جہاں طالبان افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مالی امداد کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں امریکی محکمہ خزانہ نے امریکی حکومت، این جی اوز اور بعض بین الاقوامی تنظیموں کو، جن میں اقوام متحدہ شامل ہے طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ لین دین دین کی اجازت دے دی۔

روسی خبر رساں ادارے 'اسپوتنک' کی رپورٹ کے مطابق محکمہ خزانہ نے ایک اور لائسنس بھی جاری کیا ہے جس میں خوراک، ادویات اور طبی آلات کی برآمد اور دوبارہ برآمد سے متعلق چند لین دین کی اجازت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کیلئے انسانی بنیادوں پر امداد بھیج رہے ہیں، دفتر خارجہ

امریکی محکمہ خزانہ نے نشاندہی کی کہ تمام ٹرانزیکشنز کے لیے لائسنس کی درخواستوں پر، جن کی اجازت نہیں دی گئی ہے یا مستثنیٰ نہیں ہیں، ان کے کیس کی بنیاد پر غور کیا جائے گا اور انسانی امداد سے متعلق درخواستوں کو ترجیح دی جائے گی۔

امریکی ٹریژری آفس آف فارن ایسٹس کنٹرول کی ڈائریکٹر آندریا گیکی نے ایک بیان میں کہا کہ 'محکمہ خزانہ افغانستان کے لوگوں کے لیے انسانی امداد اور دیگر بنیادی انسانی ضروریات کی سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لیے پرعزم ہے'۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا، مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر افغانستان میں زرعی سامان، ادویات اور دیگر وسائل کے بہاؤ کو کم کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا جبکہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک دونوں پر واشنگٹن کی عائد کردہ پابندیوں کو برقرار رکھے گا۔

واشنگٹن کی جانب سے طالبان کے ساتھ کچھ لین دین کی اجازت دینے کا یہ اقدام افغانستان کی جانب سے متعدد مطالبات کے بعد اٹھایا گیا ہے، تاکہ ملک کو بین الاقوامی عطیہ دہندگان کی مالی مدد کو وسطی ایشیائی ملک کو پہنچنے والے انسانی بحران سے نمٹنے کے قابل بنائے۔

یہ بھی پڑھیں: جنگ زدہ ملک افغانستان کیلئے 4 کروڑ یورو کی ہنگامی امداد مختص

رپورٹس کے مطابق افغان، تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث مشکلات کا شکار ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کی اکثریت کو اب بھی کام پر واپس نہیں آنا ہے۔

افغان سینٹرل بینک نے حکومتی اور غیر سرکاری تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے چند علاقوں میں امریکی ڈالر، ایرانی ریال اور پاکستانی روپے کے بڑھتے ہوئے استعمال کو روکیں اور اپنے معاہدوں اور معاشی لین دین میں قومی کرنسی استعمال کریں۔

قوم کو مبینہ طور پر طالبان کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے نقد رقم کی کمی کا سامنا ہے جو گروپ کو بیرون ملک موجود افغان مرکزی بینک کے اثاثوں تک رسائی سے روکتا ہے۔

خاص طور پر اس سے افغان کرنسی کی قدر میں مزید کمی اور اس کے نتیجے میں مہنگائی کے خدشات نے جنم لیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں