روس کے وسطی ایشیائی اتحادیوں کا افغان مہاجرین کی میزبانی سے انکار

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2021
مارے ملکوں کی سرزمین پر افغان مہاجرین یا غیر ملکی فوجی اڈوں کا قیام ناقابل قبول ہے، قازقستان - فائل فوٹو:اے پی
مارے ملکوں کی سرزمین پر افغان مہاجرین یا غیر ملکی فوجی اڈوں کا قیام ناقابل قبول ہے، قازقستان - فائل فوٹو:اے پی

روس کے زیر قیادت سیکیورٹی بلاک کے ارکان، جن میں افغانستان سے ملحقہ یا قریبی ممالک شامل ہیں، ملک میں سیاسی اور سیکیورٹی بحران کی وجہ سے افغان مہاجرین کی میزبانی کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بلاک کے رکن قازقستان نے کہا ہے کہ اجتماعی سلامتی معاہدہ تنظیم (سی ایس ٹی او) میں تین وسطی ایشیائی ممالک تاجکستان، کرغیزستان اور قازقستان کے علاوہ کئی اور دور دراز کے سابق سوویت ریپلک ممالک شامل ہیں۔

خیال رہے کہ تاجکستان کی افغانستان سے طویل سرحد ملتی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان پناہ گزینوں کا پاکستان میں قیام کی مدت میں توسیع کا مطالبہ

جمعرات کو تاجکستان میں بلاک کے ایک سربراہی اجلاس میں قازقستان کے صدر قاسم جومارٹ ٹوکائیف نے مشترکہ سی ایس ٹی او مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ 'ہمارے ملکوں کی سرزمین پر افغان مہاجرین یا غیر ملکی فوجی اڈوں کا قیام ناقابل قبول ہے'۔

اس کے علاوہ دو مزید وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان اور ترکمانستان بھی افغانستان کی سرحد سے ملتے ہیں تاہم سی ایس ٹی او کے رکن نہیں ہیں۔

تاہم ازبکستان نے بھی یہ کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو طیاروں کے ذریعے صرف تیسرے ملکوں میں منتقل کرنے کی اجازت دے گا۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمیشن کی رپورٹ کے مطابق افغانی دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی آبادی میں سے ایک ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا میں 26 لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین ہیں جن میں سے 22 لاکھ صرف ایران اور پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘عالمی برداری افغان پناہ گزین کے مسائل دور کرنے کیلئے تعاون کرے’

مزید 35 لاکھ لوگ اندرونی سطح پر بے گھر ہیں جو ملک کے اندر پناہ کی تلاش میں اپنے گھروں سے فرار ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ حالیہ دنوں طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر قبضے کے بعد سے ملک میں تیزی سے بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کی روشنی میں ممکنہ طور پر فرار ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

واضح رہے کہ افغانستان 40 سال سے زیادہ تنازعات، قدرتی آفات، دائمی غربت اور غذائی عدم تحفظ کا شکار رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں