لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

گزشتہ چند مہینوں سے الیکٹرانک ووٹنگ میشن (ای وی ایم) پر مباحثے، تبصرے اور تجزیے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ موجود حکومت کی بقیہ 2 سالہ مدت کے دوران بھی یہ موضوع زیرِ بحث رہے گا۔

حکومت نے اکتوبر 2020ء میں ایک نئے بل اور مئی 2021ء میں نافذ العمل ہونے والے ایک آرڈینینس کے ذریعے عام انتخابات میں ای وی ایمز کے استعمال سمیت الیکشن ایکٹ 2017ء میں 50 ترامیم کی تجویز پیش کی تھیں۔ مگر ہم بقیہ 49 ترامیم کو چھوڑ کر صرف ایک پر ہی بحث کیے جا رہے ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور واحد ایسا پارلیمانی فورم ہے جہاں مجوزہ بلوں پر ٹھنڈے مزاج کے ساتھ مباحثہ کیا جاتا ہے، مگر ای وی ایمز کے موضوع پر وہاں بھی گرما گرمی ہوئی۔ ای وی ایمز پر تنازع نے نہ صرف حکومت کے اپوزیشن کے ساتھ تعلقات کو بد سے بدتر کردیا ہے بلکہ وفاقی وزرا اور حکومتی ترجمانوں کی جانب سے اسی تناظر میں الیکشن کمیشن آف پاکستان پر نہ صرف کڑی تنقید کی گئی بلکہ ادارے کے خلاف اشتعال انگیز بیانات بھی دیے گئے۔

ای وی ایمز پر ہونے والے شدید مباحثے کی وجہ سے الیکشن ایکٹ 2017ء میں بقیہ مجوزہ ترامیم کو توجہ ہی نہیں مل سکی ہے، مگر چند لوگ ہی یہ جان پائے ہیں کہ حکومت نے مجوزہ چند متنازع تبدیلیوں کے ساتھ چند مفید اور جدید تصورات کی بھی سفارشات پیش کی ہیں۔

میرے گزشتہ مضمون میں ای وی ایمز سمیت انتخابی قوانین میں بڑی حد تک متنازع حکومتی تجاویز پر روشنی ڈالی گئی تھی لیکن اس تحریر میں چند خوش آئند سفارشات کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔

پڑھیے: انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد کس طرح بحال کیا جائے؟

الیکشن (ترمیمی) بل 2021ء میں متعدد ایسی تجاویز شامل ہیں جن کا مقصد خواتین، غیر مسلم اقلیتوں، خواجہ سراؤں اور جسمانی طور پر معذور افراد جیسے معاشرے کے محروم طبقات کو انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس شمولیت کو (شق 12کے تحت) تربیتی سرگرمیوں اور عوامی آگاہی سے متعلق اقدامات میں تجویز کیا گیا ہے۔

(شق 84 کے تحت) پولنگ افسران پر لازم قرار دیا گیا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی مدد فراہم کی جائے۔ (شق 167 کے تحت) ہر اس شخص کو مجرم قرار دیا جائے گا جو پہلے سے موجود قانون کے مطابق مذہب، صوبے، کمیونٹی، نسل، ذات، برادری، فرقے یا قبیلے کے علاوہ صنفی بنیاد پر کسی شخص کو ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے پر اکسانے کی کوشش کرے گا۔

مجوزہ بل میں الیکشن کمیشن صرف اسی سیاسی جماعت کو رجسٹر کرے گی جو کم از کم 20 فیصد خواتین اراکین پر مشتمل ہوگی، اس سے پہلے شق 202 میں یہ شرط شامل نہیں کی گئی تھی۔ اس سے قبل الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 203 میں سیاسی جماعتوں سے تقاضا کیا گیا تھا کہ وہ خواتین کو بطور رکن اپنی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ تاہم اب یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ خواتین کے ساتھ معذور افراد اور سراؤں کو بھی شامل کیا جائے۔

مجوزہ ترمیمی بل میں نہ صرف شمولیت پر زور دیا گیا ہے بلکہ اس میں الیکشن کمیشن سے مختلف نوعیت کی معلومات کو اپنی ویب سائٹ پر جاری کرنے کا تقاضا کرتے ہوئے شفافیت پر زور بھی دیا گیا ہے۔

مثلاً، سول سوسائٹی ایک عرصے سے الیکشن کمیشن کو قانون سازوں کے اثاثوں اور واجبات کی تفصیلات سالانہ بنیادوں پر اپنی ویب سائٹ پر ظاہر کرنے کا مطالبہ کرتی چلی آرہی ہے کیونکہ یہ معلومات حکومت کے باضابطہ گزیٹ میں تو نوٹیفائی کی جاتی ہے لیکن الیکشن کمیشن اس بنیاد پر ان مطالبات کو مسترد کردیتا ہے کہ قانون (شق 38) واضح الفاظ میں الیکشن کمیشن کو معلومات ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا پابند نہیں بناتا۔

ترمیمی بل میں اس معلومات کی الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اشاعت کو لازمی بنایا گیا ہے۔ مجوزہ بل میں شق 64 اور شق 68 میں تبدیلی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اپنی ویب سائٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ابتدائی اور حتمی فہرستوں کو جاری کرنے کا بھی پابند بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شق 92 میں بھی ترمیم لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ الیکشن کمیشن صوبائی انتخابات کے نتائج کو فوری طور پر ویب سائٹ پر جاری کرسکے۔

پڑھیے: الیکشن کمیشن کو اب یہ سوچنا ہوگا کہ عوام اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے!

موجودہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن صرف اسی سیاسی جماعت کو رجسٹر کرسکتی ہے جو اپنے 2 ہزار ارکان کی فہرست بمعہ قومی شناختی کارڈ نقول جمع کروائے گی۔ لیکن اب اس تعداد کو 10 ہزار تک بڑھانے کے لیے شق 202 میں ترمیم لانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اراکین کی تعداد میں اضافے کا مقصد بہت ہی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل سے دُور رکھنا ہوسکتا ہے لیکن اس اقدام سے نئی جماعتوں کا بالخصوص چھوٹے صوبوں میں تشکیل پانے کا عمل متاثر ہوگا۔ ہونا یہ چاہیے کہ ابتدائی طور پر سیاسی جماعتوں کو 2 ہزار اراکین کی فہرست کے ساتھ ہی رجسٹر کردینا چاہیے تاہم چند، مثلاً 5 برس بعد الیکشن کمیشن ان کی رجسٹریشن برقرار رکھنے کو 10 ہزار اراکین کی فہرست جمع کروانے سے مشروط کردے۔

الیکشن ایکٹ 2017ء میں نئی شق 213-اے کے اضافے کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو سالانہ کنوینشن کروانے کا پابند بنانے کا ایک بالکل نیا تصور تجویز کیا گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سالانہ کنوینشن کی رپورٹ الیکشن کمیشن کو جمع کروانی ہوگی جن میں کم از کم 10 مسائل اور ان کی وجوہات اور پارٹی اراکین کی اکثریتی رائے پر مبنی ان مسائل کے حل کو پیش کرنا ہوگا۔ اگرچہ اس قانون کی افادیت دیانتداری سے اس پر عمل درآمد پر منحصر ہوگی، مگر یہ تصور قابلِ تعریف ہے کیونکہ اس طرح بہتر انٹرا پارٹی رابطہ اور داخلی پالیسی مباحثوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

پڑھیے: ڈسکہ سے کراچی، انتخابی نااہلی کی طویل داستان

حکومت کی جانب سے متعارف کردہ بل میں مثبت ترمیمی تجاویز شامل ہونے کے باوجود ایسی بہت سی تجاویز ہیں جن پر الیکشن کمیشن نے قانونی بنیادوں اور اپوزیشن نے سیاسی وجوہات پر اعتراض اٹھائے ہیں۔

میڈیا رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ سینیٹ کمیٹی برائے پارلیمانی امور میں ای وی ایمز پر گفتگو کے دوران ہونے والی گرما گرمی کے باوجود دیگر متنازع تجاویز پر سمجھوتہ طے پا گیا ہے۔ اگر ای وی ایمز جیسے نہایت متنازع معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہوتا تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہوگی اور ممکنہ طور پر سماجی و سیاسی اختلاف کی راہ ہموار کرے گی۔

کمیٹی کی کارروائیوں کا سب سے ناگوار پہلو چند وفاقی وزرا کی جانب سے الیکشن کمیشن پر زبانی حملہ رہا۔ کمیٹی میں مجوزہ بل کے ایک بڑے حصے پر سمجھوتے کی راہ ہموار ہوجانے کے بعد طے شدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں یکطرفہ طور پر انتخابی اصلاحات لانے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بڑا ہی قابلِ افسوس امر ہوگا۔


یہ مضمون 12 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں