بھارت: آسام میں پولیس اور صحافی کا ایک شخص پر تشدد، ویڈیوز وائرل ہونے پر غم و غصہ

اپ ڈیٹ 24 ستمبر 2021
ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس اہلکار اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں اور ایک شخص قریب آتے ہی وہ اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ - فوٹو بشکریہ انڈیا ٹوڈے ویب سائٹ
ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پولیس اہلکار اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں اور ایک شخص قریب آتے ہی وہ اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ - فوٹو بشکریہ انڈیا ٹوڈے ویب سائٹ

نئی دہلی: سوشل میڈیا پر ایک متنازع ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بھارتی حکام شدید تنقید کی زد میں ہیں جس میں ایک کیمرا پرسن کو ایک شخص پر حملہ کرتے دیکھا گیا جو زخمی ہوکر زمین پر گرگیا تھا جس کے بعد پولیس کو عوام پر فائرنگ کرتے بھی دیکھا گیا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا کہ مسلح پولیس اہلکار اندھا دھند فائرنگ کر رہے ہیں اور جیسے ہی کوئی شخص ان کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہے وہ اسے گھیر لیتے ہیں اور اس پر ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے حملہ کرتے ہیں۔

جیسے ہی وہ شخص زمین پر گرتا ہے، بظاہر کسی بندوق کی گولی کی وجہ سے اور اس میں کوئی حرکت نہیں رہتی، ایک کیمرا پرسن اس کی طرف دوڑتے ہوئے آتا ہے، اس پر کودتا ہے اور اس پر تشدد کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت: اتر پردیش میں مسلمان پر تشدد، زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوائے گئے

بھارتی خبر رساں ادارے اسکرول ڈاٹ اِن کے مطابق جمعرات کو مبینہ طور پر غیر قانونی تجاوزات کو ہٹانے کی مہم کے دوران آسام کے ضلع درنگ کے علاقے سِپاجھر میں پیش آنے والے اس واقعے میں کم از کم دو افراد ہلاک ہوئے جہاں زیادہ تر رہائشی بنگلہ دیشی نژاد مسلمان ہیں۔

ایک اور ادارے ہندوستان ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والا کیمرا پرسن ضلعی انتظامیہ کا ملازم تھا اور پولیس نے اس کی شناخت بیجے شنکر بنیا کے نام سے کی ہے۔

بعد ازاں آسام کے ڈی جی پی نے ٹوئٹ کیا کہ کیمرا پرسن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اسکرول ڈاٹ اِن نے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) درنگ سوشانت بسوا شرما کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس واقعے میں نو پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔

اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی شناخت مسلمان ناموں سے ہوئی ہے تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا کہ ویڈیو میں دیکھا گیا شخص ان میں سے تھا یا نہیں۔

بتایا گیا کہ 'آسام حکومت نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو ان ہلاکتوں اور اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا حکم دیا ہے'۔

دریں اثنا ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہمانتا بسوا شرما نے مہم کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ 'پولیس اپنی ڈیوٹی انجام دے رہی تھی اور میری معلومات کے مطابق لوگوں نے پولیس پر کلہاڑوں اور دیگر چیزوں سے حملہ کیا تھا'۔

واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر ہونے کے بعد ٹوئٹر پر سیاستدانوں، صحافیوں اور کارکنوں کی جانب سے بھارتی حکام پر سخت تنقید کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمان بزرگ شہری کی زبردستی داڑھی کاٹنے والے ملزمان گرفتار

پاکستان کے وزیر بحری امور علی زیدی نے ویڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شیئر کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ اپنے ملک کو ایک 'وحشی ریاست' میں تبدیل کر رہے ہیں۔

بھارت کی اہم اپوزیشن پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے آسام کے لوگوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست، 'ریاست کی لگائی گئی آگ' میں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا کوئی بھی بچہ اس قابل نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی عندلیب عباس نے ٹوئٹ کیا کہ 'ہندوتوا حکومت بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، عدم برداشت، تعصب اور تلخی سے بھری ہے'۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس واقعے کا موازنہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم سے کیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Tariq Sep 24, 2021 03:53pm
real face of India.. Bengali people can see what's speaking with their brothers and sister in India... Extremely shameful act..