اشرف غنی کے اچانک فرار ہونے سے شراکت اقتدار کا معاہدہ ناکام ہوگیا، زلمے خلیل زاد

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2021
افغان حکومت کے خاتمے کے بعد زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو پہلا انٹرویو دیا—فائل فوٹو: رائٹرز
افغان حکومت کے خاتمے کے بعد زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو پہلا انٹرویو دیا—فائل فوٹو: رائٹرز

امریکی مذاکرات کار نے کہا ہے کہ گزشتہ ماہ سابق افغان صدر اشرف غنی کے اچانک چلے جانے نے ایک معاہدہ ناکام بنادیا جس کے تحت طالبان کو کابل میں داخلے سے روکا جاتا اور سیاسی منتقلی پر بات چیت کی جاتی۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 20 سال سے مغرب کی حمایت سے چلنے والی افغان حکومت کے ختم ہونے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ باغی, دارالحکومت کے باہر 2 ہفتوں تک رکنے اور مستقبل کی حکومت کا ڈھانچہ تشکیل دینے پر رضامند تھے۔

امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’حتیٰ کے آخر میں بھی ہمارا طالبان کے ساتھ معاہدہ ہوگیا تھا کہ وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں:افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ گئے، طالبان دارالحکومت کابل میں داخل

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’لیکن 15 اگست کو اشرف غنی فرار ہوگئے اور طالبان نے چیف آف کمانڈ جنرل فرینک میکینزی کے ساتھ پہلے سے طے شدہ اجلاس میں پوچھا کہ چونکہ حکومت ختم ہوگئی ہے تو کیا امریکی افواج کابل کی سیکیورٹی یقینی بنائیں گی'۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ ’اور پھر آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوا، ہم یہ ذمہ داری نہیں لینے والے تھے‘۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا تھا کہ امریکی فوجی صرف امریکی شہری اور افغان اتحادیوں کو نکالنے کے لیے کام کریں گے اور امریکا کی طویل ترین جنگ کی مدت میں توسیع نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: اشرف غنی نے افغان قوم سے معافی مانگ لی

دوسری جانب زلمے خلیل زاد کے ریمارکس کے بارے میں سوال پوچھنے پر امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ کابل میں ’ایک لمحے تک‘ ٹھہرنا کوئی آپشن نہیں تھا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا کے ٹھہرنے کے لیے کبھی کوئی حقیقت پسندانہ، قابل عمل اور عملی آپشن نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بہت واضح تاثر دیا گیا کہ اگر امریکا نے زمین پر ہماری موجودگی کو طول دینا چاہا تو ہمارے فوجی پھر طالبان کے تشدد کا نشانہ بنیں گے، یہاں انہوں نے داعش جیسے گروہوں کے دہشت گرد حملوں کا ذکر نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں