داعش نے جلال آباد میں طالبان پر حملوں کی ذمے داری قبول کرلی

20 ستمبر 2021
جلال آباد میں ہفتہ اور اتوار کو کیے گئے حملوں میں طالبان جنگجوؤں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے— فوٹو: اے پی
جلال آباد میں ہفتہ اور اتوار کو کیے گئے حملوں میں طالبان جنگجوؤں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے— فوٹو: اے پی

شدت پسند تنظیم داعش نے افغانستان کے شہر جلال آباد میں طالبان کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلی۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق صوبائی شہر جلال آباد میں ہفتہ اور اتوار کو کیے گئے حملوں میں طالبان جنگجوؤں سمیت 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: جلال آباد: طالبان کی گاڑیوں کو نشانہ بنانے والے دھماکوں میں کم از کم 2 افراد ہلاک

داعش نے یہ دعویٰ اتوار کو رات گئے اپنے میڈیا ونگ اعماق نیوز ایجنسی پر شائع کیا اور اس دعوے کے ساتھ ہی افغانستان میں طالبان کے دیرینہ حریفوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

طالبان نے پچھلے مہینے تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے امریکی انخلا کے آخری مرحلے کے دوران افغانستان کا کنٹرول سنبھال کر دارالحکومت کابل پر قبضہ کرلیا تھا، غیر ملکی افواج کے انخلا کا عمل 30 اگست کو مکمل ہو گیا تھا۔

طالبان کو اب افغانستان پر حکومت کرنے کے حوالے سے بڑے معاشی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے اور داعش کے حملوں کی تیزی ان کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔

غیر ملکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا سے پہلے طالبان اور داعش، افغانستان میں ایک دوسرے کے حریف تھے جہاں مذہب اور حکمت عملی پر اختلافات دونوں کے درمیان اس مسابقت کا باعث بنے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: خواتین امور کی معطل وزارت کی عمارت کے سامنے عملے کا احتجاج

ہفتے کو ہونے والے دھماکے ایک ایسے موقع پر کیے گئے تھے جب طالبان نے لڑکوں اور مرد اساتذہ کو افغانستان میں سیکنڈری اسکول واپس جانے کی ہدایت کی تھی۔

ہفتے کو کلاسز کے آغاز سے قبل بیان میں طالبان نے کہا تھا کہ تمام مرد اساتذہ اور طلبا کو اپنے تعلیمی اداروں میں جانا چاہیے۔

تاہم جمعہ کو رات گئے جاری ہونے والے اس بیان میں خواتین اساتذہ یا طالبات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

2001 میں امریکا کی زیر قیادت اتحادی افواج کی افغانستان پر چڑھائی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد لڑکیوں کی تعلیم میں نمایاں پیش رفت ہوئی تھی جہاں اسکولوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ کیا گیا تھا اور خواتین کی خواندگی کی شرح دوگنی ہو کر 30 فیصد ہو گئی تھی۔

مزید پڑھیں: کابل کے ڈرون حملے میں شہری ہلاک ہوئے، پینٹاگون کا اعتراف

تاہم طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکولوں کے مستقبل کے حوالے سے شدید فکر مند ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں