افغانستان: وزارت امورِ خواتین ’نیکی کا حکم دینے، برائی سے روکنے‘ میں تبدیل

اپ ڈیٹ 19 ستمبر 2021
افغان خواتین کے نیٹ ورک کی سربراہ نے کہا کہ یہ واقعی بہت  پریشان کن صورتحال ہے—فوٹو: اے پی
افغان خواتین کے نیٹ ورک کی سربراہ نے کہا کہ یہ واقعی بہت پریشان کن صورتحال ہے—فوٹو: اے پی

کابل: افغانستان میں طالبان حکمرانوں نے ’نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے‘ کی وزارت قائم کردی جہاں کبھی امورِ خواتین کی وزارت فعال تھی اور عمارت میں موجود عالمی بینک کے عملے کو باحفاظت باہر نکال دیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابل پر طالبان کا کنٹرول حاصل ہوئے ایک ماہ کا مختصر وقت گزرا ہے اور اس اقدام کو خواتین کے حقوق کو محدود کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان کا خوف: افغان خواتین فٹبالرز پاکستان پہنچ گئیں

90 کی دہائی میں طالبان نے اپنی سابقہ حکومت کے دوران لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم اور انہیں عوامی زندگی سے روک کیا تھا۔

طالبان کو حکومتی امور فعال رکھنے کے لیے بڑے معاشی بحران اور سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے اور داعش کے عسکریت پسندوں کی طرف سے بڑھتا ہوا چیلنج ان کے وسائل کو مزید بڑھا رہا ہے۔

کابل میں امور خواتینِ کی وزارت کے باہر ایک نئی تحریر آویزاں تھی کہ جس پر اعلان کیا گیا کہ اب یہ ’تبلیغ اور رہنمائی کی وزارت‘ ہے جہاں سے نیک کام کرنے کی تبلیغ اور برائی سے روکنے کی تلقین کا کام ہوگا۔

ورلڈ بینک کے 10 کروڑ ڈالر کے وومن اکنامک امپاورمنٹ اینڈ رورل ڈیولپمنٹ پروگرام سے وابستہ شریف اختر نے بتایا کہ انہیں اور دیگر عملے کو عمارت سے باہر نکال دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘طالبان خواتین کے کام کرنے کےخلاف نہیں، چند سیکیورٹی خدشات ہیں’

افغان خواتین کے نیٹ ورک کی سربراہ مابوبا سورج نے کہا کہ وہ طالبان کی حکومت کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں پر پابندی لگانے کے احکامات سے حیران رہ گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعی بہت پریشان کن صورتحال ہے، کیا یہ وہ لمحہ ہے جہاں لڑکیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ میں جانتی ہوں کہ وہ (طالبان) وضاحت دینے پر یقین نہیں رکھتے لیکن وضاحتیں بہت اہم ہیں۔

مابوبا سورج نے کہا کہ متضاد بیانات شاید طالبان کے اندر تقسیم کی عکاسی کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے کوشاں ہیں، تحریک کے اندر موجود سخت گیر لوگوں سے وہ ہار رہے ہیں۔

افغان نژاد امریکی مابوبا سورج 2003 میں خواتین کے حقوق اور تعلیم کے فروغ کے لیے افغانستان واپس آئی تھیں اور ان کے مطابق بہت سے ان کے ساتھی کارکن ملک چھوڑ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے ساتھ رابطے اور درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہی ہیں لیکن اب تک سماجی کارکنوں سے ان کی ملاقات کی صورت نہیں بن سکی۔

مابوبا سورج نے زور دیا کہ ہمیں بات کرنی ہے، ہمیں ایک درمیانی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کے کھیلوں پر پابندی لگا دی

15 ستمبر کو افغانستان کی خواتین فٹبالرز انسانی بنیادوں پر ہنگامی طور پر ویزے جاری ہونے کے بعد اپنے خاندانوں کے ہمراہ طورخم سرحد کے ذریعے پاکستان پہنچ گئی تھیں۔

طالبان نے چند روز قبل افغانستان کے لیے مردوں پر مشتمل عبوری حکومت کا اعلان کیا تھا۔

کابینہ کے اعلان کے ساتھ ایک پالیسی بیان دیا گیا تھا جس میں اقلیتوں اور پسماندہ افراد کے حقوق کے تحفظ کی بات کی گئی تھی اور اس نے 'تمام اہل وطن کو شریعت کے دائرے میں تعلیم' دینے کا وعدہ کیا تھا۔

تاہم تین صفحات کے بیان میں خواتین کا ذکر نہیں کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں