پاکستان، بھارت میں یکساں طور پر خواتین کے حقوق کی علمبردار کملا بھاسن انتقال کر گئیں

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2021
جنوبی ایشیا بھر سے ان کے انتقال پر غم کا اظہار کیا گیا—فوٹو: انڈین ایکسپریس
جنوبی ایشیا بھر سے ان کے انتقال پر غم کا اظہار کیا گیا—فوٹو: انڈین ایکسپریس

پاکستان اور بھارت میں یکساں طور پر خواتین کے حقوق کی علمبردار کملا بھاسن 75 برس کی عمر میں کینسر کے باعث انتقال کرگئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کملا بھاسن کا انتقال ہفتے کے روز ہوا، انہوں نے مختصر عرصے تک کینسر کے خلاف جنگ لڑی۔

انہیں شاید وہ نعرہ لگانے کے لیے یاد رکھا جائے گا جو پہلے پاکستانی خواتین نے جنرل ضیا الحق کی آمریت کی خلاف استعمال کیا تھا۔

بھارت میں اس نعرے کے سفر کے ایک ورژن کے مطابق 1991 میں کملا بھاسن نے کولکتہ کی جادوپور یونیورسٹی میں اس وقت لوگوں کی توجہ حاصل کی جب انہوں نے ڈرم بجا کر ایک نعرہ لگایا۔

انہوں نے خواتین کے گرد کھڑے ہو کر پدرشاہی کے خلاف 'آزادی' کا نعرہ لگایا تھا۔

آزادی کا نعرہ اب طلبا کے تقریباً ہر احتجاج میں ایک عام سی بات بن گئی ہے۔

یہ نعرہ 2016 میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبا کے لیڈر کنہیا کمار نے امتیازی سلوک، براہمنزم اور غریب سے 'آزادی' کا مطالبہ کرتے ہوئے لگایا تھا۔

بعدازاں بھارت کے نئے سٹیزن شپ کے قوانین کے خلاف سی اے اے-این آر سی مخالف احتجاجوں میں بھی یہ نعرے بلند کیے گئے تھے۔

یہ نعرہ رنویر سنگ کے بطور ریپ آرٹسٹ فلم 'گلی بوائے' کے تحت پاپ کلچر کا بھی حصہ بنا، اس گانے کو دوب شرما نے گایا تھا۔

کملا بھاسن ایک نامور شاعر اور 1970 کی دہائی سے بھارت اور جنوبی ایشیا کی خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں۔

وہ ضلع منڈی بہاؤ الدین، جو اب پاکستان میں ہے، میں 24 اپریل 1946 کو پیدا ہوئی تھیں اور برصغیر پاک و ہند کی آزادی کے بعد اپنے خاندان سمیت راجستھان منتقل ہوگئی تھیں۔

2019 میں دی کوئنٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کملا بھاسن نے بتایا تھا کہ انہوں نے یہ نعرہ پہلی مرتبہ 1980 کی دہائی میں پاکستان میں فیمنسٹس کے درمیان سنا تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ 'پاکستان میں اس وقت ضیا الحق کی حکمرانی تھی، ضیا الحق کے خلاف جو پہلا گروہ کھڑا ہوا تھا وہ سیاسی جماعت نہیں بلکہ وہ پاکستانی فیمنسٹس کا گروہ تھا'۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'ایک ایسے اجلاس میں، میں بھی شریک تھی اور وہاں انہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا'۔

کملا بھاسن نے بتایا تھا کہ 'نعرہ یہ تھا: عورت کا نعرہ—آزادی/بچوں کا نعرہ— آزادی/ہم لے کے رہیں گے—آزادی/ہے پیارا نعرہ—آزادی'۔

اس نعرے سے متاثر ہو کر کملا بھاسن نے اسی پر مبنی اپنی ایک نظم لکھی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'میں بہت سی خواتین کو جانتی ہوں جو مکمل طور پر پدرشاہی سوچ کی حامل ہیں، جو مکمل طور پر خواتین کے خلاف ہیں اور میں ایسے مردوں کو بھی جانتی ہوں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کیا ہے'۔

کملا بھاسن نے کہا تھا کہ 'فیمنزم حیاتیاتی نہیں ہے، فیمنزم ایک نظریہ ہے'۔

خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی مہم 'ون بلین رائزنگ فرام ساؤتھ ایشیا' کے دوران انہوں نے یہ مقبول ترین جملے پڑھے تھے' پدرشاہی سے — آزادی/درجہ بندی سے—آزادی/نہ ختم ہونے والے تشدد سے— آزادی۔۔۔ خود اظہار کے لیے — آزادی/جشن کے لیے— آزادی'۔

1970 کی دہائی میں اقوام متحدہ کی ملازمت چھوڑنے کے بعد کملا بھاسن نے اپنا مکمل وقت فیمنسٹ نیٹ ورک سنگت کو دیا تھا۔

جنوبی ایشیا بھر سے ان کے انتقال پر غم کا اظہار کیا گیا اور دہلی کے لودھی الیکٹرک شمشان گھاٹ میں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں