں باکس آفس کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سے ہی فلموں میں فلم بینوں کی دلچسپی کم ہونا شروع ہوچکی تھی، اور اب جبکہ ہمارے پاس خاطر خواہ فلمیں موجود ہیں تو ہمیں سینما کی بندش یا کم از کم ان کے کھلنے میں تاخیر کا سامنا ہے۔

یہاں وارنر بروز اور ڈزنی جیسے اداروں کے او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے آنے، جیمز بانڈ کی فلم ’نو ٹائم ٹو ڈائی‘ اور ’ایف 9‘ جیسی بڑی فلموں پر انحصار اور مہنگے ٹکٹوں جیسے جائز خدشات موجود ہیں تاہم ان مسائل کو حل کرنا ناممکن نہیں ہے۔

اس کے علاوہ این سی او سی کے احکامات کے نفاذ کا وقت بھی تب ہی آئے گا جب فلموں کی اسکریننگ شروع ہوگی۔

اس وقت کاروبار کا تمام تر دار و مدار صرف ایک چیز پر ہے اور وہ ہے سینما گھروں کا دوبارہ کھلنا۔

اگر متعدد اسکرینز اور ایک اسکرین والے سینما نہیں کھلتے تو فلم سازوں کے پاس اپنی فلموں کی نمائش کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ فلموں کے بغیر سینما کلچر بھی برقرار نہیں رہ سکے گا اور سینما کے بغیر ماضی کی طرح تفریح کے چند ہی مواقع بچتے ہیں۔

ہمیں سینما کو دوبارہ اسی صورتحال میں نہیں لے جانا جس میں وہ 1990 کی دہائی سے لے کر 2012ء تک رہا۔

کھانے پینے سے متعلق کاروبار نے تو ایس و پیز کو اختیار کرلیا ہے۔ شاپنگ مالز اور دفاتر بھی کھل گئے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے سینما نے ہی ایک بڑی قیمت چکائی ہے۔

جیسا کہ شان نے کہا کہ ’اب کچھ نہیں ہوسکتا‘۔ اور وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ صورتحال ایسی ہی ہے لیکن تمام غلط وجوہات کے باعث۔


یہ مضمون 05 ستمبر 2021ء کو ڈان آئیکون میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں