سابق افغان حکام کے گھروں سے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر، بڑی مقدار میں سونا ضبط

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2021
مرکزی بینک نے کہا ہےکہ افغان شہری اپنے معاہدوں اور معاشی لین دین میں افغانی کرنسی استعمال کریں—فوٹو: رائٹرز
مرکزی بینک نے کہا ہےکہ افغان شہری اپنے معاہدوں اور معاشی لین دین میں افغانی کرنسی استعمال کریں—فوٹو: رائٹرز

کابل: افغانستان کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ طالبان نے سابق حکومتی عہدیداروں کے گھروں سے ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر سے زائد نقد رقم اور بڑی مقدار میں سونا ضبط کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق طالبان کو افغانستان میں عبوری حکومت قائم کیے ایک ماہ کا وقت گزر چکا ہے جہاں مالی بحران میں شدت آرہی ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان سابق افغان حکام کے بینک اکاؤنٹس کی چھان بین میں مصروف

بیشتر سرکاری ملازمین تاحال اپنے دفاتر واپس نہیں آئے ہیں اور تنخواہوں کی ادائیگی پہلے ہی کئی ماہ سے زیر التوا ہے۔

اگر کسی کے پاس معقول رقوم بینک میں ہے تو وہ یومیہ 200 ڈالر سے زائد نقد حاصل نہیں کرسکتا جبکہ رقم کو بینک سے نکالنے کے لیے طویل قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور جس میں غیرمعمولی خرچ ہوتا ہے۔

بیرون ملک سے ترسیلات زر دوبارہ شروع ہوچکی ہیں، نقد رقم کے لیے ویسٹرن یونین اور منی گرام جانے والے متعدد افراد نے شکایت کی کہ انہوں نے متعدد شاخوں کے چکر لگائے لیکن کہیں بھی نقد رقم موجود نہیں ہے۔

بینک نے ملک میں تمام لین دین مقامی کرنسی میں کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے افغانستان کے مرکزی بینک کا نیا عبوری سربراہ مقرر کردیا

مرکزی بینک نے سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کے تمام افغانوں سے کہا ہے کہ وہ اپنے معاہدوں اور معاشی لین دین میں افغانی کرنسی استعمال کریں۔

بینک نے بعد میں ایک اور بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ طالبان نے سابق حکومت کے حکام کے گھروں سے ضبط شدہ ایک کروڑ 23 لاکھ ڈالر نقد اور سونا بینک کے حوالے کردیا ہے، برآمد کیا جانے والا ایک بڑا حصہ سابق نائب صدر امر اللہ صالح کے گھر کا ہے۔

بینک نے کہا کہ برآمد ہونے والی رقم اعلیٰ عہدے داروں اور قومی سلامتی کی متعدد ایجنسیوں کی جانب سے آئی ہے جنہوں نے اپنے گھروں میں نقدی اور سونا رکھا تھا۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’تاہم یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ انہیں کس مقصد کے لیے رکھا گیا تھا‘۔

مزید پڑھیں: طالبان کا خوف: افغان خواتین فٹبالرز پاکستان پہنچ گئیں

سابق افغان فوج کا سپاہی عبدالرحیم فاریاب سے دارالحکومت تک ایک ہزار کلو میٹر کا سفر طے کر کے اپنے پیسوں کی وصولی کے لیے آیا تھا۔

عبدالرحیم نے بتایا کہ بینک کی برانچیں صوبے میں بند ہیں اور کابل میں ہزارو لوگ پیسے نکلوانے کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں، میں گزشتہ 3 دن سے بینک جارہا ہوں لیکن اپنے مقصد میں ناکام رہا ہوں۔

جنیوا میں ایک ڈونر کانفرنس میں افغانستان کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی امداد کا وعدہ کرنے کے بعد طالبان نے عالمی برادری کا شکریہ ادا کیا۔

اقوام متحدہ کے چیف انتونیو گوتریس نے رواں ہفتے کہا تھا کہ موجودہ وقت میں طالبان کے ساتھ بات چیت کرنا بہت ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں