کورونا کے دوران تدریسی عمل میں تعطل سے بچوں پر منفی اثرات کا خدشہ

اپ ڈیٹ 23 ستمبر 2021
طویل تعطیلات کے دوران منشیات کے استعمال کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
طویل تعطیلات کے دوران منشیات کے استعمال کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

ماہرینِ ذہنی صحت و امراض اطفال نے خبر دار کیا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران روایتی یا باقاعدہ تدریس میں طویل تعطل کے نتیجے میں بچوں کی کلاس رومز میں شمولیت اور نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے جوش میں کمی دیکھی جارہی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس کا سائنسی و طبی بنیادوں پر بروقت حل نہ نکالا گیا تو بچوں کے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، جن کی تلافی ممکن نہ ہوسکے گی۔

مذکورہ بیان ماہرین نے یونیورسٹی روڈ پر واقع ہیلتھ آئیکون میڈیکل اور ڈائیگنوسٹک سینٹر میں کورونا وبا کے اثرات اوربچوں کی جذباتی اور نفسیاتی رویے کے عنوان سے منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔

اس ورکشاپ میں معروف اسکولوں کے سینئر اساتذہ اور والدین نے شرکت کی اور کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر زوبیہ رمضان، ڈاکٹر واس دیو امر، ڈاکٹر ساجد جبار،معروف سائیکو تھراپسٹ ڈاکٹرکلثوم حیدر، کلینیکل سائیکالوجسٹ مس سنبل، اسپچ تھراپسٹ مس حنا، مس اسما آغا، مس مہوش، ڈاکٹر فاہیلہ اور ڈاکٹر ذکیہ افتخار نے بھی خطاب کیا۔

مزید پڑھیں : میٹرک و انٹر کے طلبہ کا وزیراعظم سے امتحانات منسوخ کرنے کا مطالبہ

ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر واس دیو امر نے کہا کہ بڑی جماعتوں کے بچوں میں کورونا وائرس کی طویل تعطیلات کے دوران منشیات کے استعمال کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصاً پوش علاقوں میں آئس، کرسٹل کے علاوہ چرس اور کوکین کے کیسز بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

ڈاکٹر واس دیو امر نے کہا کہ ایسے بچوں کی کلاس روم میں شمولیت بہت کم اور اسکول پرفارمنس بہت ناقص ہوتی ہے اور وہ تنہائی پسند ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معالجین کے ساتھ حکومتی سطح پر بھی اس مسئلے کو دیکھا جائے اور سماجی و اصلاحی تنظیمیں بھی آگے بڑھ کر کردار ادا کریں۔

یہ بھی پڑھیں: طلبہ تیاری کریں، امتحانات ملتوی یا منسوخ نہیں ہوں گے، شفقت محمود

ڈاکٹرکلثوم حیدر نے کہاکہ اساتذہ اسکول اور والدین گھر میں بچوں پر ہی توجہ مرکوز رکھیں ان کے رویے اور رجحانات میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کا مشاہدہ کریں تو باہم رابطے سے اس کا حل نکالیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاملے پر فوری ردعمل ظاہر نہ کیا جائے اس ضمن میں ذہنی صحت کے ماہرین سے بھی مشاورت کی جاسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسکول کے ساتھ دینی مدارس میں زیرتعلیم بچوں پربھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اس کےلیے خاص طور علما سے صلاح مشورہ اور ذہنی صحت کے ماہرین سے ان کا رابطہ کرانا ضروری ہے۔

ڈاکٹر ساجد جبار نے کہا کہ ان دنوں بعض بچوں میں پہلے سے عام شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ اسکول کے اوقات کے دوران بچوں کے پیٹ میں درد ہوتاہے گھر آنے کے کچھ دیر بعد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ والدین کو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بچے کو پیٹ کے درد کے ساتھ دیگر شکایات ہیں مثلا ہلکا بخار، الٹی متلی اور چکر وغیرہ تو ایسے بچوں کےلیے ماہر امراض اطفال سے رجوع کریں بصورت دیگر ذہنی صحت کے ماہرین سے مشورہ کریں۔

سنبل مجیب نے کہاکہ اساتذہ، طلبہ کی کلاس میں شمولیت اور والدین گھر میں مثبت مصروفیت کے ذریعے کوشش کریں۔

انہوں نے کہاکہ بحیثیت قوم ہم اپنے حال سے بے خبر ماضی میں رہنے کے عادی ہیں یا مستقبل میں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حال میں رہنے کی کوشش کریں اگر یہ راستہ مشکل ہے تو لازم ہے کہ ہم اسی راستے پر چلیں کیونکہ اسی سے ہمارا مستقبل روشن ہوسکے گا۔

ڈاکٹر زوبیہ رمضان نے بچوں کی عزت نفس مجروح کیے بغیر پڑھائی کا شوق بیدار کرنے طریقے بتاتے ہوئے کہاکہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بچوں پر سختی کیے بغیرپڑھائی کی طرف مائل کیا جا نا چاہیے یہ تاثر مکمل طور پر درست نہیں ہے ۔

مزید پڑھیں: تعلیمی سرگرمیاں بحال کرنے سے متعلق طلبہ کے منفی ردعمل پر وزیر تعلیم حیران

انہوں نے کہا کہ بچوں پر ایسی سختی کی ضرورت نہیں جیسے مارپیٹ ،ڈانٹ ڈپٹ ،جھڑکیاں دینا جن سے اسے بے عزتی محسوس ہو اس کے مقابلے میں ایسی سختی کی جاسکتی ہے جیسے انٹرویل میں اسے یہ کہہ کر کلاس میں روک دیا جائے چونکہ آپ کےلیے تعلیم کو زیادہ وقت دینا ضروری ہے اس لیے آپ انٹر ویل میں بھی اپنا سبق یاد کریں گے یا پھر باقی رہ جانے والا کام مکمل کریں گے۔

ڈاکٖٹر زوبیہ کا کہنا تھا کہ اسی طرح اسے اسکول آنے سے یہ کہہ کر روک دیا جائے کہ وہ گھر پر بیٹھ کر اسکول کا کام مکمل کرے او ر والدین پر واضح کردیا جائے کہ اسے گھر پر ہر صورت، دیگر سرگرمیوں سے روک کر اسکول کاکام مکمل کرائیں۔

ڈاکٹر ذکیہ افتخار اور دیگر ماہرین نے کہاکہ موجودہ حالات میں عمومی طور پر تمام اور خاص طور پر تبدیل شدہ رویے کے حامل بچوں کا مکمل معائنہ کرانے کی ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق بچوں کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا، ان پر مرتب نفسیاتی اور جذباتی اثرات کو سمجھنا ہوگا اگر ہم ایسا کریں گے تو درحقیقت اپنے اورقوم کے مستقبل کو محفوظ کرلیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں