سفرِ ترکی قبل از لاک ڈاؤن اور بعد از لاک ڈاؤن (پہلا حصہ)

گرم موسم کے باعث ستمبر اس روز ستم گر محسوس ہو رہا تھا۔ کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے بیرونِ ملک زیادہ تر پروازیں رات میں ہی اڑان بھرتی ہیں اس لیے ہمیشہ ہی ہجوم اور لمبی قطاریں ذہن میں رکھ کر کم از کم 3 گھنٹے قبل پہنچ جانا بہتر ہوتا ہے۔

ہماری براستہ قطر ترکی کے شہر انطالیہ کی پرواز کو رات ساڑھے 4 بجے روانہ ہونا تھا۔ رش تو کورونا سے پہلے بھی ایسے ہی کھڑکی توڑ ہوتا تھا لیکن اب ویکسین سرٹیفکیٹ اور کورونا کی ٹیسٹ رپورٹ ویری فکیشن جیسے معاملات نے لمبی قطاروں کے سرکنے کی رفتار مزید کم کردی ہے۔

بورڈنگ سے لے کر پاسپورٹ پر ایگزٹ اسٹمپ لگنے تک کے تمام مراحل انتہائی صبر کا تقاضا کرتے ہیں۔ ویسے صبر کے علاوہ کوئی راستہ ہے بھی نہیں۔ تفریح کے لیے پاپڑ تو بیلنے ہی ہوتے ہیں۔ آخرکار پرواز کے لیے مختص گیٹ پر پہنچ کر جب نظریں دوڑائیں تو کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ پھر یاد آیا کہ کریڈٹ کارڈ پر سی آئی پی لاؤنج کی مفت سہولت کس دن کام آئے گی۔ بورڈنگ کے اعلان تک سی آئی پی لاؤنج کے آرام دہ صوفے ہمارے منتظر تھے۔

رات گہری ہوتی جا رہی تھی اور نیند اپنی آغوش میں سکون لیے ہوش کے دروازے پر دستک دے رہی تھی۔ آخر جہاز پر سوار ہونے کے اعلان نے ارتعاش پیدا کیا تو لائن بنا کر آہستہ آہستہ مسافر جہاز کی جانب سرکنے لگے۔

کراچی سے استنبول کی پرواز 5 گھنٹے سے کچھ زیادہ ہے، اس مرتبہ ہماری فلائٹ براستہ دوحہ تھی اس کا مطلب ہمیں تقریبا 2 گھنٹے بعد جہاز تبدیل کرنا تھا۔ جیسے ہی جہاز نے کراچی سے ٹیک آف کیا ہم نے آنکھیں موند لیں اور ساتھ ہی خیالوں میں پچھلے دورہ ترکی کا 'فلیش بیک' فلم کی مانند چلنے لگا۔ چونکہ اس مرتبہ ہم نے ترکی کے وہ شہر گھومنے ہیں جو پچھلی مرتبہ نہیں دیکھے جاسکے تھے اس لیے قارئین کی دلچسپی کے پیشِ نظر 2017ء کے دورہ ترکی کا مختصر احوال پیش ہے۔ اس مرتبہ کیا کیا دیکھا وہ تو بتانا ہی ہے۔

ہمارے ادارے کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے، ہمارے ادارے نے اپنے 100 سے زائد منتخب ملازمین کے لیے سالانہ کانفرنس کا اہتمام ترکی کے شہر 'ازمیر' میں کیا تھا۔ مجھ سمیت 3 لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ کانفرنس سے ایک ہفتے قبل ازمیر اور استنبول پہنچ کر انتظامات کو حتمی شکل دی جائے۔ کانفرنس کے بعد پورا ہفتہ صرف گھومنا پھرنا تھا۔

میں ترکی پہلی مرتبہ جا رہا تھا اور کافی پُرجوش تھا۔ لاہور ایئرپورٹ سے استنبول پہنچے تو استنبول کے ایئرپورٹ پر بہت رش پایا۔ ایئرپورٹ بہت بڑا ہے لیکن عمارت پرانی تھی۔ ویسے لکھتے لکھتے لقمہ دے دوں کہ اب 2021ء میں ہم نئے ایئرپورٹ سے واپس کراچی روانہ ہوں گے جس کا تذکرہ آگے ضرور ہوگا۔

امیگریشن سے فارغ ہونے کے بعد ہوٹل تک 3 افراد کے لیے بھیجی گئی پوری کوسٹر پر سفر کرتے استنبول شہر کے تاریخی ضلع سلطان احمد پہنچ گئے۔ کوسٹر نے کسی شارع پر ہی اتار دیا جہاں سے ہمیں اپنے ہوٹل تک پیدل جانا تھا۔ سلطان احمد کا زیادہ تر علاقہ تنگ لیکن صاف ستھری اور پکی گلیوں پر مشتمل ہے اور یہاں بہت سی تاریخی عمارتیں موجود ہیں جن کا تذکرہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا۔ ہم میٹرو ٹرین کی لائن کراس کرکے ہوٹل پہنچ گئے۔

ضلع سلطان احمد کی میٹرو ٹرین کی لائن (2017ء)
ضلع سلطان احمد کی میٹرو ٹرین کی لائن (2017ء)

سامان رکھا اور سُکھ کا سانس لیا۔ جلدی سے واش روم میں گئے تو چیخ نکل گئی۔ اپنے ساتھ لاہور سے آئے دوست اسد کو زور سے آواز دی۔ بھائی یہ کہاں پھنسوا دیا۔ اسد ترکی میں تعلیم حاصل کرچکا ہے اور ہوٹل کی بکنگ بھی اسی نے کروائی تھی اس لیے اس پورے دورے میں ہر غلطی کا نشانہ اسد کو ہی بننا تھا۔ اسد نے دروازے کے باہر سے پوچھا کیا ہوا بھائی، میں نے کہا یار کیسا مسلمان ملک ہے کہ ٹوائلٹ میں مسلم شاور ہی نہیں! کسی اور ہوٹل چلو جہاں کم از کم یہ سہولت تو ہو۔

اسد جواب کے بجائے ہنسنے لگا۔ میرا اشتعال بڑھتا جا رہا تھا۔ کہنے لگا یہاں ترکی میں مسلم شاور نہیں ہوتا۔ گرما گرمی جب بڑھ گئی تو ہنستے ہوئے کہنے لگا کموڈ کے ساتھ ایک گھمانے والا جو وال ہے اس کو گھمائیں گے تو کموڈ کے اندر سے شاور چلے گا، علیحدہ سے شاور یہاں نہیں ہوتا۔ جلدی سے دیکھا تو سکون کی ٹھنڈی لہر نے مسکرانے پر مجبور کردیا۔ کچھ دیر کمر سیدھی کرنے کے بعد ہم تینوں نماز کی ادائیگی کے لیے تاریخی سلطان احمد مسجد کی جانب روانہ ہوگئے، جسے بِلو ماسک یا نیلی مسجد بھی پکارا جاتا ہے۔

نیلی مسجد (2017ء)
نیلی مسجد (2017ء)

نیلی مسجد کے باہر لگا بورڈ
نیلی مسجد کے باہر لگا بورڈ

نیلی مسجد (2017ء)
نیلی مسجد (2017ء)

نیلی مسجد کا اندرونی حصہ (2017ء)
نیلی مسجد کا اندرونی حصہ (2017ء)

نیلی مسجد کا صحن (2017ء)
نیلی مسجد کا صحن (2017ء)

1609ء میں مکمل ہونے والی عظیم الشان سلطان احمد یا 'نیلی مسجد' عثمانی فنِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ مرکزی عمارت 5 گنبدوں اور 6 میناروں کے ساتھ اپنے دلکش منظر میں محو کردیتی ہے۔ مسجد میں 8 چھوٹے گنبد بھی ہیں۔ مرکزی گنبد آسمان کی وسعتوں کو ظاہر کرتا اور نیلے رنگ کا خوبصورت عکس دیتا ہے۔ مسجد کا مرکزی ہال خوبصورت سنہری نقاشی سے بھرپور ہے جہاں قرآنی آیات اور درود ابراہیمی کندہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تمام نقش و نگار ہاتھوں سے بنائے گئے تھے۔ گنبد کے اندورنی حصوں سے لے کر دیواروں تک شاید ہی کوئی مقام ہو جسے سنوارنے میں کسر چھوڑی گئی ہو۔

روشنی کے لیے گنبد کے اندرونی حصے سے تھوڑا نیچے شیشے کی کھڑکیاں ہیں، اس کے علاوہ ایک بہت خوبصورت فانوس کی تنصیب کے ساتھ بہت سی آرائشی لائٹس نصب کی گئی ہیں۔ باہر صحن کے مرکز میں خوبصورت فوارہ موجود ہے اور فرش سمیت اردگرد خوبصورت سفید سنگِ مرمر کی آراستگی دیکھی جاسکتی ہے۔ نمازیوں کے لیے سرخ قالین فرش پر موجود ہے۔ صرف نیلی مسجد نہیں بلکہ ترکی کی وہ تمام مساجد جہاں تک ہماری پہنچ ممکن ہوئی اپنے گنبد، مینار اور تعمیراتی طرز میں ایک جیسی ہی محسوس ہوتی ہیں۔ مساجد کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ منبر اندازاً یا کم از کم 10 فٹ کی بلندی پر بنایا گیا ہوتا ہے یعنی پاکستان میں 2 یا 3 سیڑھیاں چڑھنے والے امام صاحب کو ترکی میں 20 سے 30 سیڑھیاں چڑھ کر کافی اوپر جانا پڑے گا۔

نیلی مسجد اپنے دور میں اللہ کی کبریائی بیان کرنے اور عثمانی سلطنت کی شان و شوکت کے اظہار کے لیے عین بازنطینی سلطنت کے اہم ترین مقام پر بنائی گئی تھی۔ 2017ء میں بھی مسجد کی تزئین و آرائش کا کام جاری تھا جو 2020ء میں مکمل ہونا تھا۔ امید ہے اب تک مکمل ہوچکا ہوگا۔

نیلی مسجد کا منبر (2017ء)
نیلی مسجد کا منبر (2017ء)

نیلی مسجد میں مرمتی کام جاری ہے (2017ء)
نیلی مسجد میں مرمتی کام جاری ہے (2017ء)

آیا صوفیا (2017ء)
آیا صوفیا (2017ء)

سلطان احمد مسجد یونیسکو کی تاریخی ورثہ قرار دی جانے والی عمارت میں سے ایک ہے۔ مسجد کے باہر بہت بڑا میدان ہے جو سبز قطعات اور درختوں سے بھرپور ہے۔ مسجد سے جیسے ہی باہر آئیں تو دائیں جانب ایک اور ایسی ہی عمارت نظر آئے گی جو اس وقت آیا صوفیا عجائب گھر تھا جسے 2020ء میں دوبارہ مسجد کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ 2017ء میں ہم نے عجائب گھر کی حیثیت سے اس مقام کو دیکھا تھا۔

بائیں جانب راستہ تاریخی بازار کی طرف جاتا ہے اور عین سامنے ٹرام کا ٹریک ہے جہاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹرام گزرتی ہے تو پیدل چلنے والے بغیر کسی پریشانی کے ایک جانب ہوجاتے ہیں۔

ہم یہی سوچنے لگے کہ اگر یہ ٹرام ہمارے کسی علاقے سے ایسے ہی گزرے تو روزانہ نہ جانے کتنے حادثات ہوں لیکن یہاں ٹرام گزرتے ہی دوبارہ سب ویسے ہی ہو جاتا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

مسجد سے نکل کر ہم بازار کی طرف چل پڑے۔ بازار میں کراچی کے صدر کی طرح کے پتھارے موجود نہیں ہیں بلکہ ایک ترتیب سے دکانیں موجود ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ کتے گھوم رہے ہیں لیکن قریب سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ آوارہ کتے ہیں بلکہ ان کے جسم پر ایک چپ لگا دی گئی ہے اور یہ کسی کو کاٹتے نہیں ہیں۔

وہاں سے گزرتے ہوئے اچانک مجھے ایک دکان پر پیاز کا ہم شکل لیکن نسبتاً سیاہی مائل ایک پھل دکھائی دیا۔ ہم ترکی کے اہم سیاحتی مرکز پر موجود تھے لیکن دکاندار بمشکل ہی انگریزی سمجھ رہے تھے اس لیے معلوم کرنے پر بھی جواب ندارد۔ خود ہی پھل کو توڑ کر دیکھا تو اندر سے دانے دار تھا۔ ذائقہ چیک کیا تو معلوم ہوا یہ انجیر کا پھل ہے۔

انجیر کا سیاہی مائل پھل (2021ء)
انجیر کا سیاہی مائل پھل (2021ء)

انجیر کا سبز پھل (2021ء)
انجیر کا سبز پھل (2021ء)

انجیر کا پھل (2021ء)
انجیر کا پھل (2021ء)

ہمارے ہاں انجیر کو سکھا کر رسی میں ڈال کر فروخت کیا جاتا ہے لیکن یہاں اس کا تازہ پھل بھی مل رہا تھا، جو کافی خوش ذائقہ تھا۔ کھانے کا وقت ہوچکا تھا۔ ایک ریسٹورینٹ پہنچے تو 2 باتیں نمایاں نظر آئیں، ایک تو یہاں کھانے میں انڈے کا زیادہ استعمال ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ پنیر بکثرت دستیاب تھا۔

سلطان احمد کے ریسٹورینٹ پر سجے ہوئے کھانے (2017ء)
سلطان احمد کے ریسٹورینٹ پر سجے ہوئے کھانے (2017ء)

کھانا مزیدار تھا۔ ایک چیز جو واپسی تک پیچھا کرتی رہی وہ 'دال کا سوپ' ہے جو ہر کھانے سے پہلے لازمی اور عموماً مفت دیا جاتا ہے۔ شروع شروع میں سب مزیدار لگتا ہے لیکن آخرکار پاکستان کے دیسی کھانوں کی یاد آ ہی جاتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کی طرح ترکی میں ہمیں ہندوستانی یا پاکستانی ریسٹورینٹ بہت کم دکھائی دیے۔ ایئرپورٹ سے فون سم خرید لی تھی اس لیے ہمارے پاس انٹرنیٹ موجود تھا۔

ہمیں تقسیم اسکوائر جانا تھا۔ فون میں موجود پاکستان والی آن لائن ٹیکسی ایپ کو کھولا تو وہ یہاں بھی چل رہی تھی۔ اس سے پہلے یہی ایپ ہم نے دیگر ممالک میں بھی آزما کر دیکھی تھی۔ کچھ نیا نہیں کرنا ہوتا صرف ایپ کھولیں اور استعمال کریں۔ البتہ پیسے مقامی کرنسی کے مطابق ادا کرنا ہوں گے۔ یہاں ایک مشکل تھی اور وہ یہ کہ اکثر ڈرائیور انگریزی سے بالکل نابلد ہیں اس لیے آپ میسج کرکے ان سے کوئی معلومات کا باآسانی تبادلہ نہیں کرسکتے یوں درست مقام کا تعین کرپانا کٹھن ہوجاتا ہے اور کسی مشہور مقام پر کھڑے ہوکر انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پیلی ٹیکسی بھی موجود ہے لیکن اس سے آپ کو بھاؤ تاؤ کرنے کی کوفت اٹھانا ہوگی کیونکہ یہاں ٹیکسی میں میٹر تو موجود ہے لیکن ٹیکسی والا بھائی کوشش یہی کرے گا کہ آپ سے کوئی رقم پہلے سے ہی طے کرلے۔ اس کے لیے رش کا بہانہ بنایا جائے گا، بہرحال کچھ دیر میں ایک خوبصورت مرسڈیز وین ہمارے سامنے موجود تھی۔ خوشگوار حیرت کے ساتھ سوار ہوکر گاڑی کے آرام اور باہر کے نظاروں کا لطف اٹھاتے تقسیم اسکوائر پہنچ گئے۔ یہاں ہمیں ایک مقامی گائیڈ سے ملنا تھا جس نے ہمارے پورے گروپ کے لیے مختلف انتظامات کرنے تھے۔

اپنے میزبان سے ایک کافی شاپ پر ملنے کے بعد تقسیم اسکوائر کے بازار کی طرف چل دیے۔ یہاں نیچے کی جانب جاتے ہوئے نسبتاً تنگ گلی کے اردگرد بڑے برانڈز کی دکانیں موجود ہیں۔ بازار کے درمیان ٹرام کی لائن بچھائی گئی ہے جو اس وقت مرمت کے کام کی وجہ سے بند تھی۔ بازار بڑی آنت کی طرح طویل ہے۔ بازار شروع ہونے سے پہلے بڑے چوک پر ترک فوج کی یادگار موجود ہے۔

تقسیم اسکوائر پر موجود یادگار (2017ء)
تقسیم اسکوائر پر موجود یادگار (2017ء)

تقسیم اسکوائر پر موجود یادگار (2017ء)
تقسیم اسکوائر پر موجود یادگار (2017ء)

بازار میں ترک لیرا اور یورو چلیں گے، ڈالر بھی چلے گا لیکن اجنبی اجنبی سا۔ تقسیم اسکوائر سے واپسی پر رات ہوچکی تھی اس لیے آرام کے لیے واپس ہوٹل آگئے۔


لکھاری نیو ٹی وی کے پروگرام کرنٹ افیئرز کی میزبانی کرتے ہیں۔