افغانستان میں جامع حکومت کیلئے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2021
وزیر اعظم کی جانب سے ٹوئٹ کے ذریعے یہ بیان ایس سی او سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آیا — فائل فوٹو / عمران خان انسٹا گرام
وزیر اعظم کی جانب سے ٹوئٹ کے ذریعے یہ بیان ایس سی او سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آیا — فائل فوٹو / عمران خان انسٹا گرام

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان میں مختلف برادریوں کی نمائندگی کرنے والی جامع حکومت کے قیام کے لیے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے۔

وزیر اعظم کی جانب سے ٹوئٹ کے ذریعے یہ بیان تاجکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے 20ویں سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آیا جس میں عمران خان سمیت علاقائی قیادت نے امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان کی صورتحال پر غور کیا۔

اپنی ٹوئٹ میں وزیر اعظم نے کہا کہ 'دوشنبے میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں خصوصاً تاجکستان کے صدر امام علی رحمٰن سے طویل بات چیت کے بعد میں نے ایک شمولیتی حکومت کی خاطر تاجک، ہزارہ اور ازبک برادری کی افغان حکومت میں شمولیت کے لیے طالبان سے مذاکرات کی ابتدا کر دی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ '40 برس کی لڑائی کے بعد ان دھڑوں کی اقتدار میں شمولیت ایک پرامن اور مستحکم افغانستان کی ضامن ہوگی جو محض افغانستان ہی نہیں بلکہ خطے کے بھی مفاد میں ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کو اپنے وعدے پورے کرنے چاہئیں، وزیراعظم

پاکستان، طالبان کے قبضے اور عبوری حکومت کے اعلان کے بعد سے افغانستان میں شمولیتی حکومت کی ضرورت پر زور دے رہا ہے۔

وزیر اعظم نے اس بات پر ایس سی او اجلاس سے خطاب میں بھی زور دیا۔

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے اور شمولیتی سیاسی ڈھانچہ بنانا چاہیے جس میں تمام نسلی گروپوں کی نمائندگی ہو کیونکہ یہ افغانستان کے استحکام کے لیے ضروری ہے'۔

افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران نے کہا کہ طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک 'نئی حقیقت' سامنے آئی۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں موجودہ طالبان حکومت کو تسلیم کیا جانا بہت اہم قدم ہوگا، وزیر اعظم

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا'۔

انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سیکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔

تبصرے (0) بند ہیں